حضرت بہلولؒ دانا نے ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادیؒ سے پوچھا۔۔۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)حضرت بہلولؒ دانا نے ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادیؒ سے پوچھا: شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟ کہنے لگے: خدا کا نام لینا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا، خدا کا شکر ادا کرنا اور اول و آخر ہاتھ دھونا۔
بہلولؒ نے کہا: لوگوں کے مرشد ہو اور کھانے کے آداب نہیں جانتے، اپنے دامن کو جھاڑا اور وہا ں سے اٹھ کر آگے چل دیئے۔ شیخ صاحب بھی پیچھے چل دیئے، مریدوں نے اصرار کیا، سرکار وہ دیوانہ ہے، لیکن شیخ صاحب پھر وہاں پہنچے، پھر سلام کیا۔ بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پھر پوچھا کون ہو؟ کہا جنید بغدادیؒ جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔
بہلولؒ نے پوچھا اچھا بولنے کے آداب تو جانتے ہوں گے؟ فرمایا: جی خدا کا شکر! متکلم مخاطب کے مطابق بولے، بے موقعہ، بے محل اور بے حساب نہ بولے، ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔ بہلولؒ نے کہا کھانا تو کھانا، آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے۔
بہلول نے پھر دامن جھاڑا اور تھوڑا سا اور آگے چل کر بیٹھ گئے۔ شیخ صاحب پھر وہاں جا پہنچے اور سلام کیا۔ بہلول نے سلام کا جواب دیا، پھر وہی سوال کیا کون ہو؟ شیخ صاحب نے کہا، جنید بغدادی جو کھانے اور بولنے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے کہا اچھا سونے کے آداب ہی بتا دیں؟
کہا نماز عشاء کے بعد، ذکر و تسبیح، سورہ اور وہ سارے آداب بتا دیئے جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں۔ بہلولؒ نے کہا: آپ یہ بھی نہیں جانتے اور اٹھ کر آگے چلنا ہی چاہتے تھے کہ شیخ صاحب نے دامن پکڑ لیا اور کہا جب میں نہیں جانتا تو بتانا آپ پر واجب ہے۔
بہلولؒ نے کہا جو آداب آپ بتا رہے ہیں وہ فرع ہیں اور اصل کچھ اور ہے، اصل یہ ہے کہ جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام، لقمہ حرام کو جتنا بھی آداب سے کھاؤ گے وہ دل میں تاریکی ہی لائے گا، نور و ہدایت نہیں۔ شیخ صاحب نے کہا: خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
بہلول نے کہا “کلام” میں اصل یہ ہے کہ جو بولو خدا کی رضا و خوشنودی کیلئے بولو، اگر کسی دنیاوی غرض کیلئے بولو گے یا بیہودہ بول بولو گے تو وہ وبال جان بن جائے گا۔
“سونے” میں اصل یہ ہے کہ دیکھو دل میں کسی مؤمن یا مسلمان کا بغض لے کر یا حسد و کینہ لے کر تو نہیں سو رہے، دنیا کی محبت، مال کی فکر میں تو نہیں سو رہے، کسی کا حق گردن پر لے کر تو نہیں سو رہے ۔۔