Daily Roshni News

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی اور ولایت: ایک اسلامی، جذباتی اور روحانی تفصیلی مقالہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی اور ولایت: ایک اسلامی، جذباتی اور روحانی تفصیلی مقالہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شخصیت اسلامی تاریخ کی ایک ایسی تابناک ستارہ ہے جو ہمیشہ سے مسلمانوں کے دلوں میں روشنی اور ہدایت کا باعث بنی ہے۔ وہ نہ صرف ایک عظیم خلیفہ تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھی، ایک مجاہد، ایک عادل حکمران اور ایک روحانی بزرگ تھے جن کی زندگی تقویٰ، عدل اور اللہ کی محبت سے بھری ہوئی ہے۔ یہ مقالہ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالے گا، ان کی ولایت (خلافت) کے دوران کے کارناموں کو بیان کرے گا، اور اسے ایک جذباتی اور روحانی انداز میں پیش کرے گا تاکہ قاری کے دل میں ان کی عظمت کا احساس جاگ اٹھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ سطریں ہمیں ان کی سیرت سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ابتدائی زندگی اور جہالت کا دور

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پیدائشی نام عمر بن الخطاب تھا۔ وہ مکہ مکرمہ میں قبیلہ بنی عدی سے تعلق رکھتے تھے، جو قریش کا ایک معزز قبیلہ تھا۔ ان کی پیدائش کا سال تقریباً 584ء کے قریب مانا جاتا ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً 13 سال چھوٹے تھے۔ ان کے والد خطاب بن نفیل ایک سخت مزاج اور طاقتور شخص تھے، جو عمر کو سخت تربیت دیتے تھے۔ بچپن میں عمر نے اونٹ چرانے کا کام کیا، جو اس دور کی معاشرتی حقیقت تھی، لیکن ان کی ذہانت اور جسمانی طاقت نے انہیں جلد ہی قریش کے نوجوانوں میں ممتاز کر دیا۔ وہ کشتی، گھڑ سواری اور شعر گوئی میں ماہر تھے۔ جہالت کے دور میں وہ قریش کے سفیر اور جج کے طور پر کام کرتے تھے، اور ان کی سختی اور فیصلہ کنی کی وجہ سے لوگ ان سے خوفزدہ رہتے تھے۔

روحانی طور پر دیکھا جائے تو یہ دور ان کی زندگی کا ایک تاریک باب تھا، جہاں وہ بت پرستی اور جہالت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ لیکن اللہ کی حکمت دیکھیے کہ وہی شخص جو اسلام کے خلاف سب سے زیادہ شدت سے کھڑا تھا، بعد میں اسلام کا سب سے بڑا حامی بنا۔ یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ وہ جسے چاہے ہدایت دے۔ جذباتی طور پر سوچیں تو عمر کی یہ ابتدائی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ کوئی بھی شخص اللہ کی رحمت سے دور نہیں، اور تبدیلی ہمیشہ ممکن ہے۔

اسلام قبول کرنے کا معجزاتی واقعہ

اسلام قبول کرنے کا واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی کا سب سے اہم موڑ ہے، جو روحانی اور جذباتی اعتبار سے بہت گہرا ہے۔ ابتدائی طور پر وہ اسلام کے سخت مخالف تھے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کر کے گھر سے نکلے، تلوار ہاتھ میں لیے۔ راستے میں انہیں معلوم ہوا کہ ان کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ غصے میں وہ ان کے گھر پہنچے اور انہیں مارنے لگے۔ اسی دوران ان کی بہن نے قرآن کی آیات تلاوت کیں، جو سورۃ طہ کی تھیں: “إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي” (بے شک میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو)۔ یہ آیات عمر کے دل پر تیر کی طرح لگیں۔ ان کی آنکھیں کھل گئیں، اور وہ رونے لگے۔ اسی لمحے انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

یہ واقعہ کتنا جذباتی ہے! ایک سخت دل شخص کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، اور وہ اللہ کی طرف پلٹ رہا ہے۔ روحانی طور پر یہ ہدایت کا معجزہ ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے اللہ! اسلام کو عمر بن الخطاب یا ابو جہل میں سے کسی ایک سے عزت دے۔” اور اللہ نے عمر کو چنا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد عمر نے کھلے عام اعلان کیا، جو مسلمانوں کے لیے بڑی خوشی کا باعث بنا۔ ان کی شمولیت سے اسلام کو طاقت ملی، اور وہ “فاروق” (حق و باطل میں فرق کرنے والا) کہلائے۔

صحابیت اور مجاہدانہ زندگی

حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھی بن گئے۔ وہ ہجرت کے دوران مدینہ گئے اور وہاں مسجد قبا کی بنیاد رکھنے میں شریک ہوئے۔ غزوات میں ان کی بہادری مشہور ہے۔ غزوۂ بدر، احد، خندق اور دیگر لڑائیوں میں انہوں نے جان کی بازی لگا دی۔ احد میں جب افواہ پھیلی کہ نبی کریم شہید ہو گئے، تو عمر نے تلوار پھینک دی اور کہا: “اب جینے کا کیا فائدہ؟” لیکن جب معلوم ہوا کہ نبی زندہ ہیں، تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ یہ جذباتی لمحات ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کی محبت نبی سے کتنی گہری تھی۔

روحانی طور پر، عمر کی زندگی تقویٰ سے بھری تھی۔ وہ راتوں کو عبادت کرتے، قرآن پڑھتے اور روتے رہتے۔ ایک بار انہوں نے فرمایا: “مجھے اپنے اعمال کا حساب دینے سے ڈر لگتا ہے۔” وہ سادگی کی مثال تھے؛ امیر ہونے کے باوجود غریبوں کی طرح رہتے۔

ولایت (خلافت) کا دور: عدل و انصاف کی مثال

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 634ء میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ ان کی خلافت کا دور اسلامی تاریخ کا سنہرا دور ہے، جو ولایت کی حقیقی روح کو ظاہر کرتا ہے۔ ولایت سے مراد یہاں خلافت ہے، جو اللہ کی طرف سے امانت ہے۔ انہوں نے اسلامی سلطنت کو وسیع کیا؛ فارس، روم اور مصر کو فتح کیا۔ بیت المقدس کی چابیاں انہیں پیش کی گئیں، لیکن انہوں نے سادگی سے داخل ہوئے، ایک غلام کے ساتھ اونٹ پر سوار۔

ان کی ولایت میں عدل کی مثالیں لازوال ہیں۔ ایک بار ایک عورت نے ان پر مقدمہ کیا، اور وہ عدالت میں کھڑے ہو گئے۔ وہ راتوں کو شہر میں گشت کرتے، غریبوں کی خبر گیری کرتے۔ ایک واقعہ مشہور ہے جب وہ ایک عورت کے گھر پہنچے جو بچوں کو بھوک سے روتی دیکھ کر خود رو پڑے اور انہیں غلہ پہنچایا۔ جذباتی طور پر یہ منظر دل کو چھو لیتا ہے: ایک خلیفہ، جو دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا حکمران ہے، غریبوں کی خدمت کر رہا ہے۔

روحانی اعتبار سے، ان کی خلافت اللہ کی اطاعت پر مبنی تھی۔ انہوں نے قرآن اور سنت کو حکمرانی کا اصول بنایا۔ بیت المال کو امانت سمجھا، اور خود پیوند لگے کپڑے پہنتے۔ ان کی دعائیں قبول ہوتی تھیں؛ ایک بار قحط میں بارش کی دعا کی، تو بارش ہو گئی۔ انہوں نے اسلامی کیلنڈر شروع کیا، عدالتوں کا نظام قائم کیا، اور فوجی دستے منظم کیے۔

لیکن ان کی ولایت کا اختتام غمگین تھا۔ 644ء میں ایک مجوسی غلام ابو لؤلؤ نے انہیں مسجد میں نماز کے دوران خنجر مارا۔ زخمی حالت میں بھی انہوں نے نماز ادا کی اور فرمایا: “مجھے اللہ سے ملنے کی خوشی ہے۔” ان کی شہادت نے امت کو صدمہ پہنچایا، لیکن ان کی میراث آج بھی زندہ ہے۔

روحانی اور جذباتی سبق

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حقیقی ولایت اللہ کی غلامی میں ہے۔ ان کی سختی میں نرمی، طاقت میں عاجزی، اور حکمرانی میں انصاف دیکھ کر دل بھر آتا ہے۔ وہ کہتے تھے: “اپنے اعمال کا حساب لو، قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے۔” آج کے دور میں جہاں ظلم اور ناانصافی ہے، ان کی سیرت ایک مشعل راہ ہے۔ اللہ ہمیں ان کی پیروی کی توفیق دے۔

یہ مقالہ ان کی عظمت کا ایک چھوٹا سا عکس ہے۔ ان کی زندگی پڑھ کر ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانی چاہیے، تاکہ ہم بھی اللہ کے پسندیدہ بندے بنیں۔ اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر کو نور سے بھر دے اور ہمیں ان کے ساتھ جنت میں جمع فرمائے۔ آمین۔

Loading