تین پردیسی مرد – تین کہانیاں …
(خاموش آنسو، انجانے خواب)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )یہ کہانیاں تین مختلف عمر کے مردوں کی ہے – نوجوان، درمیانی عمر اور عمر رسیدہ – جو بتاتی ہے کہ پردیس کا دکھ عمر کا محتاج نہیں ہوتا
لکھنے کا مقصد پردیسی مردوں کی زندگی کے دکھ کو اجاگر کرنا ہے، کہ ان کی اُس “خاموش قربانی” کا وہ کوئی واویلا نہیں کرتے
بس ہر رات ایک پردیسی مرد اِس امید کے ساتھ سونے کے لۓ لیٹتا ہے، کہ اگلی صبح ایک نیا سورج نکلے گا، اور جلد ہی اُس کے سارے خواب پورے ہو جائيں گے، اور جلد ہی وہ اپنے ملک میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوگا – ہمیشہ کے لۓ
پہلی کہانی – ایک نوجوان ساتھی …
دو دن پہلے میں آفس کے لنچ روم میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ کھانے کے دوران میری نگاہ اپنے ایک نوجوان ساتھی پر پڑی (جو تقریباً 22 سے 24 سال کا ہوگا)
وہ کونے میں بیٹھ کر فون پر کسی سے آہستہ آہستہ، دھیمی آواز میں بات کر رہا تھا
خیر میں اپنے کھانے میں مصروف رہا
تھوڑی دیر کے بعد وہی بندہ، اپنی آنکھوں کو صاف کرتا ہوا، ان کو رگڑتا ہوا میرے سامنے آ کر بیٹھ گیا
تو میں نے پوچھا:
“کیا ہوا بھائی – سب خیریت تو ہے؟”
(مجھے پتہ چل گیا تھا کہ وہ رویا ہے ابھی ابھی)
تو اس نے کہا:
“بس ۔۔۔ کچھ نہیں، بیوی سے بات کر رہا تھا”
اور اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا
میں سمجھ چکا تھا کہ اس کے دل میں کس طرح کا طوفان مچل رہا ہے
تو میں نے اپنا کھانا روک کر، اس کو مسکرا کر دیکھا اور اس کی ہمت بندھانے کے لیے کہا:
“ہوتا ہے ایسا – ہمت پکڑو
پردیس کی زندگی اتنی آسان نہیں ہے
ہم سب کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ملک سے باہر آئے ہوئے ہیں اور گھر والوں سے دور اکیلے رہ رہے ہیں
اپنے اوپر قابو رکھو – اور ہمت نہیں ہارنا
مردوں کو اپنی ہمت جوڑ کر رکھنی ہوتی ہے – اگر ہم ہی ٹوٹ گئے، تو پھر جو ہمارے کندھوں پر ذمہ داریاں ہے، اس کو کون سنبھالے گا
ہمیں سنبھالنے والا، گلے لگانے والا، دل کا حال پوچھنے والا یہاں پردیس میں کوئی نہیں ہوتا ہے”
یہ سن کر اس شخص کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لوٹ آئی – جیسے لمحہ بھر کو اس کے دل کو سہارا مل گیا ہو
اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور لنچ روم سے باہر چلا گیا
دوسری کہانی – ادھیڑ عمر ساتھی …
میں آفس میں کام کر رہا تھا اور کچھ کام کی غرض سے اپنے کمرے سے نکل کر دوسرے فلور پر جانے کی ضرورت محسوس ہوئی
بیچ راستے میں ایک شخص کو دیکھا (جو میرے آفس کا ساتھی ہے اور تقریباً 42 یا 45 سال کا ہوگا)
وہ موبائل پر کسی سے ویڈیو کال پر بات کر رہا تھا اور ساتھ میں ہاتھ سے اشارے ایسے کر رہا تھا، جیسے کسی کو کہہ رہا ہو کہ تمہاری پٹائی ہوگی – مطلب مارنے والا اشارہ کر رہا تھا
خیر میں یہ سب دیکھ کر وہاں سے گزر گیا
جب میں کام کر کے واپس اپنے کمرے کی طرف جانے لگا، تو اسی شخص کو میں نے اپنا سر اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے دیکھا
یہ دیکھ کر، میں نے ایک کرسی پکڑی، اس کے برابر میں رکھی اور بیٹھ کر اس سے پوچھا:
“کیا ہوا ہے؟”
مجھے بیٹھا دیکھ کر، اس نے کہا:
“کچھ نہیں – بس ایسے ہی تھکن ہو رہی ہے”
میں نے کہا:
“ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے تمہیں موبائل پر کسی سے بات چیت کرتے اور ہاتھوں سے ایسا ایسا کرتے دیکھا تھا”
تو پھر اس نے اداس انداز میں کہا:
“میں اُس وقت اپنے 3 سال کے بیٹے سے بات کر رہا تھا۔ وہ اپنی امی کی بات نہیں سن رہا تھا – تو میں اُس کو کہہ رہا تھا کہ میں جب کبھی بھی گھر آؤں گا، تو تمہاری پٹائی ہوگی سب سے پہلے”
یہ سن کر میں سمجھ گیا، کہ وہ شخص اپنی فیملی کو یاد کر کے اکیلا پن محسوس کر رہا ہے ابھی
پردیس میں اپنے چھوٹے بچوں سے دور رہنا، ان کی شرارتیں، ان کی معصوم ہٹ دھرمی، وہ سب چیزیں جو کبھی ہنسا دیتی ہیں – یہاں پردیس میں صرف دل جلا دیتی ہیں
اس کو ایسا دیکھ کر میں نے اس سے کہا:
“ہوتا ہے ایسا – ہمت پکڑو
پردیس کی زندگی اتنی آسان نہیں ہے
ہم سب کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ملک سے باہر آئے ہوئے ہیں اور گھر والوں سے دور اکیلے رہ رہے ہیں
اپنے اوپر قابو رکھو – اور ہمت نہیں ہارنا
مردوں کو اپنی ہمت جوڑ کر رکھنی ہوتی ہے – اگر ہم ہی ٹوٹ گئے، تو پھر جو ہمارے کندھوں پر ذمہ داریاں ہے، اس کو کون سنبھالے گا
ہمیں سنبھالنے والا، گلے لگانے والا، دل کا حال پوچھنے والا یہاں پردیس میں کوئی نہیں ہوتا ہے”
یہ سن کر اس شخص کو تھوڑی ہمت آئی – اس نے شکریہ ادا کیا میرا اور پھر وہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا
تیسری کہانی – ریٹائرمنٹ کی عمر …
میں اپنے آفس کے کمرے میں بیٹھا ایسے ہی موبائل استعمال کر رہا تھا، کہ لینڈ لائن پر گھنٹی بجی
فون اٹھایا تو سامنے والے نے کہا:
“مجھے کمپیوٹر پر کچھ مسئلہ ہو رہا ہے – تمہاری مدد چاہیے”
میں فوراً یہ سن کر اٹھا، اور مدد کی غرض سے اس شخص کے کمرے میں گیا
وہاں اس کے کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے، میں نے اس کے سامنے بیٹھے ہوئے ایک انکل کو دیکھا، جو ایسے ہی بیٹھے ہوئے تھے – چپ چاپ
میں نے اپنا کام ختم کیا اور پھر ان انکل کے پاس گیا، اور پوچھا:
“آفس کا وقت ختم ہو چکا ہے، گھر جانے کا وقت ہے – آپ ابھی تک آفس میں ہیں – ایکسٹرا کام آ گیا ہے کیا؟”
تو انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا:
“بیٹا، گھر جا کر کیا کروں گا – گھر پر کوئی ہے ہی نہیں جو میرا انتظار کر رہا ہو، جو میرا ویلکم کرے، جو مجھ سے باتیں کرے
گھر جا کر بھی اکیلے بیٹھے رہنا ہے، کھانا بنانا ہوگا، صفائی وغیرہ کرنی ہوگی – روز کا یہی روٹین ہے
تو اس سے بہتر یہی ہے، کہ یہاں آفس میں تھوڑا اور بیٹھ جاتا ہوں، لوگوں کے چہرے نظر آتے ہیں سامنے، تھوڑی اِدھر اُدھر کی کسی سے بات چیت کر لیتا ہوں، تھوڑا اور آفس کا کام کر کے وقت گزار لیتا ہوں
اس طرح سے کم از کم میری تنہائی مجھ پر بھاری محسوس نہیں ہوتی ہے”
یہ سن کر تو میرا دل جیسے سینے میں بیٹھ گیا اور مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ میں بھلا اِس کا جواب انکل کو کیا دوں، کس طرح سے ان کو حوصلہ دوں
کیونکہ انکل نہ صرف عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے – بلکہ انہوں نے پردیس میں مجھ سے زیادہ زندگی گزاری ہے اور ان کو ہر چیز کا علم مجھ سے کہیں زیادہ ہے
لیکن یہ سب جاننے کے باوجود، میں نے لمحے بھر کے لیے اپنی سانس پر قابو کیا، اپنا درد بھلا کر ان کا ہم درد بن گیا اور انکل کے برابر میں جا کر بیٹھ گیا
پھر میں نے ان سے کہا:
“ہوتا ہے ایسا – ہمت پکڑیۓ
پردیس کی زندگی اتنی آسان نہیں ہے
ہم سب کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ملک سے باہر آئے ہوئے ہیں اور گھر والوں سے دور اکیلے رہ رہے ہیں
اپنے اوپر قابو رکھیۓ – اور ہمت نہیں ہاریں
مردوں کو اپنی ہمت جوڑ کر رکھنی ہوتی ہے – اگر ہم ہی ٹوٹ گئے، تو پھر جو ہمارے کندھوں پر ذمہ داریاں ہے، اس کو کون سنبھالے گا
ہمیں سنبھالنے والا، گلے لگانے والا، دل کا حال پوچھنے والا یہاں پردیس میں کوئی نہیں ہوتا ہے”
یہ سب سن کر انکل نے میری طرف شفقت بھری نظر سے دیکھا، کندھے پر ہاتھ رکھ کر وہ کھڑے ہوئے – اور کہا:
“بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو تم – چلو میں اب چلتا ہوں، کل ملاقات کرتے ہیں”
Author : Shaikh Umair
Twitter ID : Shaikhs_Umair