Daily Roshni News

جنگِ الیس | سیفُ اللہؓ کی وہ فتح جس نے تاریخ بدل دی

جنگِ الیس | سیفُ اللہؓ کی وہ فتح جس نے تاریخ بدل دی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اسلامی فتوحات کی تاریخ میں جنگِ الیس ایک نہایت اہم اور فیصلہ کن معرکہ ہے، جو 12 ہجری (633ء) میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں عراق کی سرزمین پر پیش آیا۔

مزار اور ولجہ کی شکست کے بعد عرب عیسائی قبائل، خصوصاً بنو بکر بن وائل، شدید غصے اور انتقام کے جذبے میں مبتلا ہو گئے۔ یہ قبائل عراق کے عرب النسل عیسائی تھے اور اپنی شکست کو اپنے ہی ہم قوم مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت سمجھ رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دوبارہ جنگ کی تیاری شروع کی اور عبد الاسود العجلی کو اپنا سردار مقرر کیا۔

انہوں نے حیرہ اور ابلہ کے درمیان واقع مقام الیس میں لشکر جمع کیا اور ساتھ ہی دربارِ ایران سے مدد طلب کی۔ ایرانی سپہ سالار بہمن جاذویہ کو حکم ملا کہ وہ بھاری فوج کے ساتھ عیسائیوں کی مدد کو پہنچے۔ بہمن نے فیصلہ کیا کہ شہنشاہ اردشیر سے بالمشافہ مشورہ کیا جائے، لہٰذا اس نے فوج کی کمان جابان کے سپرد کی اور ہدایت دی کہ اس کی واپسی تک جنگ کا آغاز نہ کیا جائے۔

ادھر حضرت خالد بن ولیدؓ کو خبر ملی کہ عرب عیسائی قبائل تو جمع ہو چکے ہیں، مگر ایرانی فوج کی موجودگی کا انہیں مکمل علم نہ تھا۔ آپؓ نے پہلے حفیر پہنچ کر پشت کو محفوظ کیا، پھر پورے اعتماد کے ساتھ الیس کی طرف پیش قدمی کی۔

الیس پہنچتے ہی حضرت خالدؓ نے دشمن کو تیاری کا موقع دیے بغیر اچانک حملہ کر دیا۔ حملہ اس قدر شدید اور غیر متوقع تھا کہ دشمن بوکھلا گیا۔ عیسائیوں کا سالار آغاز ہی میں مارا گیا اور ان کی صفوں میں اضطراب پھیل گیا۔

یہ صورتحال دیکھ کر ایرانی سردار جابان آگے بڑھا اور ایرانی دستے کے ساتھ عیسائیوں کا حوصلہ بڑھانے لگا۔ اس کے آدمی لشکر میں اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ بہمن جاذویہ بہت جلد ایک عظیم فوج کے ساتھ پہنچنے والا ہے۔ اس امید نے عیسائیوں کو کچھ دیر سنبھال لیا اور انہوں نے بڑی جرات سے مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔

حضرت خالدؓ دشمن کے اس غیر متوقع استقلال پر حیران ہوئے، مگر آپؓ نے مسلمانوں کو مزید جوش دلایا اور بھرپور حملے کا حکم دیا۔ وقت گزرتا گیا، لیکن بہمن جاذویہ نہ آ سکا۔ عیسائیوں کی امیدیں دم توڑنے لگیں، جبکہ مسلمانوں کا دباؤ بڑھتا چلا گیا۔

آخرکار دشمن کی صفیں ٹوٹ گئیں، ان کے قدم اکھڑ گئے اور وہ میدانِ جنگ سے فرار ہونے لگے۔ حضرت خالدؓ نے اعلان فرمایا:

“جو بھاگے اس کا تعاقب کرو، حتیٰ کہ اسے زندہ گرفتار کر کے لایا جائے، اور صرف اسی کو قتل کیا جائے جو مزاحمت پر اتر آئے۔”

مسلمانوں اور ان کے ساتھ شامل عراقی عربوں نے دشمن کو گروہ در گروہ گرفتار کیا۔

ایرانی فوج نے جنگ سے پہلے کھانا تیار کر رکھا تھا اور وہ اطمینان سے بیٹھے کھا رہے تھے، مگر مسلمانوں کے اچانک حملے پر وہ کھانا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ حضرت خالدؓ نے فرمایا:

“یہ کھانا اللہ نے تمہارے لیے تیار کرایا ہے، اب اسے کھاؤ۔”

مسلمانوں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ کھانا کھایا، ایسی نعمتیں جو انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھیں۔

جنگ کے بعد حضرت خالدؓ نے امغیشیا (یا منیشیا) نامی مالدار شہر کا رخ کیا، جو دولت اور آبادی میں حیرہ کے برابر تھا۔ اس شہر نے بھی دشمن کی مدد کی تھی، چنانچہ اسے فتح کیا گیا۔ یہاں سے مسلمانوں کو بے شمار مالِ غنیمت حاصل ہوا، حتیٰ کہ ہر سوار کو پندرہ سو درہم ملے۔

حضرت خالدؓ نے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ اور قیدی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں روانہ کیے۔ جب خلیفۂ وقت نے حضرت خالدؓ کی فتوحات کا حال سنا تو بے ساختہ فرمایا:

“عورتیں خالدؓ جیسا شخص پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔”

جنگِ الیس ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایمان، حکمتِ عملی، اطاعت اور اللہ پر کامل توکل وہ طاقت ہے جو بڑے سے بڑے لشکروں کو بھی شکست دے سکتی ہے۔

🎬 Signature:

By Ashar Nadeem | Islam99

#جنگ_الیس

#حضرت_خالد_بن_ولیدؓ

#سیف_اللہ

#اسلامی_تاریخ

#فتوحات_اسلام

#عہد_صدیقی

#اسلامی_جنگیں

#مجاہدین_اسلام

#اللہ_پر_توکل

#ایمان_کی_طاقت

#اسلام_کی_فتح

#اسلام_کا_سنہرا_باب

#Islam99

#AsharNadeem

Loading