Daily Roshni News

جسم کا اپنا نظام ہے جو ایسے جراثیموں سے لڑ سکتا ہے

جسم کا اپنا نظام ہے جو ایسے جراثیموں سے لڑ سکتا ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کچھ دن پہلے چند معمولی چوٹیں لگنے کی وجہ سے پہلی دفعہ کسی پولش ہسپتال جانا ہوا، وہاں پر ڈاکٹر نے میرے زخم دیکھنے کے بعد بس یہ کہا کہ یہ زخم خود ہی بھر جائیں گے۔ اور اگر تمہیں تسلی کرنی ہے تو ہڈی کے لیے ایکس رے لکھ کر دے رہا ہوں۔ اگر چند دن میں درد ختم نا ہوا تو ایکس رے کروا لینا۔

اس دوران میں نے ڈاکٹر کو دوبارہ کہا کہ میری گردن میں شدید درد ہے کوئی پین کلر دے دو؟ تو اُس نے بات گول کرکے پھر فزیو تھیراپسٹ کا لکھ کر دے دیا۔

اسی طرح پچھلے دو سال میں پہلی دفعہ آنے پر تو سردیوں کے آغاز سے ہی بخار ہونا شروع ہو گیا تھا اور پھر تین چار بار شدید بخار ہوا۔

لیکن ہر بار فقط بروفن اور پیناڈول ہی کھانا پڑی۔

کیوں؟

کیونکہ یہاں شدید بخار میں بھی ڈاکٹر کی یا تو اپائنٹمنٹ نہیں ملتی اور اگر مل جائے تو وہ اینٹی بائیوٹکس دینے سے گریز برتتے ہیں۔

جبکہ کل کی خبر تھی کہ پاکستان میں ہر سال تین لاکھ سے اوپر لوگ فقط AMR کی وجہ سے مرے ہیں۔ اس ٹرم کا مطلب anti microbial resistance  ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ جب آپ ہر چھوٹی انفیکشن پر حد سے زیادہ  اینٹی بائیوٹکس کھاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں نا صرف آپ کا نظام مدافعت اتنا مضبوط نہیں رہتا بلکہ آپ کے اندر موجود بیکٹیریا ارتقاء کرکے خود میں اس دوائی کے خلاف مدافعت پیدا کر لیتے ہیں۔

اور

اگلی دفعہ انفیکشن پر آپ کو زیادہ ڈوز میں دوائی لینا پڑتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان میں عام سے بخار کا علاج بھی فرسٹ جنریشن اینٹی بائیوٹکس سے نہیں ہوپاتا ہے۔

اور ستم یہ ہے کہ ہر ڈاکٹر فقط اپنا کمیشن کھانے کی خاطر اس وقت بخار پر بھی سیکنڈ جنریشن اینٹی بائیوٹکس جیسا کہ سپرو فلاکساسن اور ازیتھرومائیسن دے رہے ہیں۔ اور اب بہت سے علاقوں میں بیکٹریا ان دو کے خلاف بھی مضبوط ہو چکے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت  ٹی بی، ٹائیفائڈ جیسی آسانی سے کنٹرول ہونے والی بیماریاں MDR یا پھر۔ multiple drug resistant  بن چکی ہیں۔ یعنی کہ ان کا علاج طاقت سے طاقت ور دوائی بھی مشکل سے کر رہی ہے۔ اور ہسپتالوں میں موجود انفیکشن جیسا کہ ای کولائی اور سوڈومناس بھی ایک ڈی آر بن چکے ہیں۔

اور اس سب میں اصل مجرم ڈاکٹر ہیں جو اپنے کمیشن کی خاطر اتنے لوگوں کو غیر ضروری ادویات دے کر مرنے دے رہے ہیں۔

حالانکہ بخار جیسی عام حالت میں ڈاکٹر کو فقط علامات کنٹرول کرنے اور مدافعتی نظام مضبوط بنانے کا طریقہ بتانا چاہیے لیکن ہمارے ہاں ہر کوئی۔ خود سے ڈاکٹر بن کر دوائیاں تجویز کر رہا ہوتا ہے۔

خود مجھے ذاتی طور پر بخار یا بیماری  کے باوجود  کوئی اینٹی بائیوٹک کھائے تین سال ہو چکے ہیں۔ اور اللہ پاک فقط پیناڈول اور بروفن سے علامات کنٹرول کرنے کے بعد بھی شفا دے دیتے ہیں۔

بس آپ نے اپنا مدافعتی نظام مضبوط بنانا ہے اور خوراک اچھی رکھنی ہے۔ ذرا ذرا سی بیماری پر دوائی سے پہلے کچھ دن اپنے جسم کو لڑنے دینا ہے۔ کیونکہ ہمارے جسم کا اپنا نظام ہے جو ایسے جراثیموں سے لڑ سکتا ہے۔

اور آخری بات

اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو آپ کو شرم کھانی چاہیے۔ کیونکہ آپ کی کالی ٹیوٹا کرولا یا عمرہ پیکج کی وجہ سے سے ہر سال تین لاکھ سے اوپر لوگ بغیر کسی وجہ کے مر رہے ہیں اور باقی ساری عمر کمزور مدافعت بھگت رہے ہیں۔

ضیغم قدیر

منقول

Urdu stories

Loading