Daily Roshni News

حواس خمسہ سے آگے۔۔۔تحریر۔۔۔ابن وصی۔۔۔(قسط نمبر1)

حواس خمسہ سے آگے

عارف حقیقت صوفی بزرگ

 قلندر بابا اولیاء ؒ کے ارشادات کی روشنی میں

(قسط نمبر1)

تحریر۔۔۔ابن وصی

ہالینڈ(ڈیلی  روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ حواس خمسہ سے آگے۔۔۔ قسط نمبر1۔۔۔ تحریر۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی) انسان کے اند ر کام کرنے والی حسوں کی تعداد ساڑھے گیارہ ہزار ہے۔

قلندر باباؒکی تعلیمات بتاتی ہیں کہ ہر انسان کے اندر پانچ حواس کے علاوہ دیگر کئی حواس کام کرتے ہیں۔ انسان کی مادی اور روحانی زندگی کے اندر جو حسیں کام کرتی ہیں قلندر بابا اولیاء ؒ کے مطابق ان کی تعداد تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار ہے۔

ہم یہی سنتے اور سمجھتے آرہے ہیں کہ انسان دنیا سے تعلق قائم رکھنے اور اطلاعات کو سمجھنے یا قبول کرنے کے لیے حواس خمسہ سے مدد لیتے ہیں۔ نفسیات ہو یا سائنس ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ دنیا سے متعلق ہماری ساری معلومات میں پانچ حسیات یعنی  قوت شامہ( سونگھنے کی صلاحیت )، ذائقہ( چکھنے کی صلاحیت )، بصری ( دیکھنے کی صلاحیت )، مس کرنے (چھو کر محسوس کرنے کی صلاحیت) اور سمعی یعنی ( سنے اور آواز وں کو پرکھنے کی صلاحیت) کے ذریعے ہمیں حاصل ہوتی ہیں۔ ذائقہ جو ہم اپنی زبان سے چکھتے ہیں ، آواز جو اپنے کانوں سے سنتے ہیں، مختلف خوشبو جو ناک سے سونگھتے ہیں، جو کچھ دیکھا ہے، جو کچھ چھوا ہے۔ سب کچھ ہمارے حواس خمسہ کے ذریعہ دماغ کو بھیجے جانے والی اطلاعات ہیں۔

ماہرین کے مطابق ہم دنیا کی جس رکھتے ہیں یا ادراک کرتے ہیں وہ ہمارے انہی پانچ  حسی اعضاء سے دماغ تک پہنچنے والی اطلاعات کا نتیجہ ہوتی ہے۔

عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ انسان میں صرف پانچ حواس ہی کام کر رہے ہیں جو بنیادی طور پر بصارت، سماعت، شامہ، لمس اور ذائقہ کی اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔ اگر کسی کے ساتھ کوئی ایسی بات ہو جائے جو ان پانچ حواس خمسہ کے دائرہ عمل سے باہر ہو تو اسے چھٹی حس کے خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔

چھٹی حس کی تلاش

چھٹی حس کی اصطلاح ایسے مواقع پر استعمال کی جاتی ہے کہ جب ہمیں کسی ایسی بات کا ادراک یا علم ہو جائے جو بظاہر حواس خمسہ کی پہنچ سے دور ہو۔

کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا علم انسان کو ہو تو جاتا ہے لیکن اس کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھوس توجیح  موجود نہیں ہوتی۔ اس کا ادراک نہ صرف درست ہوتا ہے بلکہ یہ دوسروں کے لیے حیران کن بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو اچانک محسوس

قلندر بابا اولیاءؒ کے ارشاد کے مطابق

خلاء ہر جگہ موجود ہے اور ہر شے خلایا اسپیس سے جڑی ہوئی ہے۔ کوئی بھی شے خلاء یا  اسپیس سے الگ نہیں رہ سکتی۔ دورسرےلفظوں میں یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ حواس ہر جگہ موجود ہیں اور کوئی بھی شے حواس الگ نہیں ہوسکتی، خواہ وہ انسان ہوں ، حیوان پتھر یا پہاڑ ہوں….

ہونے لگے کہ کوئی گڑ بڑ یا نقصان ہونے والا ہے یااس بات کا احساس ہو جائے کہ کچھ بہت اچھا یا بہت برا واقعہ ہونے والا ہے اور وہ واقعی ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ اسے اپنی چھٹی حس سے پتا چلا۔

چھٹی حس ایک عرصہ تک ماہرین کی نگاہوں میں متنازعہ ہی تھی، کچھ عالموں کے نزدیک علم و آگہی کے مختلف ذریعوں میں چھٹی حس بھی شامل ہے، جبکہ کچھ  عالم اسے لاشعوری طور پر دماغ میں جانے والی معلومات کا ہی ایک دوسرا نام دیتے تھے لیکن  آج  سائنس صرف چھٹی حس ہی نہیں بلکہ کئی اور حواس کا بھی انکشاف کر رہی ہے، حواس خمسہ کے علاوہ تمام اضافی حواس کو ایکسٹر اسینسری پر سیشن ESP یعنی ماورائے حواس ادراک کہا جارہا ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ کہنا غلط  ہےکہ ہمارے پاس صرف پانچ ظاہری  حسیں اور اضافی چھٹی حس ہے۔چھٹی حس کی اصطلاح استعمال کرنے سے ہم  انسان اپنی حیسات کی تعداد کو محدود کر دیتے ہیں حالانکہ حواس کی تعداد بہت زیادہ ہے….

سلسلہ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیاء ؒنے حواس یا جس کے لیے اسپیس  (Space) یا مکان کا استعاره بیان کیا ہے۔ قلندر بابا اولیاء کے ارشاد کے مطابق خلاء ہر جگہ موجود ہے اور ہر شے خلا یاا سپیس سے جڑی ہوئی ہے۔ کوئی بھی شے خلاء یا اسپیس سے الگ نہیں رہ سکتی۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ حواس ہر جگہ موجود ہیں اور کوئی بھی شے حواس سے الگ نہیں ہو سکتی، خواہ وہ انسان ہوں ، حیوان، پتھر یا پہاڑ ہوں….

غور کریں تو یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ حواس کی اضافی شکلیں بہت سی ہیں اور ہر شخص میں پانچ سے زیادہ حواس موجود ہوتے ہیں۔ کسی کی حس انہیں دور دراز مقامات پر ہونے والی سرگرمیوں کا بھی پتہ دے ڈالتی ہے جبکہ کسی کی حس معمولی سر گرمیوں کو ہی محسوس کر لیتی ہے۔

ذیل میں حواس خمسہ سے آگے کے ان اضافی

حواس کا تذکر ہ سائنسی وروحانی نقطۂ نظر کے تحت کیا جارہا ہے جن کا استعمال تو ہم ہمہ وقت کرتے ہیں مگر کبھی ہم نے یہ نہیں سوچا کہ زندگی میں ان کا عمل دخل کتنا ہے؟ ….

 حس تشخص

اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کون ہیں…. تو آپ اپنا پہلا تعارف اپنے نام سے کروائیں گے۔ فرض کیا کہ آپ نے کہا میں عامر ہوں۔ اب اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ آپ کو کیا معلوم کہ آپ عامر ہی ہیں ۔ جاوید یا اسلم نہیں تو شاید آپ جنجھلا کر بول اٹھیں کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں عامر ہی ہوں“۔ ٹھیک ہے ایسا ہی ہو گا مگر آپ کو یہ معلوم کیسے ہوا؟ …. ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر سامنے دکھائی دینے والے شخص کو تو پہچانیے کہ وہ کون ہے؟… اگر وہ وہی ہے جسے آپ ”میں“ کہہ کر پکارتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے اندر علم کا ایک درجہ یا حس ایسی  ہے جو ہر وقت آپ کو اپنا تعارف۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  فروری2020

Loading