Daily Roshni News

حضور قلندر با با اولیاؒ فرماتے ہیں۔۔۔داستان پارینہ

حضور قلندر با با اولیاؒ

فرماتے ہیں۔۔۔

داستان پارینہ

یہ طاق یہ ٹوٹے ہوئے در اور دیوار

 ذروں میں نظر آتے ہیں سارے آثار

ذروں میں ہے گرم شاعروں کی محفل

 ذروں میں ہیں بند شاعروں کے اشعار

نیدرلینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کر چکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اتر گئے تھے۔ سو دیکھ لو، ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے۔ آخر کار ہم ہی وارث ہیں ۔ “ (القصص۵۸)

ابدال حق قلندر بابا اولیا ؒکی یہ رباعی انتہائی فکر انگیز اور منفر د تصورات و احساسات کی حامل ہے۔ ابدال حق فرماتے ہیں۔ دنیا اور دنیا کی رونق، بے ثباتی میں بھی وجود بقا کا پہلو رکھتی ہے۔ منفر دفکر اور کمالات انسانی کی لا فنائیت کا یہی تصور قلندر بابا کی ذات اور احساسات کو عام ذہنوں اور عام تصورات سے بلند و بالا کرتا ہے۔ عظیم الشان محلات ، عیش گاہوں کے اجڑے طاق ، ٹوٹے در و دیوار سرسری نگاہ سے دیکھنے والوں کے لئے محض روز مرہ کی داستان ہیں کہ دنیا کی ہر شے فانی ہے۔ ہرشے کی تعمیر میں تخریب اور ہر کمال کا مقدر زوال ہے۔ اس سے زیادہ نہ نگاہیں دیکھ سکتی ہیں اور نہ ذہن اس سے ماورا کوئی اور تصور قائم کر سکتا ہے ۔ مگر شاعر کے نزدیک تخریب و زوال کا عمل محض عبرت کی داستان نہیں بلکہ اس کے تخلیقی ذہن اور گہرائیوں میں حقیقت تلاش کرنے والی نگاہوں کے سامنے محلات ، عیش گاہوں کے ٹوٹے طاق اور در و دیوار کے ذروں میں وہ عظیم الشان عمارتیں ایک بار پھر پوری آب و تاب سے مکمل اور منور نظر آتی ہیں جن سے شاعر کی حسین یادیں وابستہ ہیں۔

 بے ثباتی اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں شاعران مقامات کی تصویر بھی دیکھتا ہے جن میں چند لمحے گزار کر یا جن محفلوں میں شریک ہو کر اس نے روداد اول بیان کی تھی اور جن اشعار نے اس کی زندگی میں ہی قبولیتِ عام حاصل کر لی تھی ۔ اب اگر چہ وہ در و دیوار اور محفلیں ، خوبیاں اور رعنائیاں کھو کر داستان پارینہ بن گئی ہیں مگر شاعر کا کلام اور ان محفلوں کی یادا بھی تک محفوظ ہے۔ اس کی گواہی بھی شکستہ در و دیوار کے ذرات دے رہے ہیں ۔ امتداد زمانہ سے مٹی کا ڈھیر مٹی میں مل گیا مگر رودادِ اول جو مادیت اور زمان و مکان سے ماوراہے۔ ابھی تک دل کی دھڑکن بنی ہوئی ہے۔

Loading