Daily Roshni News

جھنجھٹ۔۔۔ تحریر۔۔۔سید نوشاد کاظمی

جھنجھٹ
تحریر۔۔۔سید نوشاد کاظمی
مرد کی کامیابی اور ناکامی کا
دارومدار اس کے جیون ساتھی پر ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ جھنجھٹ۔۔۔ مرد کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اس کے جیون ساتھی پر ہے۔) درخت کی شاخیں بن کھوڑ کے تقریباً سات آٹھ سو برس پرانے دیو ہیکل درخت کے ساتھ بنے بڑے سے کچے مکان کی انگلی جھاڑیوں سے بنی منڈھیر کو چھورہی تھیں …. مکان کی مشرقی سمت کا پلنتھ زمین سے لگ بھگ تیس فٹ اونچا تھا، جس کی بنیادیں کھیت سے بڑی دیوار اٹھا کر قائم کی گئی تھیں۔ پہاڑ کے نکڑ پر واقع اس مکان کی انگلی دیوار بند تھی ماسوائے ایک چھوٹی سی کھڑکی کے …. یہ کھڑ کی ایک چھوٹے سے کمرے کی تھی، جس کے دونوں چھوٹے چھوٹے لکڑی کے پٹوں پر قدیم طرز کی نقاشی کے خطوط زبان حال سے اپنی خستہ حالی کا رونا رو رہے تھے ، ہوا کے جھونکے کمرے کے اندر پرانی وضع کے پلنگ پر لیٹے عمر دراز کے لیے وجہ انبساط بن رہے تھے …. عمر دراز کو ڈرپ لگی ہوئی تھی، جس کی بوتل سٹینڈ والے بند پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی۔ عمر دراز کا گلا اس قدر بیٹھا ہوا تھا کہ ہلکی سی آواز بھی اس کے حلق سے نہیں نکل رہی تھی …. جب ہوا کے تیز جھونکے کھڑکی کے راستے سے اندر جاتے تو چٹ لیٹے عمر دراز کے سر کے لیے لمبے بال لہرا کر اس کے منہ پر آجاتے ، جن کو وہ ہاتھ سے ہٹا کر سر کے نیچے داب دیتا …. ادھیڑ عمر ، عمر دراز کی شیو بڑھی ہوئی تھی، جس کے سفید چھوٹے چھوٹے بال باریک کانٹوں کا روپ دھار کر عمر دراز کی شخصیت پر انوکھی سی یاسیت کا حاشیہ چڑھائے ہوئے تھے۔ عمر دراز کےکمرے کے ساتھ ملحق کمرے میں اس کی بیوی
نسرین صفائی کر رہی تھی، جس کی دراز کے کمرے تک بھی پہنچ رہی تھیں کیونکہ کمروں کو ملانے والا بغلی دروازہ پورا کھلا ہوا تھا۔ یہ کمرہ عمر دراز کے زیر استعمال تھا، جہاں بیٹھ کر وہ ادب کے شاہکار تخلیق کرتا تھا۔ مگر اب زخمی ہونے کی وجہ سے تخلیقی کام ٹھپ ہو چکا تھا، اب وہ اپنے احباب کے لیے مختص کمرہ میں آگیا تھا، جہاں اس کا علاج ہو رہا تھا۔ عمر دراز کے زیر استعمال رہنے والے اس دوسرے کمرے میں بان کی بنی ہوئی دو چار پائیاں پڑی تھیں، جن کے پایوں کی چولیں برسوں بوجھ سہارنے کی وجہ سے ڈھیلی پڑ چکی تھیں اور ہلانے پر چر مرانے لگتی تھیں۔ چار پائیوں کے شاد کاظمی علاوہ کمرے میں دو بوسیدہ کی مسہریاں ، دیوار کے ساتھ بنی لکڑی کی بڑی سی الماری، ایک بڑے بڑے درازوں والی میز تھی۔ چار پائیوں پر بستر لیے پڑے تھے۔ میز پر کاغذوں ، رجسٹروں، رسالوں اور اخبارات کا بے ترتیب انبار تھا۔ ان میں کچھ کاغذ مرے ہوئے، تہہ کیے ہوئے، آدھے اور پورے لکھے ہوئے تھے۔ لکیر دارکاغذوں کا لکھا ہوا ایک بڑا سا بنڈل جو تسمہ نما ٹیگ سے باندھا گیا تھا، بکھر اپڑا تھا۔ مگر کاغذوں کا ایک سرا ئیگ نےجوڑ رکھا تھا۔
عمر دراز کی بیوی اس کے کمرے کی صفائی کے دوران خود کلامی کرتے ہوئے بول رہی تھی اور عمر دراز اس کا ہر ہر جملہ سن کر پریشان ہورہا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی۔
اے خدایا ! …. یہ دراز جی“ نے کیا حلیہ بگاڑ رکھا تھا، کمرے کا …. بار بار صفائی کرتی ہوں، مگر یہ کمرے کا حشرا، نشر ابگاڑ دیتے ہیں۔ جس طرف بھی دیکھو کاغذ… بستر پر دیکھو کاغذ چار پائی پر دیکھو کاغذ …. میز پر دیکھو کاغذ … پتہ نہیں ان کاغذوں پر یہ کیا کیا لکھتے رہتے ہیں ۔ آخر ان کے دماغ میں اتنا کچھ سموتا کیسے ہے ؟…. اور تو کسی کام کے ہیں نہیں …. بس لکھنے پر ہی سارا زور رہتا ہے.. عمر دراز نے جب اپنی بیوی کی یہ باتیں سنیں ، تو تلملا کر رہ گیا …. اسے اپنے ناول کا خدشہ تھا، جو تین برسوں میں اس نے مکمل کیا تھا اور جسکا مسودہ میز پر پڑا تھا۔ دو دن پہلے وہ اس ناول کو حتمی طور پر پڑھ کر طباعت واشاعت کے لیے دینا چاہ رہا تھا۔ ابھی اس کا کچھ حصہ باقی تھا کہ اس کی بیوی اسے کوسنے لگی کہ رات کو کیا کھائیں گے، گھر میں پکانے کے لیے کچھ نہیں ہے، مغرب ہونے کو ہے …. کہہ کہہ کر تھک گئی ہوں کہ جا کر سبزی اور گھی لے آٹو ، مگر صبح سے کاغذ لیے پڑھنے بیٹھے ہیں۔ ٹس سے مس نہیں ہوتے ، جیسے ان کے کان شل ہو گئے ہوں اور کچھ نہ سن پاتے ہوں …. رات کو پھر مانگنا کچھ کھانے کے لیے …. وہ شریفا اگر کہیں دفع نہ ہو گیا ہوتا تو اس کو کہہ کر سبزی گھی منگوالیتی … ناول پڑھتے ہوئے شریفے کا نام سن کر عمر درازچونکا۔ شریف عمر دراز کا بیٹا تھا، اسے عمر دراز نے صبح حمید اللہ صاحب کے ہاں تین لاکھ کا چیک لانے بھیجا تھا، کیونکہ حمید اللہ صاحب نے عمر دراز کا ناول طباعت کرنےاور اپنے مجلہ میں شائع کرنے کے لیے تین لاکھ کے عوض خرید لیا تھا۔
عمر در از اپنی بیوی کی پکار اور تکرار پر اپنا ناول وہیں چھوڑ کر جلدی سے اٹھا اور بائیک لے کر سبزی، گھی لانے نکل گیا۔ مگر شومی قسمت کہ حادثہ ہونے پر اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اب وہ ٹانگ پر بندھے پلستر کے ساتھ دوسرے کمرے میں لیٹا اپنی بیوی کی باتیں سن رہا تھا۔ مگر گلا مکمل بیٹھ جانے کے باعث بول نہ پار ہا تھا …. شریف تین لاکھ کا چیک لے آیا تھا، جو اسی میز پر ایک لفافے میں پڑا تھا۔ اب ناول حمید اللہ صاحب کے حوالہ کرنا تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ حمید اللہ صاحب کو فون پر اطلاع دے کہ وہ حادثہ میں زخمی ہو چکا ہے اور اپنے بیٹے کے ہاتھ ناول بھجوا رہا ہے، مگر گلا بیٹھ جانے کے باعث بات کر نانا ممکن تھی۔ چنانچہ اس نے سوچا کہ شام کو جب شریف گھر آئے گاوہ اس کو لکھ کر بتائے گا کہ ناول کی ایک کاپی کروا کر اصل مسودہ حمید اللہ صاحب کو دے کر آتو …. مگر اب بیوی کی باتیں سن کر وہ چونکا کہ وہ اس ناول کو جس کے بکھرے اوراق میز پر پڑے تھے، کہیں کوڑے کرکٹ میں شامل نہ کردے….!!
نسرین خود کلامی سے بڑ بڑائی۔
اے خدایا ! کیا کروں …. ! ! ہر طرف کاغذ بکھرے ہوئے ہیں…. کتنی بار سمجھا چکی ہوں کہ کمرہ صاف رکھو…. ہر روز کاغذ، اخباریں، کتابیں بکھیر دیتے ہیں۔ آج میز پر ڈھیر لگا دیا۔ الماری کس لیے بنی ہے …. الماری دیکھو تو وہ بھی بھری ہوئی ، میز کی دراز میں دیکھو تو کاغذوں سے سے اڑسی ہوئی“۔
عمر دراز نے پینے کی کوشش کی تاکہ وہ بیوی کو متوجہ کر سکے کہ وہ اس کے کمرے میں آئے تاکہ وہ لکھ کر بتادے کہ میز پر بکھرے کاغذ نہیں ہیں، بلکہ اس کا ناول جھنجھٹ“ ہے۔ جو تین لاکھ کے عوض رسالہ کے لئے لکھا ہے۔ اسے ضائع نہ کرنا۔ مگر عمر دراز کے حلق سے مطلق آواز نہ نکلی۔ وہ اپنی ٹوٹی ٹانگ کی وجہ سے اٹھ تو نہ سکتا تھا …. چنانچہ اس نے زور زور سے ہاتھ پلنگ پر مارنا شروع کیا۔ تاکہ دھپ دھپ کی آواز پیدا ہو اور اس کی بیوی اس کی طرف آئے، مگر اس دھپ دھپ کی آواز کا الٹا اثر ہوا۔ دھپ دھپ کی آواز سے وحشت زدہ ہوکر بولی۔
اب پلنگ پر لیٹے ہوئے بھی ان کو آرام نہیں ہے۔ ہر وقت ان کے دماغ میں کیڑا اچھلتا رہتا ہے …. پھر زور سے کہا۔
نہ بجاؤ پلنگ …. آؤں گی، ادھر بیمار پرسی کرنے …. ذرا کام نمٹالوں … یہ کیا حشر بنارکھا تھا آپ نے اپنے کمرے کا ….. اس کی صفائی کرنے دو …. یہ میز پر کاغذوں ، کتابوں، اخباروں اور رسالوں کا انبار کیوں سجار کھا تھا …. اس کو سنبھالنے دو“۔ عمر دراز اس کی باتیں سن کر تلملایا۔ ایک بار پھر اس نے بولنے کی کوشش کی مگر گلے سے پھنس پھس کی آواز کے سوا کچھ نہ نکالا۔ اف خدایا! ….“ اس کی بیوی دوبارہ خود کلامی یہ کرتے ہوئے بولی۔ کیا کروں اس کہاڑ خانے کا۔ یہ میز پر دیکھو دو تین سو اوراق ڈور سے باندھ کر رکھے ہیں …. نہ جانے ان کا کیا کریں گے ….. ان کو کدھر سنجالوں …. اٹھا کر لے جاتی ہوں جلانے کے لیے“۔
بیوی کا یہ ارادہ بھانپ کر عمر دراز کے تو پسینے چھوٹ گئے۔ جس ناول پر اس نے برسوں محنت کی تھی اور دن رات ایک کیے تھے ، اب جلنے جارہا تھا …. وہ روہانسا ہو گیا …. دل ہی دل میں دعائیں کرنے لگا کہ کسی طرح اس کا ناول اس کی بیوی کے ہاتھوں جلنے سے بچ جائے۔ نسرین چٹی ان پڑھ تھی۔ بڑی مشکل سے عمر دراز نے اسے ٹائم دیکھنے کے لیے بارہ تک ہند سے سکھائے تھے اور بڑے جتنوں سے وہ سوئیوں اور بارہ کے ہندسوں والی گھڑی پر ٹائم بتا سکتی تھی۔ مگر اس میں بھی دس پندرہ منٹ آگے پیچھے کر دیتی تھی اسے عمر دراز کے لکھنے سے بھی چڑ تھی …. اس کے خیال میں لکھنے اور کتابیں پڑھنے والے دنیا کے کئے اور بے کار لوگ ہوتے ہیں اور بد قسمتی سے اس کا شوہر بھی ان میں سے ایک تھا …. عمر دراز کے اس مطالعے اور لکھنے کے مشغلے پر وہ ہمیشہ برہم رہتی تھی اور عمر دراز کے لیے مستقل جھنجھٹ کا باعث بنی رہتی تھی …. اٹھارہ سالہ رفاقت میں عمر دراز اس میں سر مو تبدیلی نہ لا سکا تھا۔ نسرین کے نزد یک عمر دراز کوڑھ مغز اور بے وقوف تھا۔ ایک بار پھر نسرین کو صفائی کے دوران تلقین کا بخار چڑھا اور بولی ” بتا بتا کر تھک گئی ہوں، کوئی عقل والا ہو تو سمجھے…. عقل کی بوند تک نہیں ہے ان میں۔ ان کاغذوں اور کتابوں کو بھلا میں کہاں سنبھالوں ؟… تلخ اور تیز لہجے میں بیوی کی یہ باتیں سننے کے بعد عمر دراز کو کاغذوں کے شٹر شٹر کی آواز آنے لگی۔ پھر چند ثانیے بعد عمر دراز کو اپنی بیوی کی پکار سنائی دی۔
جلا ہی آؤں …. ان کو لے جا کر ….
یہ بات سننے پر عمر دراز پر اضطراب طاری ہو گیا …. بے تابی سے اس کا جسم ہلنے لگا اور بل جانے سے مبر ذرا ان ٹوٹی ہوئی ٹانگ سے درد کی گہری ٹیسیں اٹھنے لگیں …. پھر اسے اپنی بیوی کے دروازے سے باہر نکل کر جاتے ہوئے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس نے زور زور سے پلنگ پر ہاتھ مار کر دھپ دھپ “ کی آواز بیوی کو متوجہ کرنے کے لیے پیدا کی کہ وہ اگر اس کے کمرے میں آ جائے تو وہ اپنا ناول جلنے سے بچا سکے۔ مگر نسرین دھپ دھپ کی آواز سن کر باہر ہی سے زور سے بولی ….
صبر۔۔۔ صبر … آتی ہوں
کاغذوں کو جلا کر آئوں …. اتنا بھی نہیں سوچا کہ ان بے کار کاغذوں کو ٹھکانے لگادوں … مجھے ہی سمجھ رکھا ہے گھر کی صفائی کے لیے جیسے میں نوکرانی ہوں ان کی۔ اتنا بھی خیال نہیں آیا ان کو کہ اسکے لیے کچھ سہولت پیدا کر میں …. ایک پر ایک کام کھول کر رکھ دیتے ہیں …. خیال نہیں آتا، کہ بے چاری ”جند جائی“ کیا کیا کرے گی…. کتنے دھر ھگڑے گھسیٹے گی؟“۔ پھر نسرین کے قدموں کی چاپ ہلکی ہوتے ہوتےغائب ہو گئی۔
عمر دراز گہرے دکھ میں ڈوب گیا کہ اس کی تین ” سالوں کی ریاضت اس کی بیوی اب پلک جھپکنے میں جلا آئے گی …. وہ پھر اس ناول کو نئے سرے سے کیسے لکھ پائے گا۔ ناول تو اس کو پورا یاد تھا، مگر چار پانچ سو صفحات – دوبارہ لکھنا ایک بہت بڑا نکھیڑا تھا …. اور پھر خدشہ بھی تھا کہ پہلے جیسا اسلوب قائم نہ رہ پائے …. یہ سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر بے چارہ کیا – کرتا …. اس کی بیوی کا ” جھنجھٹ“ تو اس کی آخری سانسوں تک اس کے ساتھ ہی تھا۔
تقریبا آدھ گھنٹے بعد موٹر سائیکل کی ” دھڑ دھڑ“ کی آواز سنائی دی اور یکلخت بند ہو گئی۔ پھر تیز تیز قدموں چاپ کے ساتھ ابو …. ابو …. ابو …. پکارتا ہوا شریفا دروازہ کھول کر عمر دراز کے کمرے میں داخل ہوا…. اس کے ہاتھ میں پندرہ میں آدھ جلے ہوئے صفحات لہرا رہے تھے۔ وہ بولا ” …. ابو …. وہ امی نے آپ ناول جلا دیا ہے، جو آپ نے تین سالوں میں لکھا تھا …. یہ اوراق میں نے بچالیے ہیں …. یہ کہہ کر اس نے آدھ جلے اوراق عمر دراز کے سامنے کر دیئے۔ عمر دراز نے دیکھا۔ یہ اس ناول کے آخری حصے کے صفحات تھے ، ایک صفحہ پر لکھا تھا۔
مرد کی کامیابی کا دار ومدار اس کے جیون ساتھی پر ہے۔ مونس، غمخوار ، ہمت بندھوانے اور دلجوئی و ہمت افزائی کرنے والی بیوی مرد کے لیے انمول نعمت ہے…. جو مرد کی دلچسپیوں کے کاموں کو اپنے لیے بھی دلچسپ بنائے …. مگر اس کے برعکس تنقید اور زبان در از بیوی اچھے بھلے مضبوط اعصاب کے مالک مرد کی سٹی تم کر دیتی ہے۔ اس کے اعضا مصعمل کر دیتی ہے اور جب یہ مستقل جھنجھٹ ان کے گلے پڑ جائے تو پھر ایسے لوگوں کی زندگیاں کسی عذاب سے کم نہیں ہو تیں“۔ یہ اور اق پڑھتے پڑھتے پہلے عمر دراز کا رنگ فق ہوا اور اس کا جسم ہلکی ہلکی جھر جھریاں لینے لگا …. پھر ساکن ہو گیا، مگر بت کی مانند لیے عمر دراز کی نگاہیں ٹکٹکی باند ھے اوراق پر جمی ہوئی تھیں ….
شریف نے اور اق لہرائے، لیکن عمر دراز کی ساکن و جامد مد کھلی آنکھیں بدستور سامنے دیکھ رہی تھیں۔ شریفا چند ثانیے خاموش کھڑا رہا ۔ پھر متوحس و حواس باختہ ہو کر زور زور سے پکارنے لگا:
ابو۔۔۔ابو۔۔۔ابو۔۔۔ابو۔۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2019

Loading