تہوار یا کھانے
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تہوار یا کھانے۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی آمد تو711 میں محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ ہی ہو گئی تھی۔مگر ہندووں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس میں بہت سی بدعات بھی رائج ہو گئیں۔جیسے کہ ہندو اپنے پنڈتوں کو کسی مال، کھانے پینے کی اشیاء، کپڑے، زیور، پیسے وغیرہ کا نذرانہ دے کر اپنے حصے کی عبادت کروا لیتے ہیں۔یا دعا کرواتے ہیں۔یوں خود عبادت سے بچ جاتے ہیں۔ہندو پنڈتوں نے بھی اپنی مقدس کتب عوام تک نہیں پہنچنے دیں کہ اس صورت میں ان کی کمائی کا ذریعہ بند ہو جاتا ہے۔یہی حال ہم مسلمانوں کا بھی ہے کہ ہم مولوی کو پیسے دے کر ، پیروں فقیروں کو نذرانے دے کر، مزاروں پر چڑھاوے چڑھا کر ان سے مدد، دعا، مشکلات کا حل چاہتے ہیں اور خود دو نفل، پانچ وقت نماز اور قرآن پڑھ کر دعا نہیں کرنا چاہتے ۔
ہمیں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے تہوار دو ہی ہیں عید الاضحٰی اور الفطر۔مگر ہم نے عیسائیوں سے متاثر ہو کرعید میلاد، ہندووں سے متاثر ہو کر محرم کے جلوس،چہلم، جمعراتیں، مختلف پیروں کے ختم، شادی کی رسومات مہندی، مایوں ،ڈھولکی، بارات، جہیز، مختلف دنوں کے ختم بچے کی پیدائش پر چھوانی، چلہ اور دیگر رسومات ایجاد کر لیں۔جن کا ثبوت قرآن حدیث ، تابعین، تبع تابعین کسی کے دور سے نہیں ملتا۔
چلیں یہ سب تو ہم نے کر ہی لیا اور اس وجہ سے اپنی زندگی مشکل بھی بنا لی کہ اگر یہ رسوم ادا نہ کیں تو لوگ کیا کہیں گے ہماری ناک کٹ جائے گی اس لیے چاہے قرض اٹھا کر یہ سب رسوم ادا کریں کرنی ضرور ہیں۔
مگر ان سب رسوم میں ایک چیز مشترک ہے وہ ہے مختلف رسوم پر مختلف کھانے۔اسلام دین فطرت ہے جس نے لوگوں کے گلے میں پڑے ان رسوم کے طوق اتار کر اس پر عمل اس قدر آسان بنا دیا تھا کہ غریب ہو یا امیر کسی کے لیے بھی اسلام کے کسی بھی رکن پر عمل مشکل نہ تھا۔اور جن اراکین کے لیے مال و دولت ضروری تھا، حج، عمرہ، قربانی، زکوہ ان کے لئے شرط ہی یہ رکھ دی کہ صاحب استطاعت
پر ہی فرض ہیں۔
لیکن ہم نے سوچا اللہ تعالٰی کو تو معلوم ہی نہیں تھا، نعوذ باللہ، کہ یہ سب رسوم بھی کتنی ضروری ہیں۔چنانچہ ہم نے نو دس محرم کو روزہ رکھنے کی بجائے سبیلیں، کونڈے، حلوہ پوری، حلیم کھانا شروع کر دی۔کسی کی فوتگی پر تین دن سوگ منانے اور تعزیت کرنے کی بجائے جنازہ اٹھنے سے لے کر چالیس دن تک سات قسم کے پکوان ، فروٹس، نٹس کھانے شروع کر دئیے۔پیروں کے عرس اور مزار پر لنگر کے نام پر دیگیں کھانے شروع کر دیں ۔شادی کی ہر تقریب پر مختلف کھانے کھانے شروع کر دئیے۔ میلاد پر بھی کچھ کھانے، نعتیں، لائٹنگ کر کے ، جلوس نکال کر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد اورکعبہ کے ماڈلز بنا کرنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور اس دوران فرض نماز ادا کی نہ ان کی کسی سنت پر عمل کیا۔
بچے کی پیدائش پر عقیقہ کی سنت توکم ہی ادا کی لیکن مٹھائیاں بانٹنے، ناچ گانے کی محفل منعقد کرنے کا خوب اہتمام کیا۔سوال صرف ایک ہے کہ ہر رسم کھانے سے شروع ہو کر کھانے پر ہی ختم کیوں ہوتی ہے؟؟؟؟ اگر کوئی نماز، روزے، حج، زکوۃ وغیرہ کے طریقے، ان کی تعداد، اراکین یا وقت میں کمی یا اضافہ کرنا چاہے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ یہ رسوم نہیں نہیں بلکہ شعائر اللہ ہیں۔دین کا حصہ ہیں اور اللہ کے قائم کردہ ہیں ۔اسلام کے کسی رکن میں بدعت ممکن ہی نہیں۔بدعت صرف اور صرف رسوم میں ہی ہوتی ہے کیونکہ یہ انسانی ایجاد ہیں ۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بدعت انڈے بچے دیتی ہے یعنی خوب پھلتی پھولتی ہے۔
چند سال پہلے تک شادی کی تقریب میں مہندی، مایوں، بارات ولیمہ ہوتا تھا آج برائڈل شاور، بیچلرز پارٹی، مہندی نائٹ، قوالی نائٹ، اور نجانے کیا کیا ہے۔برتھ ڈے، ویلنٹائن ڈے، فادرز مدرز ڈے اور نجانے کون کون سے ڈیز ہیں۔ فوتگی پر دعوت چہلم ، برسی کے کارڈز چھپتے ہیں باقاعدہ ہال میں ٹیبلز پر سیون کورس میلز دئیے جاتے ہیں ۔میلاد میں نعتیں پڑھی جاتی تھیں آج لائٹنگ، قوال سنگر، سیون کورس میل، کعبہ مسجد نبوی کے ماڈلز، بدر کا میدان جس میں ٹوائز کے ذریعے جنگ کا پورا سین دکھایا جاتا ہے، خیمے، گھوڑے ، گھڑ سوار، اسلحہ ہوتے ہیں۔کسی بھی کام کے لیے برکت کے لیے قرآن کا ختم منت مان لیا جاتا ہے اور اس ختم کے بعد بھی ہائی ٹی یا اچھا کھانا کھایا جاتا ہے۔اس ختم میں خواتین پورے میک اپ، نیل پالش سے سجے ناخنوں، نئے مہنگے جوڑوں کے ساتھ آخر میں شرکت کی کوشش کرتی ہیں تاکہ کم ہی قرآن پڑھنا پڑے۔جتنا پیسہ اتنا ہی اہتمام ۔ حالانکہ اللہ نے قرآن میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں بڑا آسان طریقہ بتایا ہے کہ کسی بھی فائدے یا نقصان سے بچنے کے لیے استغفار، دو نفل پڑھ کر دعا کی جائے۔جب قرآن کی تلاوت کی جائے، کوئی صدقہ، خیرات یا نیکی کا کام کیا جائے اس کے بعد دعا کر لی جائے۔
ذراسوچیے ایک غریب ملک کا غریب مسلمان کیا یہ سب افورڈ کر سکتا ہے؟ افریقہ کے کچھ قبائل میں لوگوں کے پاس کپڑے جوتے بھی نہیں، کھانا بھی نہیں وہ پتے، جنگلی فروٹس کھا کر گزارہ کرتے ہیں۔جب یہ مسلمان ہوتے ہیں اور اگر یہ رسوم ادا کرنے کا کہا جائے تو یہ لوگ کہاں سے یہ سب کریں گے؟؟؟؟ تو کیا وہ دائرہ اسلام سے ہی خارج ہو جائیں گے؟؟؟؟ اسلام پر عمل کیجئے اور اپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بنائیے۔