’’جس وقت کتاب ہاتھ میں آئی ‘ جب تک ختم نہ ہوئی۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)’’جس وقت کتاب ہاتھ میں آئی ‘ جب تک ختم نہ ہوئی‘ ہاتھ سے نہ چھوٹی اور جب ختم ہوئی ہو تو افسوس ہوا کہ کیوں ختم ہو گئی۔ اگر اس مدس کو فن شاعری کی جدید تاریخ کہا جائے‘ تو بالکل بجا ہے۔ کس صفائی‘ خوبی اور روانی سے یہ نظم تحریر ہوئی ہے‘ بیان سے باہر ہے۔ تعجب ہے کہ ایسا مضمون جو مبالغہ‘ جھوٹ‘ تشبیہات سے بالکل مبرا ہے ‘ کیونکر ایسی خوبی و خوشی بیانی اور موثر طریقے پر ادا ہوا ہے۔‘‘
جب جون 1879ء میں سرسید احمد خاں نے پہلی بار اپنے ساتھی‘ الطاف حسین حالی کی تخلیق کردہ ’’مسدس حالی‘‘ پڑھی‘ تو درج بالا تبصرہ فرمایا: یہ تبصرہ مسدس کی خوبیاں بہ احسن اجاگر کرتا ہے۔ اس کتاب میں وہ متاثر کن نظمیں شامل ہیں جو مولانا حالی نے زوال کا شکار مسلمانان ہند کی حالت سنوارنے کے لئے لکھی تھیں۔ ان میں بنیادی حیثیت مسدس (طویل نظم) کو حاصل ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں اسی مسدس کی تشریح و توضیح عمدہ انداز میںکی گئی ہے۔ تصنیف کے مصنف مشہور بھارتی محقق ہیں اور مولانا حالی کی شخصیت و کارناموں پر درجن سے زائد کتب تحریر کر چکے ۔ اس کتاب میں بھی مولانا حالی کی سوانح اور مسدس پر اکابرین کی آرا شامل ہیں۔
مولانا حالی کی حیات و خدمات پر اپنی تحقیق مضامین میں مصنف نے سیر حاصل معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ مضامین ایک ایسے حساس اور ہمدرد قومی رہنما کو خوبصورتی سے نمایاں کرتے ہیں جو تادم مرگ اپنی (مسلم) قوم کو زوال سے نکالنے کی کوششیںکرتے رہے۔
نئی نسل کو خصوصاً اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے، جو مولانا حالی کے مقام و مرتبے سے کما حقہ واقف نہیں۔ یہ کتاب خوبصورت انداز میں شائع ہوئی ہے۔ کاغذ بھی عمدہ ہے ناشر ایک چھوٹے شہر میں ہونے کے باوجود رنگارنگ علمی و ادبی کتب چھاپ کر علم وادب کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ادرے کی کتب خرید کر جہالت کے خلاف ان کے جہاد میں شریک ہوجایئے۔
تبصرہ نگار: تبصرہ نگار: سیّد عاصم محمود بن سیّد قاسم محمود
روزنامہ ایکسپریس، بتاریخ 31 جنوری 2016ء