Daily Roshni News

جب برصغیر میں ریل آئی۔۔۔

جب برصغیر میں ریل آئی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )برصغیر میں پہلی بار ریل کا آغاز 1853ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا۔ پہلی ریل گاڑی بمبئی سے تھانہ کے درمیان 34 کلومیٹر کے فاصلے پر چلائی گئی۔

ابتدائی طور پر ریل کا مقصد کچے مال (کپاس، کوئلہ، نیل وغیرہ) کو بندرگاہوں تک پہنچانا اور فوجیوں کو تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا تھا، خاص طور پر 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد۔

آہستہ آہستہ عام ہندوستانیوں کو بھی ریل میں سفر کی اجازت دی گئی، لیکن اُس وقت کے سماجی اور مذہبی مسائل نے اس نئے سفر کو متنازع بنا دیا۔

 مذہبی مخالفت

جب ریل آئی تو ہندو اور مسلمان دونوں نے ابتدا میں کچھ خدشات ظاہر کیے لیکن وجوہات مختلف تھیں:

 ہندو خدشات

ذات پات کی پاکیزگی: ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتیں (خاص طور پر برہمن) اس خوف میں تھیں کہ نیچی ذاتوں یا غیر ملکیوں کے ساتھ ایک ہی ڈبے میں بیٹھنے سے وہ “ناپاک” ہو جائیں گے۔

کھانے اور رسومات کا مسئلہ: لمبے سفر میں کھانا پکانا اور مذہبی رسومات ادا کرنا مشکل تھا، جسے وہ ذات پات کے اصولوں کی خلاف ورزی سمجھتے تھے۔

اسی لیے شروع میں بہت سے ہندو مسافر اپنے ساتھ گنگا جل اور خاص کھانا لے کر سفر کرتے تھے۔

مسلمان خدشات

شرعی سوالات: کچھ قدامت پسند علما نے بحث کی کہ کیا ریل کا سفر شرعاً جائز ہے؟

خدشات میں مرد و زن کا اختلاط، چلتی ریل میں نماز کے اوقات کا مسئلہ، اور یہ سوچ شامل تھی کہ یہ “انگریزوں کی ایجاد” کہیں مذہبی شناخت کو متاثر نہ کرے۔

قبولیت کب آئی؟

وقت کے ساتھ ساتھ دونوں مذاہب نے ریل کو قبول کر لیا کیونکہ:

مسلمان علما نے فتوے جاری کیے کہ ریل میں سفر جائز (حلال) ہے، بس نماز کے اوقات اور اسلامی آداب کا خیال رکھا جائے۔

ہندو مصلحین نے دلیل دی کہ ٹیکنالوجی مذہب کے خلاف نہیں اور یہ ریلیں تو زیارتوں اور تیرتھ یاترا کو آسان بنا رہی ہیں۔

عام عوام نے دیکھا کہ ریل کا سفر نہ صرف تیز ہے بلکہ سستا بھی ہے، اس لیے تجارت، زیارت اور رشتہ داروں سے ملنے کے لیے ریل استعمال ہونے لگی۔

انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز تک ریل عام زندگی کا لازمی حصہ بن گئی اور ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سبھی ریل پر سفر کرنے لگے۔

ابتدا میں مخالفت کرنے والے: زیادہ تر ہندو مذہبی پیشوا (ذات پات کے خوف سے) اور کچھ مسلمان علما (شرعی خدشات سے)۔

قبولیت کا آغاز:

ہندو مصلحین اور رہنماؤں نے اس کی اجازت دی۔

مسلمان علما نے اس کے حق میں فتوے دیے۔

عوام نے اسے زیارت، تجارت اور روزمرہ زندگی کے لیے مفید سمجھا۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ 1853ء سے چند دہائیوں کے اندر اندر ریل کو مذہبی طور پر قبول کر لیا گیا اور یہ برصغیر کی زندگی کا لازمی حصہ بن گئی۔

Loading