حلال رشتے کے انتظار میں ایک بیٹی کی فریاد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میری عمر 35 سال ہو چکی ہے، مگر میں آج بھی ایک باحیا، تنہا زندگی گزار رہی ہوں۔ شادی نہ ہونے کی وجہ میری کوئی کمی یا کردار نہیں، بس ایک پرانی سوچ ہے جو میرے والدین کو جکڑے ہوئے ہے — “خاندان سے باہر رشتہ کرنا شرم کی بات سمجھی جاتی ہے”۔
ہمارے خاندان میں سات پشتوں سے رواج ہے کہ باہر کسی سے رشتہ نہیں کیا، اور اسی پر فخر کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج میری عمر ڈھل چکی ہے لیکن خاندان میں کوئی میرے لیے رشتہ نہیں لایا۔
باہر سے کئی اچھے رشتے آئے، لیکن میرے ماں باپ اور بھائیوں نے کبھی سنا تک نہیں، اور میں… میں اندر ہی اندر ٹوٹتی جا رہی ہوں۔
راتوں کو سناٹا چیخ بن جاتا ہے، دل کی دھڑکن احتجاج بن جاتی ہے۔ کبھی جی چاہتا ہے کہ سب کچھ توڑ کر بس چیخ چیخ کر پوچھوں،
“آخر میرا قصور کیا ہے؟”
تقریبات میں جب ہم عمر لڑکیاں اپنے شوہروں اور بچوں کے ساتھ خوش نظر آتی ہیں، میری آنکھیں آنسو پی جاتی ہیں، لیکن دل پکار اٹھتا ہے،
“کاش میرے ماں باپ رسم و رواج کی زنجیروں سے نکل کر میری فریاد سن لیتے۔”
کبھی دل چاہتا ہے کہ گھر چھوڑ کر چلی جاؤں، کسی سے کہوں،
“مجھے اپنی بیوی بنا لو”
لیکن پھر دل ڈر جاتا ہے کہ کہیں کسی غلط شخص کے ہاتھ نہ لگ جاؤں۔
اے مولوی صاحب!
آپ جمعے کے خطبے میں سب کچھ کہتے ہیں، لیکن ایک بیٹی کی بے بسی پر کیوں خاموش رہتے ہیں؟
رات کو جب ہر کوئی اپنے شریکِ حیات کے ساتھ پرسکون ہوتا ہے،
تو ایک بیٹی اپنے بستر پر تنہا سسک رہی ہوتی ہے۔
اے حاکمِ وقت!
تُو فاروقِ اعظم کا وارث ہے؟ تو جان لے کہ جب ایک عورت کی فریاد ان تک پہنچی، تو انہوں نے پوری ریاست میں حکم جاری کیا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے تین مہینے سے زیادہ دور نہ رہے۔
لیکن آج، ہم جیسی بیٹیاں اپنے ماں باپ کے گھروں میں تنہا، بے یار و مددگار پڑی ہیں، صرف اس لیے کہ
“خاندان کی عزت، رسم و رواج اور جھوٹی غیرت” ان کی آنکھوں پر پٹی بن چکی ہے۔
یا اللہ! تُو گواہ رہنا
تُو نے میرے لیے کئی اچھے رشتے بھیجے، مگر میرے اپنوں نے خود ہی انہیں ٹھکرا دیا۔
کل کو میرے والد کہیں گے،
“نصیب میں ہی کچھ نہیں تھا”
تو کیا یہ سچ ہوگا؟
اگر کوئی بھوکا کھانا نہ کھائے اور کہے کہ مقدر میں نہیں تھا، تو وہ پاگل کہلائے گا یا عقل مند؟
اے لوگو!
ہماری بیٹیوں پر رحم کرو،
ان کے نصیب برباد نہ کرو،
ان پر ظلم نہ کرو صرف خاندان کی جھوٹی عزت کے نام پر۔
اسلام میں ذات، برادری سے زیادہ تقویٰ اور کردار کی اہمیت ہے۔
برائے کرم، ان رسموں کو توڑ دو جو نسلوں کو برباد کر رہی ہیں۔
اپنی بیٹیوں کو ان کے جائز حق، “حلال رشتہ” سے محروم نہ رکھو۔