Daily Roshni News

جیتی جاگتی زندگی۔۔۔آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ۔۔۔(قسط نمبر 2)بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست2017

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔جیتی جاگتی زندگی۔۔۔ آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ)دینا۔“ امیر کبیر زین نے خالہ کو ٹالتے ہوئے کہا۔ درخواست تو لکھ کر ساتھ لائی ہوں … یہ بڑھیا نے بڑے ہی ادب سے ایک کاغذ نکالا۔ اسے زین کی میز پر رکھا اور اس سے معذرت کرتے ہوئے خود ہی کمرے سے نکل آئی کہ اس نے اسے بہت تکلیف دی ہے۔
خالہ کے جاتے ہی زین نے بھنا کر درخواست پھاڑ دی اور بڑبڑانے لگا۔
ان عزیزوں…. رشتہ داروں نے ناک میں لیا جائے گا۔“ دم کر رکھا ہے۔ جب دیکھو منہ اٹھائے چلے آتے ہیں ہو نہ جیسے میں نے کوئی خیراتی ادارہ کھول رکھا ہے۔“ پھر اسے رشتہ داروں کے ذکر پر اپنے پرانے اور بچپن کے دن یاد آئے۔ اسے ان دنوں کی یاد بھی آئی۔ جب وہ چھوٹا سا تھا تو اس کی ماں فوت ہو گئی جگہ بدنام ہے۔ تھی … پھر اس کی خالہ ہی نے اس کی دیکھ بھال کی تھی۔ وہ اسے کتنا چاہا کرتی تھی۔ گود میں لے کر اسے پہروں کھلاتی تھی۔ پیار کرتی تھی۔ چومتی تھی۔ اسے چاکلیٹ لا کر دیتی تھی ….. میں نے اس کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا اور پھر درخواست پھاڑ دینا سراسر زیادتی اور نا انصافی کی بات ہے۔ اگر شاہد کو انٹرویو میں میرٹ پر چن لیا جائے تو میرا کیا بگڑے گا۔
زین ایسا سوچتے سوچتے پریشان ہو گیا۔ اسی اضطراب میں اس نے اپنی سیکرٹری کو بلا کر کہا کہ کماز کم آدھ گھنٹے تک اسے کوئی بھی ملنے نہ آئے۔ وہ واپس اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے پھاڑی ہوئی درخواست کا پرزہ پرزہ اٹھایا۔ انہیں بڑی مشکل سے جوڑا ۔ خود ہی ایک کاغذ پر اس کی نقل اتاری اور پھر سیکرٹری کو بلا کر اسے وہ درخواست دیتے ہوئے کہا…. “دیکھو…. وہ فرم کی خالی آسامی کے لیے جو درخواستیں آئی ہیں۔ اس کو بھی ان کے ساتھ ہی رکھ دو۔ یہ میرے ایک کزن کی درخواست ہے۔ لیکن یہ سفارش نہیں ہے اور نہ ہی اسے کوئی رعایت دینے کا ارادہ ہے۔ اگر وہ انٹر ویو میں پورا اترے تو اسے رکھ لیا جائے گا۔
کئی دنوں بعد بوڑھی خالہ بھی آئی اور اس نے بڑی ناامیدی اور مایوسی سے بتایا کہ اس کے بیٹے کو نوکری نہیں ملی۔ حالانکہ وہ تو انٹر ویو میں اول آیا تھا۔ اس کی جگہ جس کو ملازم رکھا گیا ہے وہ شہر کار کیسزادہ ہے اور اپنی عیاشیوں اور آوارگی کے لیے سب جگہ بدنام ہے۔
زین نے خفگی سے کہا۔ ”میں اس کی تفتیش کروں گا۔ مگر فی الحال نہیں۔ مجھے آج تجارت کے سیکرٹری سے ملنے جاتا ہے۔ اس لیے وقت نہیں ہے….. میں بعد میں دیکھ لوں گا۔“ بڑھیا کے جانے کے بعد اس نے سیکرٹری سے پوچھا…. ”کیا وہ لڑکا اس آسامی کے قابل نہیں تھا۔ وہ تو بڑا ز مین تھا۔“
نہیں سر! انٹرویو میں تو وہ ٹاپ پر آیا تھا۔ لیکن ! لیکن کیا۔ “ زین نے جھنجھلا کر پوچھا۔ فرم کے ضابطوں اور آپ کے حکم کے مطابق ہم نے اس کی درخواست کی تحریر جانچنے کے لیے “اہر تحریر کو دی تھی. اس نے جانچنے اور
پرکھنے کے بعد بتایا کہ ایسے رسم الخط اور تحریر والا س…. بے ایمان، جواری اور منشیات کا عادی ہو تا ہے۔ لہذا اس لڑکے کو ملازمت نہ دی گئی۔“ زین نے سیکرٹری کی بات سنی تو اس کے ہاتھ سے سگریٹ کا پائپ چھوٹ کر نیچے جا گرا۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہنے لگا۔ بعض انسان اپنے بنائے ہوئے ضابطوں میں گرفتار ہو کر خود شرمندگی اور ندامت کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔“
اعتبار
کیا واقع ہی آج کے دور میں لوگوں پر سے اعتباراٹھتا جارہا ہے….؟ نہیں… ایسا تو نہیں ہے۔ انسانیت، رواداری اور خلوص اب بھی معاشرے میں دکھائی دیتا ہے مگر میرا اعتبار کیوں ٹوٹا ….؟ خالہ فرخندہ اپنی روداد سناتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ ان کی داستان کچھ یوں ہے۔ سخت گرمی کے عالم میں دوپہر کے وقت محلے کے سب گھروں کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ گلی میں ایک بڑھیا گرمی سے نڈھال داخل ہوئی۔ اس نے خالہ فرخندہ کے گھر کی بیل بجائی۔ خالہ ہمارے محلے کی نہایت خوش اخلاق اور من سار خاتون تھیں۔ ان کے شوہر ملازمت کے سلسلے میں زیادہ تر غیر ملکی دوروں پر رہتے تھے۔ ان کے تین بیٹے تھے، جو بر سر روزگار تھے۔ دو غیر ملکی آئل کمپنی میں اچھے عہدوں پر فائز تھے، جبکہ چھوٹے نے ذاتی کاروبار شروع کیا ہوا تھا، جو خوب پھل پھول رہا تھا۔ گھر میں خوشحالی کی وجہ سے ہر سہولت میسر تھی۔ یہی وجہ تھی
کہ گرمی اور بجلی کی چیرہ دستیوں سے محفوظ تھے۔ فرخندہ خالہ کو آج کل بیٹیوں کی شادیوں کی فکر کھائی جارہی تھی۔ چونکہ وہ خود رحمدل تھیں۔ اس لیے اچھے گھرانوں میں لڑکیاں ڈھونڈ رہی تھیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی رشتے کی ایک پھو کو جان اپنے گھر بلایا ہوا تھا۔ وہ بھی ان کی طرح چاق و چوبند اور عمر میں ان سے چند سال ہی بڑی تھیں۔ دونوں نے بچپن کی سہیلیاں تھیں۔ مزاج بھی ملتے جلتے تھے۔ وہ اسے اکثر خالہ فرخندہ کے اصرار پر ان کے گھر آتیں اور ملا کئی کئی دن قیام کرتی ہیں۔
جس وقت اس بڑھیا نے ان کے گھر کی کال بیل : بجائی۔ خالہ فرخندہ اپنے کمرے میں اے سی کے ان میزے لوٹ رہی تھیں اور پھپھو کچن میں چائے بناری تھیں۔ خالہ فرخندہ کو اس وقت کسی کا آنا سخت ناگوار گزرا۔ بیٹے عموماً رات ہی کو گھر لوٹتے تھے، وہ کسی بن بنالے مہمان کے لیے دروازہ کھولنے اٹھیں، دروازہ کھولا تو سامنے ایک لاغر، بیمار صورت ایک بوڑھی خاتون کھڑی ہانپ رہی تھی۔ جیسے بہت دور سے اس چلچلاتی دھوپ میں چل کر آئی ہو۔ فرخندہ خالہ اس کا پھٹے پرانے کپڑوں والا حلیہ دیکھ کر یہ سمجھیں کہ کوئی بھکارن ہے۔ انہوں نے یہ سوچ کر کہا۔ ”ہاں ایسے وقت تو آرام کرلیا کرو۔ ٹھہرو کچھ لے کر آتی ہوں۔“
اس ستر سالہ عورت نے کہا۔ ”بیٹی ! مجھے بس دو گھونٹ پانی پلا دو اور کچھ دیر چھاؤں میں بیٹھنے دو۔ میں اپنے بیٹے کے ساتھ ڈاکٹر سے دوا لینے آئی تھی۔ وہ مجھے وہاں چھوڑ کر اپنے کام سے چلا گیا۔ مجھ سے یہ کہہ کر گیا تھا کہ باری آنے پر میں ڈاکٹر کو دکھا دوں۔ میں نے
ڈاکٹر کو دکھا دیا۔ اس نے دوا لکھ دی۔ میں نے سوچا جب تک بیٹا آئے، میں دوالے لوں۔ کمپاؤنڈر نے میڈیکل اسٹور کا بتا دیا کہ الٹے ہاتھ پر گلی کے نکڑ پر ہے۔ میں دوا لینے گئی اور راستہ بھٹک گئی۔ مجھے کوئی اسٹور نہ ملا۔ آدھے گھنٹے سے بھٹک رہی ہوں۔ کلینک کی واپسی کا راستہ معلوم ہے نہ ہی کوئی میڈیکل اسٹور راستے میں ملا۔ مجھے بس تم کسی طرح کلینک پہنچا دو، میرا بیٹا وہاں پریشان ہو رہا ہو گا، مگر پہلے ذرا سا ٹھنڈ اپلا دو۔
خالہ فرخندہ نے اس ہانپتی کانپتی بیمار بڑھیا کو ایسی ابتر حالت میں دیکھا تو کہنے لگیں۔ ”اماں! پہلے اندر آگر پانی پی لو، پھر باقی باتیں ہوں گی۔ وہ اس بیمار عورت کو سہارا دے کر اندر لے آئیں اور گلو کو ز ملا کر پانی دیا۔ وہ کئی گلاس غٹاغٹ پی گئی، پھر اس پر غنودگی کسی طاری ہونے لگی۔ فرخندہ خالہ ڈر گئیں کہ اگر خدانخواستہ یہ بڑھیا مر گئی یا بے ہوش ہو گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے، مگر اس کی ابتر حالت دیکھ کر انہیں بے حد ترس بھی آرہا تھا۔ اس کے ہاتھ پاؤں سہلانے لگیں۔ اتنے میں ان کی پھپھو بھی چائے کا نہیں پی سکتی۔ کپ پکڑے اندر آگئیں اور سوالیہ نگاہوں سے خالہ فرخندہ کو دیکھنے لگیں۔ فرخندہ خالہ نے انہیں بڑھیا کی بپتاسنادی۔ وہ بھی خداترس تھیں۔ کہنے لگیں: پہلے اس کے بیٹے کا پتا کرو وہ آجائے تو اسے اسپتال لے چلیں گے ایسا نہ ہو کہ اسے کچھ ہو نہ جائے۔ فرخندہ خالہ نے بڑھیا کو ہلکا سا جھنجھوڑا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اس سے پوچھا۔ ”اماں تمہارے بیٹے کے پاس موبائل فون ہے ؟ بڑھیا نے اثبات میں سر ہلا دیا، پھر ہاتھ کے اشارے سے کہاکہ اسے سہارا دے کر بڑھا دیں۔ پھپھونے ہاتھ بڑھا کراسے سہارا دیا۔ بڑھیا نے اپنی اوڑھنی ادھر ادھر کی اور اس کے ایک بندھے ہوئے کونے کو اپنے کپکپاتے ہاتھوں سے کھولا جس میں ایک مڑا تڑا پرچہ اور کچھ میلے کچیلے کرنسی کے نوٹ تھے۔ اس میلے سے کاغذ پر موبائل نمبر لکھا ہوا تھا۔ خالہ نے وہ نمبر ملایا، مردانہ آواز آئی،، تو بڑھیا نے ہاتھ کا اشارہ کر کے ان کے ہاتھ سے فون لے لیا۔ کہنے لگی۔ ”بیٹا! میں راستہ بھول گئی ہوں، تم یہاں آکر مجھے لے جاؤ۔ یہ بھلے لوگ میرا خیال تو رکھ رہے ہیں، مگر مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے او لگ گئی ہے۔ دوسری طرف سے بیٹے نے کچھ پوچھا تو بڑھیا نے جواب دیا۔ گوللیاں تو ہیں، کیپسول نہیں ہیں۔ “ پھر بیٹے نے گھر کا پتا معلوم کرنا چاہا۔ بڑھیا نے فون فرخندہ خالہ کو تھما دیا اورکہنے لگی۔ بیٹا اسے گھر کا ایڈریس بتا دو۔“ خالہ نے ایڈریس لکھوا دیا، فون بند کر کے بڑھی نڈھال ہو کر لیٹ گئی۔ پھپھو اس کے لیے سوپ گرم کر کے لائیں۔ بڑھیا نے کہا کہ اس کے اندر آگ ہی بھری ہوئی ہے وہ گرم چیز نہیں پی سکتی۔
خالہ نے ان سے کہا: کہ یہ تمہیں طاقت دے گا۔ آنکھ بند کر کےپی لو۔
وہ کانپتے ہاتھوں سے پیالہ پکڑ کر ہولے ہولے سوپ پینے لگی۔ چند گھونٹ ہیے تھے کہ گھر کی گھنٹی بچی۔ خالہ فرخندہ کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس کا بیٹا اتنی جلدی اماں کو لینے آگیا تھا۔ انہوں نے بلا دھڑک دروازہ کھول دیا اور سکتے میں آگئیں۔ وہاں ایک نہیں کئی مسلح نوجوان کھڑے تھے۔ جنہوں نے فرخندہ
خالہ کو ایک طرف دھکیلا اور اندر داخل ہو کر پھرتی سے اندر سے دروازہ بند کر دیا۔ خالہ کو اپنے جلو میں لیے وہ دندناتے ہوئے کمروں میں گھس گئے۔ ایک خالہ کو پستول کی نالی پر دھکیلتا ان کے کمرے میں چلا گیا، جہاں پھپھو بڑھیا کی ناز برداری میں لگی ہوئی کا نام تھیں۔ نوجوان کو دیکھ کر بڑھیا نے لڑکی کی طرح پلنگ باہر جے سے چھلانگ لگائی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ کیسی بیماری، کہاں کی نقاہت، وہ تو جوان لڑکیوں سے زیادہ پھر تیلی بڑھیا ثابت ہوئی تھی۔ نوجوان کی مدد سے اس نے کہنا چا پھپھو اور خالہ فرخندہ کے دوپٹوں سے ان کے ہاتھ ہوئے۔ پاؤں باندھے اور ہاتھ روم میں بند کر کے گھر کی نقدی، زیورات، قیمتی الیکٹرانکس کا سامان، انعامی ہوتی۔ بانڈز اور جو کچھ اچھا لگا، سب کچھ لوٹ لیا۔ گھر کی الماریوں کی چابیاں انہوں نے پہلے ہی ان سے لے لی تھیں۔ اس لیے انہیں اس گھر کو لوٹنے میں آدھ گھنٹے سے بھی کم وقت لگا تھا۔ انہوں نے جس مہارت اور تیزی سے گھر کا صفایا کیا تھا، اس سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ چور نہیں ایک ماہر ڈاکو تھے۔ اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر اس کی پھرتی چستی بقول خالہ دعا میں بس دیکھنے والی تھی۔
کئی گھنٹوں کے بعد خالہ کے اوسان بحال ہوئے، تو انہوں نے واویلا مچادیا۔ خالہ اور پھپھو کی چیخ و پکار پر پڑوسی مدد کے لیے آئے، مگر اس وقت تک دیر چکی تھیں۔
خالہ سخت صدمے میں آنکھوں سے گرتے چھپتے چھپا ہوئے آنسو اور روندھی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھیں ، پار کر رہاتھی آج کے دور میں کسی پر اعتبار کیا جائے ….؟
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست2017

Loading