Daily Roshni News

حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ۔۔۔تعلیمات اور کرامات

بابا تاج الدین اولیا ءؒ

قسط نمبر(2)

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ بابا تاج الدین اولیا ءؒ)گواہی دی۔ تاج الدین سے پوچھا گیا کہ تم ڈیوٹی چھوڑ کر عبادت کر رہے تھے یا بیک وقت ڈیوٹی بھی ادا کر رہے تھے اور عبادت بھی۔ اگر آخری بات سچ ہے تو صاف صاف بتاؤ تم ایک وقت میں دو کام کس طرح انجام دیتے ہو ؟

 یہ سننا تھا کہ تاج الدین کو جلال آگیا۔ انہوں نے پیٹی بندوق، وردی سمیت تمام سرکاری سامان لا کر افسر کی میز پر رکھ دیا اور فرمایا:

 لوجی حضت! اب ہم دو دو نوکریاں نہیں کرتے جی حضت ” یہ کہہ کر تاج الدین فورا کمرے سے نکل گئے۔ ناگ پور اور جبل پور شہروں کو ملانے والی شاہراہ کامٹی اور رام ٹیک سے ہو کر گزرتی ہے۔ یہاں سے بہت بڑا پہاڑی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے گھنے جنگلوں میں قدم قدم پر شیر، خوں خوار کئی درندے گھومتے ہیں۔ دنیا کے زہر یلے ترین سانپ بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔

 ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بابا تاج الدین نے زیادہ تر وقت ناگپور سے متصل واکی کے گھنے جنگلوں میں گزارا، وہاں تاج الدین بابا نے کئی برس تک بلا خوف و خطر ریاضت کی۔ کبھی کبھار ریاضت کے بعد آپ ستپڑا پہاڑ کی بلندیوں اور گھنے جنگلوں سے اتر کر بستیوں میں آجاتے۔ جذب و کیف کا یہ عالم تھا کہ انہیں کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کا احساس بھی نہ رہتا۔

ادھر تاج الدین کے استعفیٰ کی خبر ان کے گھر پہنچی تو نانی نے پھر ایک مرتبہ ساگر آکر دیکھا تو تاج الدین گلی کوچوں کی خاک چھانتے نظر آئے۔

نانی کو لگا کہ وہ پاگل ہو گئے ہیں۔ وہ انہیں اپنے ساتھ کامٹی لے آئیں۔ کامٹی میں ڈاکٹروں، حکیموں کو دکھایا گیا لیکن کوئی بھی آپ کی حالت سمجھ نہ سکا۔ جب بستی میں آپ کا دل نہیں لگتا تو جب بھی موقع ملتا تو آپ جنگلات میں نکل جاتے اور پھر کبھی کبھی واپس کا مٹی پہنچ جاتے۔

 چار سال شدید جذب و استغراق کی کیفیت میں رہے، عام لوگوں نے انہیں پاگل سمجھ لیا، بستی کے آوارہ لڑکے انہیں چھیڑتے اور تنگ کرتے کوئی آوازیں کستا تو کوئی پتھر مارتا۔

کامٹی میں آپ سے کئی کرامات بھی رونما ہوئیں، کچھ عرصے میں آپ کی کرامات کا چہ چاہو اتو لوگ دور دور سے آپ کے پاس اپنا درد لے کر آنے لگے۔ بابا تاج الدین کی دعاؤں سے لوگوں کے کام ہونے لگے تو سائلین اور عقیدت مندوں کا ہجوم رہنے لگا۔ ایسے میں کچھ لوگوں نے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی سوچی تو بابا صاحب نے اعلان کر دیا کہ ” اب ہم پاگل جھونپڑی جائیں “۔ حالات کچھ ایسے بنے کہ 26 اگست، 1892 کو کا مٹھی کے کینٹونمنٹ اور ضلع مجسٹریٹ نے انہیں پاگل خانے بھیج دیا۔ پاگل خانہ کا سپر نٹنڈنٹ ڈاکٹر ماروتی راؤ تھا۔ اس کی پانچ لڑکیاں تھیں، لڑکا کوئی نہیں تھا، اولاد نرینہ کی اسے بہت تمنا تھی۔ ڈاکٹر کی بیوی نے ایک دن اپنے خاوند سے کہا کہ مجھے بابا صاحب کے پاس لے چلو۔ اس کا خاوند چونکہ مذہبا مرہٹہ برہمن تھا، اس لیے پہلے تو کچھ ہچکچایا مگر ایک دن اُس کی بیوی اپنی پانچوں لڑکیوں کے ساتھ بابا صاحب کی خدمت میں پہنچ گئی اور عرض کیا کہ:

بابا صاحب “میرے کوئی لڑکا نہیں ہے ۔ میرے لیے دعا کریں۔ بابا صاحب نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ ڈاکٹروں کی دوائیاں تو بہت کھاتے جی ، پن لڑکا نہیں ہو تا۔ “

یہ سُن کر وہ بیچاری رونے لگی اور پھر عرض کیا کہ بابا صاحب ….! لوگوں کی مرادیں پوری ہو رہی ہیں، میرے لیے بھی مہربانی فرمائی جائے۔ آپ نے یہ سُن کر پوچھا: لڑکیاں معنی جی…؟”

 ڈاکٹر ماروتی راؤ کی بیوی نے لڑکے کو حضور بابا صاحب کے قدموں میں رکھ دیا۔ بابا صاحب نے ایک نظر دیکھا اور تبسم کے ساتھ فرمایا کہ “ابھی تو آئے اور وہاں ان سے کئی کرامات کا ظہور ہوا۔ اسی دوران ناگپور کے مرہٹہ راجہ مہاراجہ گھوراؤ جی بھونسلے پٹیل کے بیٹے و نائیک راؤ کی بیوی زچگی کے مرحلے میں نازک صورتحال سے دوچار تھیں ۔ بڑے بڑے ڈاکٹر ، وید، حکیم موجود تھے۔ مگر کسی قسم کا کوئی افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ حاملہ کے رحم میں بچہ مر چکا تھا۔ اب زچہ کی جان بچانے کےتو اس نے جواب دیا کہ لڑکیاں تو پانچ ہیں …. بابا صاحب نے فرمایا۔ ” اگر لڑکیاں پانچ ہیں تو لڑ کے بھی پانچ ہو جاتے جی … ! ، یہ خوشخبری سن کر ڈاکٹر کی بیوی واپس گھر آگئی۔ خدا کی شان کہ ایک سال بعد اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔

چار اور آتے جی! لے جانا، یہ خوش رہے گا۔“ پاگل خانے میں بند ہونے کے بعد بھی اکثر بابا تاج الدین شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومتے نظرلیے آپریشن کی ضرورت ہو گی۔ جسم میں زہر پھیل گیا تو پھر اس کے زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں۔ مہاراجہ ڈاکٹروں کو آپریشن کی اجازت نہیں دے رہا تھا ، ادھر بہو کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی۔ اسی دوران مہاراجہ کے ایک ڈرائیور نے جو بابا صاحب کا بے حد معتقد تھا۔ مہاراجہ سے کہا کہ : میں ایک مسلمان ولی کو جانتا ہوں۔ آپ ان کے پاس چلیے اور دعا کی درخواست کیجئے ۔ شاید کوئی سبب بن جائے۔“ مہاراجہ نے ڈرائیور کی بات سنتے ہی کہا کہ : ہاں چلو جلد سے جلد ہمیں ان کے پاس لے چلو“۔ اور اسی طرح ننگے پیر گاڑی میں بیٹھ گیا، راجہ صاحب کی موٹر پاگل خانے کے صدر دروازے پر جا کر ز کی تو لوگ راجا صاحب کے استقبال کو دوڑے لیکن وہ سب کو نظر انداز کرتے ہوئے تیزی سے اندر داخل ہو گئے۔ اندر پہنچتے ہی انہوں نے بابا صاحب کے قدموں میں خود کو گرا لیا۔ ان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا اور صدمے کی وجہ سے ان کی زبان گنگ تھی۔ بابا نے سر اُٹھا کر انہیں دیکھا اور بولے: ادھر کیا کرتے جی حضنت ! ادھر جانا، لڑکا پیدا ہوا ہے تو خوشیاں منانا ….!” ڈرائیور نے یہ سنتے ہی کہا کہ مہاراجہ جلد واپس چلیے۔ کام ہو گیا ہے۔ مہاراجہ جب محل میں پہنچا تو خادموں نے دروازے پر ہی مہاراجہ کو مبارک باد دی اور خوشخبری سنائی کہ آپ کی بہو کو بیٹا ہوا ہے اورزچہ و بچہ دونوں خیریت سے ہیں۔ اس واقعے کے بعد مہاراجہ کا اعتقاد بابا صاحب پر

اس قدر پختہ ہوا کہ اس نے اسی وقت چیف کمشنر ناگپور بینجمن رابرٹس کے پاس نقد زر ضمانت جمع کرائی اور بابا صاحب سے عرض کہ آپ میرے ساتھ چلیے۔ بابا صاحب نے اس کی درخواست قبول کر لی۔ 21 ستمبر، 1908ء کو ناگپور کے مہاراجہ راگھوجی راؤ بھوسلے بابا صاحب کو بڑی دھوم دھام سے ہاتھی پر سوار کرا کے شکر درہ میں اپنے شاہی محل لے آیا۔ جہاں تمام اہل خانہ نے بابا صاحب کا استقبال کیا۔ مہاراجہ نے محل کے ایک حصے میں بنی “لال کو بھی ” آپ ” کے لیے مخصوص کر دی۔ راجہ خود صبح شام بابا صاحب کے پاس حاضری دیتے تھے ۔ لال کو ٹھی میں بھی ہر وقت عام لوگوں کا ہجوم لگا رہتا۔ مہاراجہ کی جانب سے ان عقیدت مندوں کے لیے دونوں وقت چائے اور کھانے کا اہتمام ہوتا۔ آج بھی یہ محل عوام کے لیے وقف ہے اور زائرین زیارت کے لیے دور دور سے آتے ہیں۔ چیف کمشنر بینجمن رابرٹس کی بھتیجی بہت شدید بیمار تھی۔ لندن میں ہر طرح کا علاج کروایا لیکن اس کے سر میں شدید قسم کا درد ہوتا تھا۔ اسے کسی طرح بھی آرام نہ آرہا تھا۔ بابا تاج الدین کا شہرہ سن کر وہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ رگھو راؤ نے ڈرتے ڈرتے بابا صاحب سے سوال کیا۔ چیف کمشنر را برنس آئے ہیں ۔ اگر اجازت ہو تو بلا لاؤں …؟” بلالے بلالے ، بے چارہ پریشان ہے، تاج الدین کسی کو نکورد کتا جی۔“ راجہ کے ہمراہ سر بینجمن ننگے پاؤں حجرے میں داخل ہوا …. باباجی نے بڑے اطمینان سے کہا … “تو کائے کو اتنا خرچہ کیا؟ بچی کو ناحق تکلیف دیا۔ بٹیا کو مٹی سنگھاتے ، اچھے ہو جاتے۔“ کوئی نہ سمجھ سکا بابا صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ بابا صاحب خواتین کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ دورازے کی جانب سر بینجمن کی میم اور جواں سال بھتیجی رگھوجی راؤ کی بیوی کے ہمراہ کھڑی تھیں۔ بابا نے ان کو دیکھا فوراً کھڑے ہوگئے . ” آجاؤ رے… رانی لڑکی کا ہاتھ پکڑے آگے بڑھی جس کے سر پر پٹی بندھی تھی۔

بابا! اس کے سر میں در درہتا ہے۔ لندن میں کسی بھی علاج سے فائدہ نہیں ہوا ہے۔ سر بینجمن نے اسے آپ سے دم کرانے کے لیے وہاں سے بلوایا ہے. وہ ایک ہی سانس میں پوری بات کہہ گئی۔

یہ تو پگلا ہے جی بچی کو تکلیف دیا۔ تاج الدین گو بولنا تھا ….“ پھر بڑی شفقت سے لڑکی سے بولے پریشان نکو ہوتے .. بیٹی۔ مٹی سونگھ لیتے۔

اچھے ہو جاتے۔ پٹی کھول دیتے” شفقت اور مٹھاس ان کے لہجے سے پھوٹی پڑتی تھی۔ لڑکی کچھ بھی نہ سمجھی۔ وہ اردو سے نا آشنا تھی۔ وہ حیرت بھری نگاہوں سے بابا کو دیکھ رہی تھی۔

” کو نسی مٹی۔ رگھوجی نے پوچھا ….“ بینجمن رابرٹس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ” یہ لائے گا جی۔ بچی کو سونگھا دے۔ جی اچھے ہو جاتے“۔ سر بینجمن رابرٹس بابا کی بات سمجھ گیا فوراً تھوڑی سی مٹی اٹھا لایا اور بچی کو اُسے سونگھ لینے کی ہدایت کی۔ مٹی کو سونگھتے ہی بچی کو تین چار چھینکیں آئیں بس بیٹی ! بس اب اچھے ہو گئے 66 کراچی

بابا صاحب نے فرمایا ۔ رانی نے بچی کے سر کی پٹی کھولی۔ درد سر بالکل غائب ہو گیا تھا …. فرط مسرت سے لڑکی کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ یہ سب لوگ سراپا تشکر اور سپاس بنے ہوئے تھے، سر بینجمن نے احساس تشکر کے ساتھ ساتھ بابا صاحب کی خدمت میں کثیر رقم پیش کی تو آپ کی پیشانی پر بل پڑگئے مگر آپ کے الفاظ میں بڑی نرمی تھی۔ بیٹی باپ کو نذرانہ نہیں، باپ بیٹی کو دیتا ہے. یہ کہا اور تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور چند سکے لڑکی کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ اس نے خوشی خوشی تحفہ قبول کر لیا اور وہ لوگ شاداں و فرحاں

رخصت ہو گئے۔ سر بینجمن کی بابا صاحب سے یہ ملاقات مہاراشٹر کے مسلمانوں کے حق میں بہت مفید ثابت ہوئی۔ سر بینجمن نے بڑی تعداد میں وہاں اسکول اور مدر سے قائم کیے ، مسلمانوں کی درس گاہوں کے لیے زمینیں فراہم کیں، عمارتوں کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کے لیے روز گار فراہم کرتے رہے۔ جبل پور میں مسلمانوں کا اسکول آج بھی رابرٹس انجمن اسلامیہ ہائی اسکول کے نام سے موجود ہے۔ انہوں نے وہاں ہزاروں مخالفتوں کے باوجود رابرٹس کالج بھی قائم کیا … ناگپور کا انجمن اسلامیہ ہائی اسکول بھی سر بسجن اور تاج الدین بابا کی اسی

ملاقات کی یاد گار ہے۔ بابا تاج الدین ناگپوری 35 سال تک مخلوق خدا کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے اس دوران آپ سے بے شمار کرامات کا ظہور ہوا۔ 1343ھ کے اواخر بمطابق 1925ء کے بعد سے بابا تاج الدین کی طبیعت ناساز رہنے لگی۔ راجہ رگھو راؤ نے بابا صاحب کے علاج کے لیے ناگپور سے ماہر ڈاکٹر بلوائے، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔

 26 محرم الحرام بمطابق 17 اگست 1925ء بروز پیر ( چھیاسٹھ برس کی عمر میں مغرب کے وقت بابا نے ہاتھ اُٹھا کر ایک لمحے کے لیے دعا کی۔ پلنگ سے اُٹھ کر چاروں طرف دیکھا پھر سکون سے آنکھیں بند کر کے لیٹ گئے…. اسی حالت میں دار فانی سے کوچ فرمایا۔ چوبیس گھنٹے تک ہر مذہب و ملت کے لوگ آخری دیدار کے لئے آتے رہے پھر بھی ہجوم کم نہیں ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور اخبارات نے وصال کی خبر کو جلی حرفوں میں شائع کیا۔

آپ کا مزار تاج آباد (تاج باغ) امریڈ روڈ، ناگپور میں مرجع خلائق ہے۔ آپ کا عرس مبارک پاک و ہند اور دنیا میں جہاں جہاں آپ کے عقید تمند موجود ہیں انتہائی ادب و احترم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیاء قلندر بابا اولیائ رشتہ میں حضرت بابا تاج الدین کے نو اسے ہیں۔ بابا تاج الدین نے شادی نہیں کی تھی۔ آپ نے قلندر بابا اولیاء کی والدہ سعیدہ بی بی کو اپنی بیٹی بنا کر پرورش کی ، جو آپ کے چا زاد بھائی کی بیٹی تھیں۔ محمد عظیم بر خیا اسی نسبت سے بابا تاج الدین کو نانا کہا کرتے تھے۔

بشکریہ ماہنامہ  روحانی ڈائجسٹ  اگست 2019

Loading