جسم لطیف/ ایتھرباڈی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جب ہم رات کو بستر پر سو جاتے ہیں تو ظاہری جسم کے حواس (آنکھ، ناک، کان, زبان، لمس) بند ہو جاتے ہیں۔ اور جسم لطیف کے حواس بیدار ہو جاتے ہیں۔ جس طرح مادی جسم کے حواس ہیں اسی طرح جسم لطیف کے بھی حواس ہیں۔ خواب میں جو آپ کو آپ کا جسم نظر آتا ہے وہ جسم لطیف ہے۔ زکر فکر سے یہ متحرک ہوتا ہے۔
۔
روح جسم لطیف کا مرکز ہے۔ روح اس جہان میں آکر سب سے پہلے جسم لطیف کا لباس پہنتی ہے اور پھر جسم لطیف کو خدا کی خدائی مناسب وقت ماحول اور موقع مناسبت سے عناصر اربعہ سے بنے ہوئے مادی جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے۔
۔
آگ، ہوا، پانی، مٹی چار عناصر ظاہری سے مل کر بشری جسم بنتا ہے۔ پانچواں عنصر لطیف ہے غیر ظاہر ہے مگر اپنا لطیف جسم رکھتا ہے اس پانچویں ایلمنٹ کو ایتھر عنصر کہتے ہیں۔
۔
چار عنصر کے مٹ جانے سے ماں کے پیٹ میں بنا ہوا چار عنصر کا جسم مٹ جاتا ہے جبکہ پانچواں عنصر لطیف صورت میں اپنا وجود رکھتا ہے۔ چار عنصر کے خاتمے پر پانچواں عنصر لطیف جسم کی صورت موجود رہتا ہے۔
۔
عنصر ایتھر کو اورا، جسم لطیف/ مثالی جسم یا ایتھر باڈی کہتے ہیں۔
۔
جب تک روح ان پانچ عناصر آگ، ہوا، پانی، مٹی، ایتھر سے الگ اپنی پہچان دریافت نہیں کر لیتی عالم اصغر میں تب تک اس کا نجات پانا بہت مشکل ہے۔
۔
حقیقت انسان نہ مادی جسم (آگ، ہوا، پانی، مٹی) ہے اور نہ ہی جسم لطیف یا ایتھر باڈی ہے۔
۔
روح جب عالم اکبر سے عالم اصغر میں آتی ہے توسب سے پہلے روح ایتھر ایلمنٹ کو اپنے گرد گھیرتی ہے۔ ایتھر ایلمنٹ کے دائرے میں روح آکر مقید ہو جاتی ہے لامحدود سے محدود ہوجاتی ہے روح محدود ہونے کی وجہ سے جسم لطیف کے حصار میں مقید ہوجاتی ہے۔
۔
جب روح کے ساتھ ایتھر ایلمنٹ جمع ہوتا ہے تو اس مقام و مرحلے پر روح کا بیج تیار ہوجاتا ہے۔ اور پھر اس بیج کو ماں کے پیٹ میں رکھ دیا جاتا ہے وہاں اسے چار عنصر کا مادی لباس پہنایا جاتا ہے۔
۔
ہمارا یہ ظاہری جسم ایک لباس کی مانند ہے جو ماں کی پیٹ میں تیار ہوتا ہے۔ اس جسم کا درزی خود قدرت ہے قدرت ہی ماں کے پیٹ میں مادی جسم کی تخلیق کرتی ہے تاکہ جسم لطیف یا ایتھر باڈی کو مادی جسم کا لباس دیا جاسکے۔
۔
مادی جسم ایتھر باڈی کا لباس ہے جب چار عنصر کا وجود فنا ہو جاتا ہے تو ایتھر ایلمنٹ چار عناصر سے الگ ہو جاتا ہے۔ ایتھر ایلیمنٹ کا وجود روح کے ادراک سے تحلیل ہوتا ہے، خود کا بحیثیت روح عرفان پانے سے انسان پانچ عناصر سے ماوراء ہو جاتا ہے۔
۔
نا میں یہ مادی جسم ہوں اور نہ ہی میں ایتھر باڈی ہوں میں یہ دونوں نہیں ہوں ان دونوں میں موجود ابدی و لافانی روح ہی میں ہوں۔ انسان جب تک بحیثیت روح خود کا ادراک نہیں کر پاتا تب تک اس جہاں سے اس کو آزادی نہیں مل سکتی۔
۔
انسان زندگی میں زندہ رہتے ہوئے روح کا عرفان حاصل کر لے تو وہ زندگی میں زندہ رہتے ہوئے نجات یافتہ ہو جاتا ہے۔ جب تک انسان نے خود کا بحیثیت روح ادراک نہیں پایا تب تک وہ مادی جسم کے فنا ہونے کے بعد بھی اپنی اصل حقیقت کو جانے بنا ہی جسم لطیف یا ایتھر باڈی کی صورت میں موجود رہتا ہے اور پھر سے مادی جسم میں پیدا ہونے کی شدید آرزو و خواہش رکھتا ہے۔
۔
خودی کا بحیثیت روح ادراک ہی انسان کو مادی جسم اور ایتھر باڈی سے آزاد کر دیتا ہے۔ روح خود کا عرفان حاصل کر کے اپنے اصل روحانی جہان کا ادراک حاصل کر لیتی ہے۔ اور ہمیشہ کیلیے اس مادی جہاں سے آزاد ہو جاتی ہے۔ اس مقام و مرحلے پر صوفی شاعر بلھے شاہ کہتا ہے ایسی کرنی کرجا بلھیا کہ تیری مک جاوے آنی جانی۔
۔
پانچ عناصر چونکہ عالم اصغر سے متعلق ہیں اور روح بذات خود ان پانچ عناصر سے ماوراء عالم اکبر سے تعلق رکھتی ہے۔
۔
روح اس جہان میں آکر پھس گئی ہے خود کا بحیثیت روح ادراک بھول گئی ہے اب یہ بھی خود کو اس جہان میں آکر مادی جسم ہی سمجھتی ہے چونکہ مادی جسم پیدا ہوتا ہے اور مرتا ہے اس لیے اس کو موت کا ڈر اور خوف پیدا ہو گیا ہے۔
۔
جسم کے پیدا ہونے کو یہ اپنی پیدائش اور اس کے خاتمہ کو یہ اپنی موت سمجھ بیٹھا ہے اسی لیے یہ موت سے اتنا خوف ذدہ ہے۔ جب تک انسان خود کا ادراک بحیثیت روح نا حاصل کر لے موت کا خوف اس کا مقدر رہے گا۔
۔
خود کو جاننے کی راہ پر چل کر انسان اس مادی جسم سے ماوراء ہو جاتا ہے اور وہ یہ جان پاتا ہے کے میں فنا سے بہت دور ہوں۔ جس نے مٹ جانا ہے وہ میں نہیں ہوں میں موت و حیات سے بھی ماوراء ہوں۔
۔
میں ابدی لافانی کبھی نا مٹنے والی نامٹائی جاسکنے والی، ہمیشہ سے قائم و دائم روح ہوں جو نا تو پیدا ہوتی ہے اور ناہی کبھی فنا کی جاسکتی ہے اس حقیقت کو جاننے کے بعد انسان لاخوف و حزن ہو جاتا ہے۔
۔
اس پوسٹ کو مفاد عامہ کے لیے تحریر کیا گیا ہے۔ لہذا اگر اس ہوسٹ کو آپ اپنے نام کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں تو کھلے دل سے کاپی پیسٹ کرنے کی عام جازت ہے۔