حرام رشتہ دماغ کو توڑتا ہے۔
تحریر۔۔۔ بلال شوکت آزاد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ حرام رشتہ دماغ کو توڑتا ہے۔۔۔ تحریر۔۔۔ بلال شوکت آزاد)شہوت کے ٹریگرز، حلال و حرام تصورات کی کیمسٹری اور توبہ کی نیوروپلاسٹیٹی: اعتراضات کے آئینے میں حقیقت کا عکس!
علم ایک بہتا ہوا دریا ہے اور سوالات وہ پتھر ہیں جن سے ٹکرا کر اس کا شور اور روانی بڑھ جاتی ہے۔ میری گزشتہ تحاریر پر کچھ دوستوں نے انتہائی جاندار اعتراضات اٹھائے۔
کچھ نے کہا کہ ہر جگہ “کوانٹم فزکس” کو گھسیٹنا درست نہیں، کچھ نے کہا کہ شریف مردوں پر خوشبو اثر نہیں کرتی، اور کچھ نے پوچھا کہ اگر گناہ دماغ کو توڑتا ہے تو توبہ اسے جوڑتی کیسے ہے؟
آج ہم جذبات کو ایک طرف رکھ کر، خالصتاً “ہارڈ سائنس” (Hard Science) کی روشنی میں ان گرہوں کو کھولیں گے۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ بعض اوقات جوشِ تحریر میں “کوانٹم” (شاید میری اس فیلڈ سے اوبسیشن کی وجہ سے) کی اصطلاح کا استعمال وسیع معنوں میں ہو جاتا ہے، اس لیے آج ہم اپنی بحث کو “نیورو بائیولوجی”، “اینڈوکرائنولوجی” اور “نفسیات” کے ٹھوس اصولوں تک محدود رکھیں گے تاکہ کسی ابہام کی گنجائش نہ رہے۔
خیر, ایک بہت عام اور بظاہر منطقی اعتراض سامنے آیا کہ
“شریف مردوں اور باکردار عورتوں پر لباس یا خوشبو اثر نہیں کرتی، اور ریپ تو بچیوں اور لاشوں کا بھی ہوتا ہے جہاں کوئی ٹریگر نہیں ہوتا۔”
یہ اعتراض “حیاتیاتی حقائق” (Biological Facts) اور “نفسیاتی امراض” (Psychological Pathologies) کو خلط ملط کرنے کا نتیجہ ہے۔
نارمل بمقابلہ ایبنارمل:
لاشوں یا شیر خوار بچیوں کا ریپ کرنے والے لوگ “Normal Biological Specimen” نہیں ہوتے؛ سائنس انہیں “Paraphilic Disorders” (جیسے Necrophilia یا Pedophilia) کا مریض مانتی ہے۔
قانون اور مذہب “عام انسان” (General Human) کے لیے اترتے ہیں، نفسیاتی مریضوں کے لیے نہیں۔
شریف آدمی کا لمبک سسٹم:
کیا ایک “شریف اور باکردار” مرد کے پاس Testosterone نہیں ہوتا؟
کیا اس کے پاس Limbic System نہیں ہوتا؟
سائنس کہتی ہے کہ جب مرد کی ناک (Olfactory System) میں کسی عورت کے “فیرومونز” (Pheromones) یا تیز خوشبو پہنچتی ہے، تو اس کا دماغ Hypothalamus کو سگنل بھیجتا ہے جو غیر ارادی طور پر (Involuntarily) جنسی ہارمونز کو متحرک کرتا ہے۔
(Reference: Savic I, et al. (2001). Brain response to putative pheromones in homosexual men. PNAS – This study proves olfactory triggers bypass conscious control)
کردار کی جنگ:
کردار یہ نہیں ہے کہ آپ کو “اثر” نہ ہو (یہ نامردی ہے)؛ کردار یہ ہے کہ اثر ہونے کے باوجود آپ اپنے Prefrontal Cortex (عقل) کو استعمال کر کے اپنی نگاہ اور قدم روک لیں۔
اسلام نے عورت کو پردے اور خوشبو سے اجتناب کا حکم اس لیے دیا تاکہ مرد کے “حیاتیاتی امتحان” کو مشکل نہ بنایا جائے، اور مرد کو نظر جھکانے کا حکم اس لیے دیا تاکہ وہ اس “ٹریگر” کو “ایکشن” میں نہ بدلنے دے۔
کچھ دوستوں نے “کوانٹم اینٹینگلمنٹ” کے استعمال پر بجا تنقید کی۔ آئیے اسے زیادہ مستند سائنسی اصطلاح سے سمجھتے ہیں۔
ہم اسے “بائیو الیکٹرومیگنیٹزم” (Bio-electromagnetism) کہہ سکتے ہیں۔
انسانی دل اور دماغ مسلسل برقی لہریں (Electromagnetic Waves) خارج کرتے ہیں۔ HeartMath Institute کی تحقیق کے مطابق دل کا برقی میدان جسم سے کئی فٹ باہر تک محسوس کیا جا سکتا ہے۔
جب آپ کسی شخص کے بارے میں شدت سے سوچتے ہیں (چاہے وہ شہوت ہو یا محبت)، تو آپ اپنے دماغی سگنلز کی “فریکوئنسی” تبدیل کر رہے ہوتے ہیں۔
کیا یہ دوسرے تک پہنچتی ہے؟
سائنس ابھی “ٹیلی پیتھی” کو مکمل ثابت نہیں کر سکی، لیکن “Mirror Neurons” کا نظام بتاتا ہے کہ انسان لاشعوری طور پر دوسرے کی “نیت” اور “کیفیت” کو بھانپ لیتا ہے۔
(Reference: Rizzolatti G, Craighero L. (2004). The mirror-neuron system. Annual Review of Neuroscience)
لہٰذا، جب آپ کسی نامحرم کا تصور کر کے مشت زنی کرتے ہیں، تو آپ کوانٹم لیول پر نہ سہی، لیکن “نفسیاتی سطح” پر ایک “خیانت” کے مرتکب ہو رہے ہیں، اور یہ عمل آپ کے اپنے دماغ کو یہ سکھا رہا ہے کہ “انسانوں کو اشیاء (Objects) کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔” یہ دوسرے کا نقصان ہو نہ ہو، آپ کی اپنی “انسانیت” کا قتل ضرور ہے۔ البتہ جب تک “کوانٹم فزکس” کی تھیوریز کوئی قانون نہیں بن جاتی تب تک ہم بھی مفروضوں پر ہی بات کرلیتے ہیں۔
ایک بہت ہی باریک سوال پوچھا گیا کہ
“اگر جائز رشتے (بیوی/شوہر) کو یاد کر کے انسان متحرک ہو، تو کیا تب بھی نقصان ہوگا؟”
یہاں “نیورو کیمسٹری” کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔
حلال تصور (Spousal Fantasy):
جب آپ اپنی بیوی یا شوہر (جو ایک جائز اور محفوظ رشتہ ہے) کو یاد کرتے ہیں، تو دماغ میں Dopamine کے ساتھ ساتھ Oxytocin (بانڈنگ ہارمون) اور Vasopressin خارج ہوتا ہے۔ یہ کیمیکلز “سکون”، “محبت” اور “تعلق کی مضبوطی” پیدا کرتے ہیں۔ یہ تعمیری (Constructive) عمل ہے۔ لیکن ان تصورات اور خیالات کو مشت زنی کے لیے ٹریگر بنانا بظاہر گناہ نہیں لیکن درحقیقت غلط اور کسی حد تک نفسیاتی و جسمانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔
حرام تصور (Illicit Fantasy):
جب کہ آپ کسی اجنبی یا نامحرم کا تصور کرتے ہیں، تو دماغ صرف Dopamine (ہوس) اور Adrenaline (ہیجان) خارج کرتا ہے، لیکن آکسیٹوسن (سکون) غائب ہوتا ہے۔ یہ عمل “بے چینی”، “Frustration” اور “مزید کی ہوس” پیدا کرتا ہے۔
لہٰذا، مسئلہ “خیال” کا نہیں، مسئلہ اس “تعلق کی نوعیت” کا ہے جس کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ حلال سوچ “بانڈنگ” بناتی ہے، حرام سوچ “ایڈکشن” (لت) بناتی ہے۔
سب سے اہم سوال جو پوچھا گیا کہ:
“دماغ کو واپس نیوٹرل پر کیسے لائیں؟ کیا توبہ سائنسی عمل ہے؟”
جی ہاں!
اسے “Self-Directed Neuroplasticity” کہتے ہیں۔
جب انسان گناہ کرتا ہے، تو اس کے دماغ میں ایک “غلط راستہ” (Neural Pathway) پکا ہو جاتا ہے۔ توبہ (Repentance) اس راستے کو توڑنے کا نام ہے۔
ندامت کے آنسو:
جب انسان شدتِ غم اور ندامت سے روتا ہے، تو آنسوؤں کے ذریعے جسم سے ACTH (Adrenocorticotropic Hormone) اور دیگر ٹاکسنز خارج ہوتے ہیں۔ یہ ایک Biological Detox ہے۔
عزم (Willpower): جب آپ توبہ کر کے گناہ نہ کرنے کا “عزم” کرتے ہیں، تو آپ اپنے Prefrontal Cortex (جو فیصلوں کا مرکز ہے) کو دوبارہ چارج کرتے ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ “مائنڈ فلنس” اور “مراقبہ” (جو توبہ کی ایک شکل ہے) دماغ کے Grey Matter کو دوبارہ بڑھا سکتا ہے۔
(Reference: Hölzel BK, et al. (2011). Mindfulness practice leads to increases in regional brain gray matter density. Psychiatry Research)
تو جنابو!
توبہ محض “سوری” کہنا نہیں ہے، یہ دماغ کی Rewiring ہے جو آپ کے جینز پر لگے ہوئے برے “ٹیگز” (Tags) کو ہٹانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ایک قاری نے درست فرمایا کہ
“ہارمونز کے سیلاب میں صرف منطق کام نہیں آتی، نکاح ضروری ہے۔”
یہ بات 100 فیصد سائنسی ہے۔ جوانی میں Testosterone اپنی انتہا پر ہوتا ہے۔ اس حیاتیاتی دباؤ (Biological Pressure) کو محض “روکنا” (Suppression) ممکن نہیں، اسے “راستہ دینا” (Channeling) ضروری ہے۔
اگر نکاح کا راستہ مشکل ہوگا، تو یہ دباؤ “زنا” یا “مشت زنی” کی صورت میں پھٹے گا۔ اسلام نے اسی لیے نکاح کو “آسان” اور زنا کو “مشکل” بنانے کا حکم دیا تاکہ سوسائٹی کا “Homeostasis” (حیاتیاتی توازن) برقرار رہے۔
لبرل ازم نے نکاح کو مشکل (کیریئر، سیٹلمنٹ) اور زنا کو آسان بنا کر نوجوانوں کو “نیورولوجیکل مریض” بنا دیا ہے۔
آخر میں، اس اعتراض کا جواب کہ
“سائنس بدلتی رہتی ہے، مذہب کو اس کے سہارے نہ چھوڑو۔”
میرے بھائیو!
ہم مذہب کو سائنس سے “ثابت” (Validate) نہیں کرتے، ہم سائنس کے ذریعے مذہب کی “حکمت” (Wisdom) کو سمجھتے ہیں۔
اللہ نے قرآن میں بار بار فرمایا:
“اَفَلَا تُبْصِرُونَ” (کیا تم دیکھتے نہیں؟)،
“اَفَلَا تَعْقِلُونَ” (کیا تم عقل نہیں رکھتے؟)۔
سائنس کیا ہے؟
یہ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات (Work of God) کا مطالعہ ہے۔
اور مذہب کیا ہے؟
یہ اللہ کا کلام (Word of God) ہے۔
“خدا کا کام” اور “خدا کا کلام” آپس میں نہیں ٹکرا سکتے۔
اگر آج سائنس کہتی ہے کہ زنا سے جینز خراب ہوتے ہیں، اور کل (فرض کریں) کہتی ہے کہ نہیں ہوتے، تو ہم قرآن کو نہیں چھوڑیں گے، لیکن فی الحال، جب سائنس قرآن کے حق میں گواہی دے رہی ہے، تو اسے استعمال کرنا “عصرِ حاضر کا جہاد” ہے تاکہ ان لوگوں کو دلیل دی جا سکے جو “خدا” کو نہیں مانتے مگر “لیبارٹری” کو مانتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ:
یہ جنگ الفاظ کی نہیں، حقائق کی ہے۔
شریف مرد روبوٹ نہیں، انسان ہیں، ان کے بائیولوجیکل سسٹم کی حفاظت کے لیے پردہ اور نظر کی حفاظت ضروری ہے۔
مشت زنی اور فحش بینی آپ کے ہارمونز اور دماغی ساخت کو تباہ کرتی ہے۔
حلال رشتہ دماغ کو جوڑتا ہے، حرام رشتہ دماغ کو توڑتا ہے۔
اور توبہ وہ واحد “نیورولوجیکل سرجری” ہے جو آپ کے دماغ اور جینز کو دوبارہ اپنی اصل حالت پر لا سکتی ہے۔
#سنجیدہ_بات
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد
![]()

