جو بندہ اخلاص کے ساتھ اللہ کے در کو پکڑ لے، اس کے لئے راستے آسان ہو جاتے ہیں۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سعودی عرب میں مقیم ایک پردیسی بتاتا ہے کہ ایک دن میرے کفیل نے زکات تقسیم کرنے کا ارادہ کیا۔ مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ گاڑی میں زکات کے لفافے رکھے گئے تھے، ہر لفافے میں پانچ ہزار ریال تھے۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ ہم دونوں ساحلی علاقے کے دیہات کی طرف نکلے جہاں غربت اور محرومی کا بسیرا ہے۔
ایک گاؤں سے نکل کر جدہ جازان شاہراہ پر آئے تو دور سے ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ جلتی دھوپ میں ایک بزرگ اکیلے، ننگے صحرائی راستے پر چل رہے تھے۔ عمر بظاہر ستر برس یا اس سے کچھ زیادہ تھی، لیکن جسم میں اب بھی قوت باقی تھی۔ دوست نے کہا: “یہ بزرگ اس بیابان میں کس حال میں بھٹک رہے ہیں؟” ڈرائیور نے کہا: “یقیناً یہ کوئی یمنی ہے، غیر قانونی راستے سے آیا ہوگا۔”
گاڑی روکی گئی، بزرگ کے قریب گئے اور سلام کیا۔ پوچھا: “کہاں سے آئے ہو؟” بولے: “یمن سے۔” پھر سوال کیا: “کہاں جا رہے ہو؟” جواب ملا: “مکہ مکرمہ، بیت اللہ کے دیدار کو، عمرہ کرنے۔”
ہم نے کہا: “قانونی طریقے سے آئے ہو؟”
بولے: “نہیں، میرے پاس اتنے وسائل کہاں۔ داخلے کے لئے دو ہزار ریال ضمانت دینا لازمی تھا، اور میرے پاس کل دو سو ریال تھے۔ ایک سو سواری پر خرچ ہو گئے، ایک سو باقی ہیں۔ اس کے بعد پیدل چل رہا ہوں۔”
دوست نے پوچھا: “کتنے دن ہو گئے چلتے ہوئے؟”
بولے: “چھ دن سے مسلسل سفر میں ہوں۔”
پھر سوال کیا گیا: “روزے سے ہو؟”
بولے: “جی ہاں، صائم ہوں۔”
یہ سن کر ہم سب حیران رہ گئے۔ دھوپ، بھوک، پیاس، طویل سفر اور پھر بھی روزہ! ہم نے پوچھا: “یہ سب چوکیوں سے کیسے گزر گئے؟”
بزرگ نے کہا: “اس رب کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں ہر چوکی کے پاس سے گزرا لیکن کسی نے روکا ہی نہیں۔”
انہوں نے مزید بتایا: “کچھ دیر پہلے تو ایک گشتی پارٹی نے پکڑا بھی تھا اور تھانے لے گئی۔ مگر جب میں نے کہا کہ میرا مقصد صرف بیت اللہ کی زیارت ہے تو انہوں نے رہا کر دیا۔”
یہ سن کر ہمارے دل کانپ گئے۔ سبحان اللہ! اللہ نے اس بندے کے لئے خود راستے آسان کر دیئے۔ میرے کفیل صاحب نے بے اختیار دو لفافے بزرگ کے ہاتھ میں تھما دیئے۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا مگر انہیں اندازہ نہ تھا کہ اس میں کتنی رقم ہے۔ میں نے کہا: “لفافے کھولو اور پیسے محفوظ کر لو۔” جب انہوں نے لفافے کھولے اور دیکھا کہ دس ہزار ریال ہیں تو حیرت و صدمے سے گاڑی میں گر پڑے۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور زبان پر یہی الفاظ تھے: “یہ سب میرے لئے؟ یہ اتنی بڑی رقم سب میرے لئے؟”
ہم نے انہیں ہوش میں لانے کے لئے پانی چھڑکا۔ ہوش آیا تو کہنے لگے: “میرا یمن میں ایک چھوٹا سا گھر ہے۔ اس کے ساتھ ایک زمین تھی جسے میں نے اللہ کے نام پر وقف کر دیا۔ اسی پر میں نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر مسجد تعمیر کی۔ عمارت مکمل ہو چکی ہے، مگر فرش اور کچھ چیزیں باقی ہیں۔ میں اسی فکر میں تھا کہ کہاں سے رقم آئے گی۔ آج اللہ نے آپ کے ذریعے مجھے وہ عطا کر دی۔”
یہ سن کر ہماری آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو گئے۔ اس وقت دل میں رسول اکرم ﷺ کا فرمان گونج اٹھا:
“جس کا مقصد آخرت ہو، اللہ اس کے دل میں غنا ڈال دیتا ہے، اس کے کاموں کو سمیٹ دیتا ہے اور دنیا خود اس کے پاس جھک کر آتی ہے۔ اور جس کی فکر صرف دنیا ہو اللہ اس کی محتاجی آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے، اس کے معاملات کو منتشر فرما دیتا ہے اور اسے دنیا سے وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہے۔”
میرے کفیل نے اشارہ کیا اور مزید دو لفافے بزرگ کے حوالے کر دیئے۔ یوں کل رقم بیس ہزار ریال ہو گئی۔ بزرگ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی تھم ہی نہ رہی۔ وہ مسلسل دعائیں دیتے رہے اور بار بار دہراتے رہے: “اللہ نے پرندوں کی طرح مجھے رزق پہنچا دیا۔”
واقعی وہ لمحہ تھا جب رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ یاد آ گئی:
“اگر تم اللہ پر اس طرح بھروسہ کرو جیسا کہ حق ہے تو اللہ تمہیں ویسے ہی رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے، صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ لوٹتے ہیں۔”
یہ قصہ اس بات کی زندہ مثال ہے کہ جو بندہ اخلاص کے ساتھ اللہ کے در کو پکڑ لے، اس کے لئے راستے آسان ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعہ صدق دل سے نکلی دعا اور توکل کی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ دولت نصیب فرمائے۔