ثواب یا گناہ
فارسی ادب سے انتخاب
ترجمہ ۔۔۔ڈاکٹر غلام مصطفی بغلانی
(قسط نمبر2)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ثواب یا گناہ۔۔۔ترجمہ ۔۔۔ڈاکٹر غلام مصطفی بغلانی) لوگ جو باتیں کرتے ہیں۔ ان میں کوئی حقیقت بھی ہے؟
کہنے لگا جو کچھ لوگ کہتے ہیں درست ہے۔“ میں نے کہا ” کہتے ہیں کہ چھت کے راستے تو حاجی فتح اللہ کے گھر گیا ہے اور اسے تو نے قتل کر وہ بولا ٹھیک ہے۔“
میں نے کہا تو کس لیے وہاں گیا تھا ….؟” وہ کہنے لگا ” چوری کے لیے۔“میں نے کہا ” تو چور تو نہ تھا۔“
کہنے لگا کوئی بھی چور پہلے چور نہیں ہو تا۔ “ میں نے کہا تو پڑھا لکھا، کتاب پڑھنے والا اور علم دوست تھا تجھے چوری اور قتل سے کیا سروکار…؟” بولا ” میں مریض ماں کے پہلو میں پڑا رہا اور بے بسی سے اس کی آووزاری سنتا رہا میں نے کہا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا بد بختی ہو گی میں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح بھی بن پڑے میں اپنے آپ کو اس غلاظت اور افلاس و ناداری سے نجات دلاؤں۔“
میں نے کہا کہ تو نے بھی عجیب راہ فرار ڈھونڈی تو چاہتا تھا کہ غلاظت سے نجات پائے، لیکن تو گندے پانی کے نالے میں گر پڑا، تو چور بناء قاتل ہوا، تیری ماں تبھی اس غم میں محل کر مر جائے گی۔”
وہ کہنے لگا ” میں پیدائشی طور پر بد قسمت ہوں، خدا کسی کو مفلس اور محتاج نہ کرے۔“
میں نے کہا ” مجھے بتاؤ کہ مجھے بھی معلوم ہو کہ اصل معاملہ کیا ہے…..؟”
وہ کہنے لگا اس حاجی فتح اللہ کو تم پہچانتے ہو ، وہ امیر آدمی تھا اور حریص بھی۔ لیکن اس کے وجود سے کسی کو بھی فیض نہیں تھا، چونکہ ہمارے پڑوس میں ہی رہتا تھا اور اس کے ملازموں اور خادموں سے ہم واقف تھے اور اس کی زندگی کے اطوار سے آشنا تھے، سب اس حقیقت کو جانتے تھے کہ اس کی دولت اس کی اپنی ذات پر بھی حرام تھی اور دنیا سے فقط روپے کا مطالبہ کرتا تھا۔ اگر اس کی آنکھوں کے سامنے کوئی بھوک سے تڑپ کر مر بھی جائے تب بھی وہ ایک پھوٹی کوڑی اس ذات پر خرچ نہ کرتا اور یہاں تک کہ اس کی بیوی اور بچے بھی خدا سے اس کی موت کے لیے دعائیں مانگتے تھے۔ میں نے کہا کیا تو نے سنا نہیں کہ دیوانگی بھی ایک فن ہے اور کنجوسی بھی ایک قسم کی دیوانگی ہی ہے۔ لوگوں کے مسائل کا تو جوابدہ نہیں ہے۔ اس کا اپنا مال تھا اور وہ خرچ نہیں کرنا چاہتا تھا، میرے اور تیرے ساتھ تو اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ کہنے لگا ” تم خوش حالی کی بنا پر ایسی باتیں کرتے ہو اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم میرے قائل ہوتے اور اس طرح باتیں نہ کرتے۔“ میں بولا ” میرے پیارے! اگر یہ طے پائے کہ ہر شخص رنج والم رکھتا ہے اور اس کی آرزو میں کبھی بھی پوری نہیں ہو تیں، تو وہ چھری اٹھالے، آدھی رات کے وقت جائے اور اپنے ہمسائے کا پیٹ چاک کر دے اور پھر معاملہ کیا ہے ؟ کہیں نہ کہ وہ نہیں چاہتا کہ اپنے مال کو ہمارے جیسے نادار اور مفلس لوگوں کو دے دے۔
وہ بولا ” میں نے مدت ہوئی دنیا کا ماتم کیا تھا، تحمل کا مادہ ختم ہو چکا تھا، شیطانی خیالات پیدا ہورہے تھے اور ہوش مجھے اس وقت آیا جبکہ پانی سر سے گزر چکا تھا۔ میں نے کہا ”میرے لیے پوری وضاحت کرو…؟
اس نے کہا ایک عرصہ ہوا تھا کہ جس وقت بھی میری نظر اس شخص پر پڑتی تھی۔ آسمان میرے سر پر ٹوٹ پڑتا۔ میں اسے دیکھنا گوارانہ کرتا تھا، میر ادل چاہتا تھا کہ اسے پکڑوں اور کہوں یہ غریب لوگوں کے پیسے جو کہ ہزاروں داؤ اور قریب سے تو نے ہضم کیے ہیں
اب ان کو لوگوں میں تقسیم کر۔“
میں نے کہا “سہراب پیارے! اس کو حسد، کنجوسی، لالچ، تنگ نظری کہتے ہیں یہی امیر آدمی ہیں جو کہ ان لوگوں کو جو مفلس ہیں، کھانا دیتے ہیں۔ حقیقی منصف تو خدا ہے۔ کوئی بھی دوسروں کی نیکی اور بدی کا ابدہ نہیں ہے۔جوابده کہنے لگا ” ہم ایسی ہی باتوں سے اپنے دل خوش کرتے ہیں، لیکن جب میں نے ارادہ کیا کہ جیسے بھی ہو اس شخص کے گھر پہنچوں اور تھوڑی سی لوٹ کھسوٹ کر دوں اس سے اس امیر کو تو ہر گز کوئی فرق نہیں پڑے گا۔“ لیکن میں اپنا کام چلا لوں گا۔ اس قسم کا تصور ( قتل کرنے کا) کبھی میرے ذہن میں نہیں آیا تھا۔ میں نے کہا ” تو گھر کے راستے کو کس طرح جانتا تھا۔”
وہ کہنے لگا ” سینکڑوں ہار گھر اور کمروں کی چھت پر سے میں نے اسے آتے جاتے دیکھا تھا اور اس محلے میں سبھی جانتے تھے کہ حاجی اپنی نقدی، جواہرات اور کاغذات کو کس کمرے اور الماری میں رکھتا ہے۔“ میں نے کہا ” یہ سب کچھ اپنی جگہ پر ہے تو اس مال کا دشمن تھا، تو نے خود اسے ہی کیوں مار ڈالا ! ۔ “ اس نے کہا ” یہ سب میری گردش تقدیر کی وجہ سے ہوا۔ میں ہزاروں قسم کے ڈر، خوف، کپکپی، احتیاط اور تشویش و اضطراب کے ساتھ رات کی تاریکی میں اس کمرے میں داخل ہوا۔ میری نظر الماری پر پڑی میں اپنے ان اوزاروں کو جو کہ میں نے الماری کھولنے کے لیے بنائے تھے ، اپنی جیب سے نکالنے ہی والا تھا کہ دفعتا میں نے حاجی کو دیکھا وہ ایک ہاتھ میں چھوٹا سا بجلی کا لیمپ اور دوسرے ہاتھ میں ایک پستول لیے شب خوابی کا لباس پہنے یک لخت میرے سامنے نمودار ہوا۔ اس کی آنکھوں سے آگ برس رہی تھی موت کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ تھوڑی سی حرکت کے بعد گولی میری کھوپڑی میں پیوست ہو سکتی تھی۔ الماری کھولنے کا وہ ہتھیار جو تیز چھری کی طرح تھا ایک ہی وار میں اس کے پیٹ میں گھونپ دیا اور جو نہی اس نے چیخ ماری اور وہ زمین پر گر پڑا، میں نے کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگا دی۔ جس وقت میں ہوش میں آیا تو زخمی ہو چکا تھا اور چند لوگوں نے مجھے گھیر رکھا تھا وہ لوگ پولیس، سپاہی اور تھانہ کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں اور عمارت کے اندرونی حصے سے عورتوں کی آہ و زاری اور نالہ و پکا کی آوازیں بلند ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ حاجی مارا گیا ہے۔ سہراب کی گفتگو یہاں تک پہنچی تھی کہ اس کی گھگی بند گئی اس طرح سے کہ اس کا سانس رکنے لگا اور اس کا منہ کھلارہ گیا۔ اس نے اپنی پیشانی اس طرح زمین پر رکھ دی گویا کہ وہ سجدہ ریز ہے۔ اس وقت شدید قسم کی اینٹن اس کے سر سے لے کر پاؤں تک غالب تھی۔ اس وقت اس قسم کے آدمی کی دلجوئی بے فائدہ تھی اور چونکہ ملاقات کا وقت بھی ختم ہو چکا تھا۔ میں انتہائی پریشان دلی کے ساتھ قید خانے سے باہر چلا آگیا۔ حاجی فتح اللہ کی فاتحہ ودرود ( قل خوانی) کی محفل میں جو کہ انتہائی تزک واحتشام سے منائی جارہی تھی۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2015