Daily Roshni News

جیتی جاگتی زندگی۔۔۔پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا

جیتی جاگتی زندگی

پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2017

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔جیتی جاگتی زندگی)زندگی بے شمار رنگوں سے مزین ہے جو کہیں خوبصورت رنگ بکھیرے تو کہیں تلخ حقائق کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے ے کہیں شیریں ہے تو کہیں نمکین، کہیں ہنسی ہے تو کہیں آنسو۔ کہیں دھوپ ہے تو کہیں چھاؤں ، ، کہیں سمندر کے شفاف پانی ہے خواب لگتی ہے ، کبھی سراب لگتی ہے، کبھی خار دار جھاڑیوں تو کبھی شبنم کے قطرے کی مانند لگتی ہے۔ زندگی عذاب مسلسل بھی ہے۔ تو راحت جان بھی ہے، زندگی ہر ہر رنگ میں ہے ، ہر طرف ٹھاٹھیں مار رہی ہے ، کہانی کے صفحات کی طرح بکھری پڑی ہے …. کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ ”استاد تو سخت ہوتے ہیں لیکن زندگی اُستاد سے زیادہ سخت ہوتی ہے، استاد سبق دے کے امتحان لیتا ہے اور زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے۔ “ انسان زندگی کے نشیب و فراز سے بڑے بڑے سبق سیکھتا ہے۔ زندگی انسان کی تربیت کا عملی میدان ہے۔ اس میں انسان ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سیکھتا ہے، کچھ لوگ ٹھو کر کھا کر سیکھتے ہیں اور حادثے ان کے ناصح ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرے کی کھائی ہوئی ٹھوکر سے ہی سیکھ لیتا ہے۔ زندگی کے کسی موڑ پر اسے ماضی میں رونما ہونے والے واقعات بہت عجیب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ان پر دل کھول کہ ہنستا ہے یا شر مندہ دکھائی دیتا ہے۔ یوں زندگی انسان کو مختلف انداز میں اپنے رنگ دکھاتی ہے۔ اب تک زندگی آن گنت کہانیاں تخلیق کر چکی ہیں، ان میں سے کچھ ہم صفحہ قرطاس پر منتقل کر رہے ہیں۔

پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا

کچھ نہیں ہو تا

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا اور اس کے بچوں کا مستقبل روشن ہو اور وہ دنیا میں کامیاب ہوں۔ کچھ لوگ اپنے ملک میں ہی کوشش کرتے ہیں اور کچھ بیرون ملک قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ ایسی ہی آزمائشوں سے ہماری فیملی بھی دوچار رہی تھی۔ میری شادی میرے ماموں زاد شاہ رخ سے ہوئی۔ شاہ رخ نے ایم بی بی ایس کیا اور 2 میں نے بی اے کیا تھا۔

شاہ رخ کو کینیڈا جانے کا بے حد شوق تھا۔ شادی کے ایک سال کے بعد ہی ہم کینیڈا کے شہر کیلگری آگئے۔ ضروری کارروائیوں کے بعد شاہ رخ کو گورنمنٹ کے ہسپتال میں ملازمت مل گئی اور جلد ہی ہم یہاں سیٹ ہو گئے۔

کینیڈا آنے کے ایک سال بعد میری بیٹی مہوش پیدا ہوئی۔ اس کے بعد سال سال کے وقفے سے ارم، احمد اور فیصل پیدا ہوئے۔ میں بچوں کی پرورش اور گھر داری میں مصروف ہو گئی۔ شاہ رخ جاب بھی کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ ای این ٹی میں اسپیشلائزیشن بھی کر رہے تھے۔ زندگی بڑے آرام اور سکون سے گزر رہی تھی۔ یونہی کافی عرصہ گزر گیا اب وطن کی یاد بھی ستانے لگی۔ کینیڈا منتقل ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ہم چار سال بعد پاکستان گئے تھے۔ سب رشتہ دار ہم سے مل کر خوش تھے اور ہم ان سے مل کر مطمئن۔

چند سال بعد جب بڑی بیٹی مہوش نویں گریڈ میں آئی تو شاہ رخ نے فیصلہ کیا کہ ہمیں ٹورانٹو شفٹ ہو جانا چاہیے تاکہ آئندہ بچوں کی پڑھائی اچھے اداروں میں ہو سکے …. وہ سب بچوں کو اپنی طرح قابل بناناچاہتے تھے۔ ہم لوگ ٹورانٹو آ گئے اور جگہ خرید کر اپنا بہت بڑا اور کشادہ گھر بنوایا۔ گھر کی کنسٹرکشن میں پاکستانی اور مغربی اسٹائل دونوں شامل تھے۔ ہر بیڈ روم کے ساتھ ملحقہ باتھ روم بنوائے اور سب کی پسند کے کمروں کے کلر اور ڈیکوریشن کروائی۔

چاروں بچے ذہین تھے اور پڑھائی میں ان کی کار کردگی قابل اطمینان تھی۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کب وقت نے اپنے رنگ بدلے …. بیٹیاں یہ گیارہویں بارہویں گریڈ میں تھیں جب انہوں نے اپنے بوائے فرینڈ ز کا ذکر کرنا شروع کیا۔ میں نے شاہ رخ سے ذکر کیا تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔ پھر ایک دن ہم دونوں نے بیٹھ کر ان کو آرام سے سمجھایا کہ ہمارے نیں ماحول میں اس قسم کی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن دونوں نے کافی جرات اور دلیری سے ہماری ہر بات کو رد کر دیا کہنے لگیں ”ہمارا معاشرہ تو کینیڈین ہے باد جب ہم نے پاکستان جا کر رہنا ہی نہیں تو آپ وہاں کی میں بات کیوں کرتے ہیں۔ “ بہر حال یہ خطرے کی گھنٹی تھی۔ وقت نے ہمیں کیا دیا ہے اس کے حساب کرنے کا وقت تھا۔ ہم نے یہاں رہتے ہوئے عبرت کے بہت سے واقعات دیکھے اور سنے تھے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ سب ہمارے ساتھ بھی ہو۔

اب ہم وقتاً فوقتاً چاروں بچوں کو سمجھاتے رہتے تھے۔ پاکستان میں میری بہن رہتی تھی …. اس کا ایک بیٹا انجینئر تھا۔ میں نے اپنی بڑی بیٹی مہوش کے لیے بہن سے بات کی۔ وہ خوش ہو گئی …. وہ بھی اپنے بیٹے کو کینیڈا بھیجنا چاہ رہی تھی۔ شاہ رخ بھی خوش تھے کہ اپنوں ہی میں بیٹی بیاہی جائے گی۔ اب مہوش سے بات کی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ پہلے میں لڑکے سے ملوں گی تب شادی کا فیصلہ کروں گی۔ بہت سوری بچار کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ اسامہ کو یہاں بلوا لیا جائے۔ اسامہ یہاں کینیڈا آیا …. ایک ماہ ہمارے ہاں رہا۔ خوش قسمتی سے مہوش نے اسے پسند کر لیا۔ اس طرح ہم نے ان کا نکاح کر دیا اور اسامہ پاکستان واپس چلا گیا کہ اب ہم اس کو امیگریشن دلا کر مستقل طور پر بلائیں گے۔ چند ماہ میں اس کو امیگریشن مل گئی اور وہ یہاں آگیا۔ ہم نے مہوش اور اسامہ کو الگ اپارٹمنٹ لے دیا۔ ایک سال تک دونوں ہنسی خوشی اکٹھے رہے پھر نجانے کیا ہوا …. مہوش سے پوچھتی تو وہ اسامہ کی شکایتیں سناتی کہ یہ مجھ پر پابندیاں لگاتا ہے۔ مجھ سے مختلف قسم کے کھانوں کی فرمائش کرتا ہے۔ اسامہ سے بات کرتی تو وہ کہتا کہ میرے ساتھ گستاخی کرتی ہے میری کوئی بات نہیں مانتی۔ میاں بیوی میں اختلافات شروع ہو جائیں تو پھر بات نہیں بنتی …. وہی ہوا دونوں میں سے کوئی بھی قربانی اور ایثار کے لیے راضی نہ تھا اور ایک دن مہوش نے فیصلہ سنادیا کہ وہ اسامہ سے الگ ہو رہی ہے۔ ہم نے اسے سمجھانے کی لاکھ کوشش کی مگر اس کی دلیلوں کے سامنے ہماری ایک نہ چلی۔ مہوش ایک سال تک ہمارے ساتھ رہی اس کو اچھی جاب بھی مل گئی تھی۔ اس کے بعد ایک دن ڈائٹنگ ٹیبل پر رات کا کھانا کھاتے ہوئے اس نے ہمیں اطلاع دی کہ وہ اپنے کسی کو لیگ کے ساتھ اگلے ہفتے شادی کر رہی ہے …. نادیہ خاموش طبع اور سمجھدار لڑکی ہے۔ اس کے لیے یہاں ایک دو پاکستانی کینیڈین خاندان کے لڑکوں سے بات چلانے کی کوشش کی لیکن وہ لوگ اپنے بیٹوں کی شادیاں پاکستانی لڑکیوں سے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ لڑکیاں یہاں آکر اچھی بیویاں اور اچھی مائیں ثابت ہوتی ہیں۔ پاکستانی لڑکوں کا مجھے خود اتنا تلخ تجربہ ہوا کہ ہم نادیہ کی شادی مہوش کی طرح پاکستان میں اگر ہم اس کی شادی میں آنا چاہیں تو آ سکتے ہیں۔ لڑکا کینیڈین ہے۔ لڑکے کے مذہب کا پوچھا تو کہنے لگی کہ I don’t care for it۔ ہم نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ کوئی بات سننے کے موڈ میں نہ تھی۔

کسی لڑکے سے نہیں کرنا چاہتے کہ پاکستانی مردوں کو یہاں کی لڑکیوں کی آزادی نہضم نہیں ہوتی۔ بڑے بیٹے احمد نے اکاؤنٹنگ میں ڈپلومہ کیا تھا وہ بینک میں کام کرتا تھا۔ وہاں اسے کوئی گوری لڑکی پسند آگئی ہے۔ اس نے اس کے ساتھ شادی رچالی اور اپنا

شروع ہو جائیں تو پھر بات نہیں بنتی …. وہی ہوا دونوں میں سے کوئی بھی قربانی اور ایثار کے لیے راضی نہ تھا اور ایک دن مہوش نے فیصلہ سنادیا کہ وہ اسامہ سے الگ ہو رہی ہے۔ ہم نے اسے سمجھانے کی لاکھ کوشش کی مگر اس کی دلیلوں کے سامنے ہماری ایک نہ چلی۔ مہوش ایک سال تک ہمارے ساتھ رہی اس کو اچھی جاب بھی مل گئی تھی۔ اس کے بعد ایک دن ڈائٹنگ ٹیبل پر رات کا کھانا کھاتے ہوئے اس نے ہمیں اطلاع دی کہ وہ اپنے کسی کو لیگ کے ساتھ اگلے ہفتے شادی کر رہی ہے …. نادیہ خاموش طبع اور سمجھدار لڑکی ہے۔ اس کے لیے یہاں ایک دو پاکستانی کینیڈین خاندان کے لڑکوں سے بات چلانے کی کوشش کی لیکن وہ لوگ اپنے بیٹوں کی شادیاں پاکستانی لڑکیوں سے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ لڑکیاں یہاں آکر اچھی بیویاں اور اچھی مائیں ثابت ہوتی ہیں۔ پاکستانی لڑکوں کا مجھے خود اتنا تلخ تجربہ ہوا کہ ہم نادیہ کی شادی مہوش کی طرح پاکستان میں اگر ہم اس کی شادی میں آنا چاہیں تو آ سکتے ہیں۔ لڑکا کینیڈین ہے۔ لڑکے کے مذہب کا پوچھا تو کہنے لگی کہ I don’t care for it۔ ہم نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ کوئی بات سننے کے موڈ میں نہ تھی۔

کسی لڑکے سے نہیں کرنا چاہتے کہ پاکستانی مردوں کو یہاں کی لڑکیوں کی آزادی نہضم نہیں ہوتی۔ بڑے بیٹے احمد نے اکاؤنٹنگ میں ڈپلومہ کیا تھا وہ بینک میں کام کرتا تھا۔ وہاں اسے کوئی گوری لڑکی پسند آگئی ہے۔ اس نے اس کے ساتھ شادی رچالی اور اپناالگ گھر بسا لیا۔ اس کے دو بچے ہیں کبھی کبھار ملنے آجاتا ہے۔

البتہ فیصل کی شادی شاہ رخ نے اپنے بھائی کی بیٹی کے ساتھ کی ہے۔ اس نے لاہور کالج سے بی اے کیا ہے۔ بہت پیاری اور تمیز والی بچی ہے۔ فیصل کو بھی اس نے پیار محبت سے اسلامی طور طریقوں کی قدر و قیمت سمجھا دی ہے۔ میری اور شاہ رخ کی بھی عزت کرتی ہے۔ اس کو دیکھ کر دل سے دعائیں نکلتی ہیں اور کبھی کبھی تو اپنی بے بسی اور بے چارگی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ میں دو سال پہلے پاکستان گئی تھی۔ اپنے بہن بھائیوں کو دیکھا وہ سب بھی اب بہو بیٹیوں والے ہیں۔ سب کے بچے بہت تعلیم یافتہ اور سمجھدار ہیں۔ بزرگوں کا ادب کرتے ہیں ان کی بات کو اہمیت دیتے ہیں کوئی یہ نہیں کہتا It is not your business۔ وہاں میرے خاندان کے کئی لڑکے مجھ سے ملتے ہیں اور اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ آنٹی ہم بھی کینیڈا جانا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے طور پر ان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بیٹا انسان وہاں پاتا کم ہے اور کھوتا زیادہ ہے لیکن کسی کو میری بات سمجھ نہیں آتی۔ میرا یہ پیغام ہے کہ انسان کے لیے اس کی اولاد سب سے قیمتی دولت ہے۔ یہاں مغربی ممالک میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں ان کو اتنا متضاد ماحول ملتا ہے کہ وہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر شدید دباؤ میں مبتلا ہو جاتے ہیں گھر میں ہم اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم دیتے ہیں اور غیر ارادی طور پر اپنی معاشرت میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2017

Loading