Daily Roshni News

جان لیوا معاشرہ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

جان لیوا معاشرہ

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

 ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ جان لیوا معاشرہ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )ملتان میں نوجوان لڑکی ثانیہ زہرہ کی دل دہلا دینے والی موت کی تحقیقات جاری ہیں پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ خودکشی کا واقعہ ہے۔نو جولائی کی صبح نو بجے 20 سالہ ثانیہ زہرہ کی لاش ان کے سسرالی گھر سے ملی تھی۔ جس میں وہ پنکھے سے لٹک رہی ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بیڈ پر کاوچ رکھا ہوا  ہے اور ثانیہ اس پر دوزانوں بیٹھی ہوئی ہیں۔کوئی بچہ بھی اس تصویر کو دیکھ کر جان سکتا ہے کہ اس پوزیشن میں خودکشی ممکن نہیں۔ثانیہ زہرہ کی لاش ملنے کے بعد انھیں بغیر پوسٹ مارٹم کے دفنا دیا گیا تھا۔کیونکہ نہ ان کے والدین نے ایف آئی آر کروائی نہ ہی سسرال نے۔ تاہم ان کی تصویر وائرل ہونے اور میڈیا پر شور مچنے پر ہفتے کے روز  ثانیہ زہرہ کی قبر کشائی کر کے ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ثانیہ زہرہ کے والد سید عباس شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو قتل کر کے اسے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پولیس تحقیقات کرے کہ سسرال والوں نے ایسا کیا کیا کہ میری بیٹی خود کشی پر مجبور ہو گئی۔ مجھے اپنی بیٹی کی موت کی صاف اور شفاف تحقیقات چاہیے۔ ثانیہ کا شوہر اکثر اپنی بیوی پر تشدد کرتا تھا اور مار پیٹ کر کے انھیں میکے بھیج دیتا تھا، اسی دوران ثانیہ نے اپنے شوہر کے خلاف فیملی کورٹ میں نان و نفقہ اور حق مہر کا مقدمہ بھی درج کرایا لیکن لیکن بچوں کی خاطر صلح کر لی۔ثانیہ کا شوہر اس  پر دباؤ ڈالتا تھا کہ ثانیہ کے حصے کی جائیداد اس کے حوالے کی جائے ورنہ وہ ثانیہ کو جان سے مار دے گا۔حالانکہ جب  ابتداء  میں پولیس نے ان سے ایف آئی آر کروانے کا کہا تھا تو عباس صاحب نے انکار کر دیا تھا۔

ثانیہ نے خودکشی کی یا وہ قتل ہوئی یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔مگر چند تلخ حقائق ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ان میں سے بدترین یہ ہے کہ ثانیہ کے قاتل صرف سسرال ہی نہیں بلکہ اس کی فیملی اور سارا معاشرہ بھی ہیں ۔

        ثانیہ کے والدین جانتے تھے کہ اس پر تشدد ہوتا ہے مگر وہ خاموش تماشائی بنے بیٹی کو صبر اور گزارہ کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ یہ وہ قوم ہے جو ہندوانہ سوچ رکھتی ہے۔اب مر کر ہی اس گھر سے نکلنا۔پھر جب وہ مار دی جاتی ہے تو دھاڑیں مار مار کر ٹسوے بہاتے ہیں۔یہ بھی مگر مچھ کے آنسو ہوتے ہیں کیونکہ اندر سے وہ خوش ہوتے ہیں کہ معاشرے میں ہماری ناک نہیں کٹی کہ بیٹی مطلقہ ہے بلکہ سب کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہیں۔اللہ اور اس کے احکام سے آگے اور بیٹی کی جان سے زیادہ ان کے لیے معاشرے کی رائے اہم ہوتی ہے۔میں یہ مان ہی نہیں سکتی کہ ایسے والدین کو بیٹی کے مرنے کا دکھ ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ اس دن کا انتظار کرنے کی بجائے اسے اس درندے سے بچا لیتے۔

     معاشرہ اس قتل کا ذمہ دار یوں ہے کہ مطلقہ اور اس کے والدین کی زندگی اس دنیا میں ہی عذاب بنا دیتا ہے۔’ ضرور لڑکی میں ہی عیب ہو گا، اسی کی غلطی ہو گی، یقینا کوئی بڑا گناہ کیا ہوگا تبھی تو طلاق دے دی شوہر نے۔ اے بہن کیا ہوا تھا، ابے جا باتیںکرتا ہے تیری بہن کو تو طلاق ہو گئی ہے، ہائے اللہ تمہاری بہن کی طلاق ہو گئئ کیا ہوا تھا؟’ ایسے جملے کہتے ہوئے لوگ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی بہن بیٹیوں والے ہیں خواتین خود بھی شادی شدہ ہیں یہ سانحہ ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔غلطی خواہ کسی کی بھی ہو قصوروار عورت ہی ٹھہرتی ہے۔خواہ اسے طلاق ہو یا وہ خلع لے گناہ گار وہی کہلاتی ہے۔پھر طعنے طنز تلخ رویوں کی وجہ سے اس کے خاندان کا گلی محلے میں نکلنا کسی تقریب میں جانا بھی نا ممکن بنا دیا جاتا ہے۔اگر معاشرہ اسے ویسے ہی عام بات سمجھے جیسے یہ دورنبوی میں سمجھی جاتی تھی تو شاید والدین اپنی بیٹیاں نہ کھوئیں۔اور تشدد کا شکار خواتین کبھی قتل نہ ہوں۔

   ضرورت اس امر کی نہیں کہ قوانین بنائے جائیں اور ان پر عمل کروایا جائے۔کیونکہ قوانین بھی ہیں اور کچھ کیسیزمیں ان پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ نہ ہی بیٹیوں کو معاشی طور پر خود مختار بنانا اچھی ازدواجی زندگی کی گارنٹی ہے کہ اربوں پتی لوگوں کی بیٹیاں بھی شوہروں کے ہاتھوں ماری جا رہی ہیں۔ حل صرف ایک ہے کہ ہم نہ صرف خود سیکھیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی قرآن حدیث کی تعلیم دیں تاکہ حقوق اللہ و حقوق العباد اپنے فرائض سے آگاہی ہو ان پر عمل کا طریقہ جانیں اور پھر عمل کریں بھی۔تاکہ معاشرے میں بڑھتا انتشار ختم ہو۔

    ذرا دل پر ہاتھ رکھیے اور ایمان داری سے بتائیے اگر آپ کے گلی محلے میں یا خاندان میں کسی بچی کی طلاق ہو جاتی ہے تو آپ کا رویہ اس لڑکی اور اس کے خاندان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ لوگ مطلقہ یا بیوہ کو سہارا دینے اس کے بچوں کے کفیل بننے کو تو تیار نہیں ہوتے لیکن اس سے ناجائز تعلق رکھنے کو ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔اسے بری عورت مان لیا جاتا ہے چنانچہ یہ مردوں کا حق بن جاتا ہے کہ وہ اسے جیسے مرضی ہو استعمال کریں۔

     چلیے مان لیجئے اسے بری عورت۔ مت کیجئے اس سے نکاح یا اس کے بچوں کی کفالت مگر اس سے آرام سے جینے کا حق تو مت چھینیے۔اسے روکھی سوکھی کھا کر، محنت مزدوری کر کے بچے پالنے دیجئے۔اس کی پہلے سے دشوار زندگی کو مزید دشوار مت بنائیے۔بس ایک بات ذہن میں رکھیے۔آج اگر ہم نے اس کے ساتھ برا کیا تو کل کو ہمارے ساتھ بھی برا ہی ہو گا۔ کیونکہ مکافات عمل قدرتی ہے۔ آج آپ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے تو کل آپ کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہوں گی۔

Loading