Daily Roshni News

حضرت ابو البرکات سید حسن بادشاہ قادریؒ۔۔۔قسط نمبر1

حضرت ابو البرکات سید حسن بادشاہ قادریؒ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ حضرت ابو البرکات سید حسن بادشاہ قادریؒ)سلسلہ قادریہ کے معروف بزرگ حضرت ابو البرکات سید حسن بادشاہ قادری کا شمار بر صغیر پاک و ہند ، خصوصاً کشمیر و صوبہ سرحد کے معروف اولیائے کرام میں ہوتا ہے۔ آپ کا کا اصل نام سید حسن ہے مگر مختلف خطوں میں آپ مختلف ناموں سے مشہور ہیں۔ مثلاً بر صغیر ہند و پاک میں آپ کو سید حسن، علاقہ ہائے کشمیر و پونچھ میں شاہ ابو الحسن اور صوبہ سرحد میں سید حسن بادشاہ سے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اہل پشاور آپ کو از راہ خلوص و عقیدت ” میراں سرکار“ کے نام سے یاد کرتے ہیں….. سید حسن ماہ جمادی آلاخر 1032ھ میں مکلی، ٹھٹہ کے مقام پر پیدا ہوئے ، جو کراچی سے 25 میل اور جنگ شاہی ریلوے اسٹیشن سے گیارہ میل سے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس دور میں اس شہر کو سندھ کی ملکی اور سیاسی تاریخ میں کافی اہمیت حاصل تھی۔ حسن کے والد ماجد مکلی، ٹھٹھہ (سندھ) کے معروف صوفی بزرگ حضرت سید عبد اللہ تھے۔ جنہیں سندھ میں صحابی بابا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ حضرت سید عبد اللہ شاہ صحابی کا مزار آج بھی سندھ کے مشہور و معروف

شہر ٹھٹھہ کے قبرستان مکلی میں ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب بواسطہ حضرت غوث الاعظم عبد القادرجیلانی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جاملتا ہے۔ سید عبد اللہ شاہ صحابی اپنے آبائی وطن بغداد شریف سے بغرض تبلیغ و سیاحت نکل پڑے اور ٹھٹہ (سندھ) آپہنچے۔ آپ نے اس شہر کو قیام کے لیے منتخب کیا۔ آپ نے ایک سادات گھرانے میں شادی کی، خداوند بزرگ و برتر نے آپ کو دو فرزند عطا فرمائے۔ آپ نے ایک کا نام سید حسن اور دوسرے کا نام سید محمد فاضل رکھا۔

 ٹھٹھہ میں اشاعت دین ، علم اور تصوف کی خدمت کا جو فریضہ سید عبد اللہ شاہ نے اپنے ذمہ لیا اس کی مثال ڈھونڈھے سے نہ ملتی، آپ نے اپنی قوت ایمانی سے لاکھوں ترستی ہوئی روحوں کو ایمان

 کی دولت سے مالا مال کیا …. سید حسن کی تعلیم و تربیت اپنے والد محترم کے زیر سایہ ہوئی، چونکہ آپ کا گھر علم و فضل اور فقر و طریقت کا گہوارہ تھا۔ اس لئے آپ نے چھوٹی عمر میں ہی ظاہری و باطنی کئی علوم کی تکمیل کر لی۔ ان سے فراغت حاصل کرنے کے بعد کمال استقامت سے منازل سلوک و تصوف طے کرنے میں مصروف ہو گئے۔ آپ نے اپنے والد سے خوب تربیت حاصل کی، اور حصولِ معرفت کی کئی منازل طے کیں۔ آپ کے والد گرامی نے سلسلہ عالیہ قادریہ کو بلادِ سندھ میں خوب فروغ دیا تھا۔ ہزاروں لوگ آپ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے تھے۔

 بچپن ہی سے سید حسن کی طبیعت پر محبت الہی غالب تھی۔ آپ اپنے والد کی صحبت بعض دیگر بزرگانِ کرام کی صحبت ، ریاضات، مجاہدات ، باطنی جد و جہد اور مکمل خلوت میں مصروف رہتے تھے۔ جناب ابو البرکات حضرت سید حسن نے خرقہ خلافت اپنے والد گرامی جناب سید عبد اللہ صحابی سے حاصل کیا، والد محترم کے انتقال کے بعد آپ کی طبعیت گوشہ نشینی کی طرف مائل ہو گئی۔ ٹھٹھہ کی خانقاہ اپنے والد کے خاص مریدین کے حوالے کر کے آپ ریاضات اور مجاہدات کے لئے دریائے شور کے علاقے میں تشریف لے گئے اور سات سال گوشہ نشین رہے۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے ہندوستان اور ممالک عرب کی سیر وسیاحت کی ارادہ کیا۔ سید حسن صاحب جب سفر کے لئے نکلے تو آپ کے چھوٹے بھائی سید شاہ محمد فاضل صاحب 2 گیلانی بھی آپ کے ہمراہ تھے۔

 دورانِ سفر آپ ہندوستان کے ایک گاؤں پہنچے ، آپ نے اس گاؤں میں قیام کیا اور ایک کنویں کے قریب عبادت و ریاضت میں مصروف ہو گئے ، آپ کی تبلیغ اور صحبت سے لوگ آپ کے گرویدہ ہونے لگے ، یہ خبر راجہ تک پہنچی تو اس نے چند راہبوں کو آپ کی جانب بھیجا، اس گروہ نے پہلے تو بحث مباحثہ شروع کیا، بعد میں اپنے جادو کی طاقت سے آپ کو زیر کرنے کی کوشش کی مگر آپ پر ان کے جادو کا کوئی اثر نہ ہوا۔ روایات میں درج ہے کہ اس راہب نے ایک کمان کے ذریعہ شعلہ کے تیر پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور اس سے آپ پر حملہ کیا، آپ نے اپنے ہاتھ سے اس جلتے ہوئے تیر روک دیا۔ راہب حیران تھا کہ اس کا یہ منتر کسی بھی چیز کو جلا کر بھسم کر سکتا تھا۔ آپ نے اس کو کہا کہ اگر تمہارے پاس اس سے بھی زیادہ کوئی شیطانی طاقت ہے تو لے آؤ۔ اُس نے جواب میں کہا کہ اب تمہاری باری ہے، تم دکھاؤ تمہارا علم کتنا بڑا ہے۔ سید حسن نے جیب میں ہاتھ ڈالا ، دیکھا کہ اس ایک سپاری کا دانہ تھا، آپ اکثر سپاری کھایا کرتے اک تھے ، آپ نے اس کو نکالا، اور قادر ذوالجلال کا نام کی لے کر راہب کی طرف پھینکا۔ وہ سپاری اس راہب کے سر میں پیوست ہو گئی اور وہ وہیں زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کے ہمراہیوں نے جب یہ بات دیکھی تو بہت سے بھاگ گئے ان میں سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ آپ نے اس علاقےمیں مسجد تعمیر کی۔ تقریباً 6 ماہ قیام کیا، یہاں آپ نے پانچ خلفاء مقرر کئے اور یہاں سے کوچ کر گئے۔

آپ وہاں سے شاہ جہان آباد تشریف لائے۔ اس وقت شہنشاہ جہانگیر کی حکومت تھی ، وہاں پر بھی ذکر الہی ، امر با المعروف اور نہیں عن المنکر کا سلسلہ شروع کر دیا، آپ کی پر خلوص اور بے لوث خدمت کی خوب شہرت ہوئی، مرد اور عورتوں کا اتنا اژدھام ہوا کہ عبادت کے اوقات میں خلل پیدا ہونے لگا۔ آپ نے وہاں سے کوچ کا ارادہ کر دیا۔ مختلف علاقوں کے سفر کے بعد ایک روز خواب میں غوث الاعظم کی زیارت ہوئی اور انہوں نے آپ کو حکم دیا کہ ، آپ پشاور کی طرف جائیں اور وہاں مستقل سکونت اختیار کریں۔ غوث اعظم کے اس ارشاد کے مطابق آپ پشاور روانہ ہوئے۔ آپ نے سفر کے دوران بہت سے اولیاء کرام فقراء اور مشائخ سے ملاقاتیں کیں اور خوب فیض اُٹھایا، آپ نے لاہور میں حضرت میاں میر سے ملاقات کی اور کافی دیر ان کے ہاں ٹھہرے۔ لاہور میں اشاعت و تبلیغ میں خوب سرگرمی دکھائی۔ یہاں سے چل کر آپ گجرات پہنچے اور جناب شاہ دولا گجراتی سے ملاقات کی۔ آپ چند دن وہاں مہمان رہے اور وہاں سے رخصت ہو کر پو ٹھو ہارپہنچے اور جناب شاہ لطیف المعروف بری امام سےملے۔ یہاں سے آپ نے پشاور کی طرف رُخ کیااور 1082ھ میں پشاور پہنچے۔

پشاور شہر سے ایک میل کے فاصلہ پر ایک قصبہ جو سلطان پور (حلقہ بگرام) کے نام سے موسوم تھا قیام فرمایا، کہا جاتا ہے کہ آپ کو خواب میں غوث الاعظم نے اپنے عصاء سے بتایا کہ اس جگہ مسجد ، اس جگہ مکان، اور یہاں تمہاری قبر ہو گی۔ پشاور میں آپ کی آمد کی اطلاع ہوئی تو وہاں کے بڑے بڑے سردار اور ارباب بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت ہوئے۔ جس باغ میں آپ نے قیام کیا تھا اس کے مالک نے وہ باغ آپ کو نذر کر دیا ، وہی لوگ تعمیر مکان اور تعمیر مسجد میں مصروف ہو گئے۔ سلسلہ ارشاد شروع ہو گیا، یہاں خانقاہ کی تعمیر ہوئی اور لنگر جاری ہو گیا، جو بھی آتا اپنی قسمت اور قابلیت کے مطابق فیض پاتا۔ پشاور شہر کے قریب ایک گاؤں کوٹلہ محسن خان تھا۔ اس کے ایک سردار کے ہاں آپ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان زوجہ کے بطن سے اللہ تعالی نے آپ کو ایک فرزند عطا فرمایا، جن کا نام سید زین العابدین رکھا۔ اس شادی کے کچھ عرصہ بعد آپ کو موضع کنٹر کے ایک سادات۔۔۔جاری ہے

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی2019

Loading