Daily Roshni News

حواس خمسہ سے آگے۔۔۔ قسط نمبر2۔۔۔ تحریر۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی

حواس خمسہ سے آگے

عارف حقیقت صوفی بزرگ

 قلندر بابا اولیاء ؒ کے ارشادات کی روشنی میں

(قسط نمبر2)

تحریر۔۔۔ابن وصی

ہالینڈ(ڈیلی  روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ حواس خمسہ سے آگے۔۔۔ قسط نمبر2۔۔۔ تحریر۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی)کرواتی  رہتی ہے اور آپ کو دنیا کی ہر ایک چیز سے الگ تھلگ یا منفرد کرتی رہتی ہے۔ اسے ماہر ین ذاتی تشخص کی حس یاSense Of I کہتے ہیں۔

اس حس تشخص کی کئی شاخیں ہیں:

 انٹروسیسپشن

جسم کے اندرونی اعضاء اور عوامل کا احساس، درد، بھوک اور اندرونی اعضاء کی تحریک کو سمجھنے کی حس انٹر و سپشن Interoception کہلاتی ہے۔

اسے بھوک پیاس اور داخلی درجہ حرارت کی حس بھی کہہ سکتے ہیں۔

آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو بھوک لگی ہے یا پیاس؟ …. انسان محسوس کرنے لگے کہ اسے بھوک لگ رہی ہے یا محسوس کرے کہ پیٹ بھر گیا ہے اور مزید کھانے کی ضرورت نہیں۔

ہمارے معدے میں ایسے Receptors ہو جاتے ہیں جو مخصوص دماغی خلیات کو جسمانی کیمسٹری میں تبدیلی کرنے کی اطلاع دیتے رہتے ہیں جوہمارے الفاظ میں بھوک یا پیاس ہوتی ہے۔ کبھی کوئی چیز کھانے کا بہت ہی بھی کرتاہے اورکبھی کسی چیز کو بالکل پسند نہیں کرتے۔

ایک حس اور ہے جو دماغ کا داخلی درجہ حرارت بھی ماپتی رہتی ہے۔ درد محسوس کرنے کی حس Nociception بھی اسی حس کی ایک شاخ ہے۔

 پرو پریوسیسپشن

یہ خارجی حس تشخص کی ایک شاخ ہے۔ ہماری آنکھیں بند ہوں تب بھی ہمارے ذہن کو ہمارے پورے وجود کا احساس ہے۔ خود آگہی یا خود حساسیت کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ ہم اپنے جسم کو دیکھ سکتے ہیں یا نہیں بلکہ ہمار اذہن ایک نامعلوم انداز سے یہ جانتا ہے کہ جسم کا کون کون سا حصہ کسی جگہ ہے۔

آپ کا بایاں ہاتھ کدھر ہے اور انگلیاں کھلی ہیں یا مٹھی کی شکل میں ہیں ؟ آپ کی ٹانگ کس حالت میں ہے؟ اگر آپ آنکھ بند کر لیں تو کیا اس طرح کے سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں ؟ آنکھ بند کر لیں تو کیا اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے ناک کی نوک کو بالکل ٹھیک جگہ پر چھو سکتے ہیں ؟ کیسے؟

یہ پروپر یو سپشن Proprioception کی حس ہے، ہمارے خوداپنے جسم کے بارے میں، اس کی حالت، حرکت اور اپوزیشن کے بارے میں ادراک کی یہ حس اس قدر اہم کہ اس کے بغیر کچھ بھی کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم اس کے اتنے زیادہ عادی ہیں کہ اس کے ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا جب تک کہ یہ چلی نہ جائے۔ مثال کے طور پر نیو جرسی کے آئن واٹر مینlan Waterman ایک وائرل بیماری میں مبتلا ہونے کے بعداس جس کو مکمل طور پر کھو بیٹھےان کو احساس نہیں ہوتا۔ ان کے ہاتھ پیر کہاں  ہیں؟ اس وجہ سے نہ چل پھر سکتے تھے، نہ اٹھ کر بیٹھ سکتے تھے، نہ انہیں اپنے ہاتھوں پیروں پر کنٹرول تھا۔ اگر کوئی نشے میں لڑ کھڑ اتا چل رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نشے سے پرو پر یو سیپشن کی یہ حس متاثر ہوتی ہے۔ امریکہ میں ڈرائیونگ کے دوران کسی کے |نشے کی حالت جاننے کے لئے عموماً آنکھ بند کرکے ناک کو چھونے کا ٹیسٹ کروایا جاتاہے۔

 توازن کی حس

 اس حس کو Equilibrioception کہا جاتا ہے۔ یہ حس انسان کو طبعی طور پر کشش ثقل یعنی کشش ارضی کے خط پر قائم اور سنبھالے رکھتی ہے۔ اگر کسی انسان میں اس حسی کا فقدان ہو تو وہ چلتے ہوئے ہر وقت ڈگمگاتار ہے یا کسی گیند کی طرح ادھر ادھر لڑھکتا رہے۔ آپ کچی  سڑک پر چل رہے ہوں یا فٹ پاتھ پر ، راستے پتھریلے ہوں یا ٹیڑھے میڑھے آپ  پہاڑ کی بلندی پر چڑھ رہے ہوں یا کوئی ڈھلان اتر رہے اہوں توازن کی یہی  حس آپ کو گرنے نہیں دیتی۔ ۔

یہ حس آپ کو خبر دار کرتی رہتی ہے کہ آپ کو اگلا قدم کہاں رکھنا ہے اور کسی جگہ کیسا توازن قائم کرنا ہے۔

 عضلاتی تناسب کی حس:

ترتیب و توازن جسے تناسب بھی کہتے ہیں، اس کائنات کی بقاء کا بنیادی نکتہ ہے، اسی طرح انسان بھی حسی تناسب پر انحصار کرتا ہے۔ اس حص کا کام جسم کے مختلف اعصناء کی حرکات سکنات کو کنٹرول کر کے ایک انتظام اور ترتیب کے ساتھ چلاتا ہے مثلا چلتے ہوئے یا بھاگتے ہوئے پاؤں کا یکے بعد دیگرے آگے بڑھنا یا بازوؤں کا آگے پیچھے جانا۔ اس حسی کو Kinesthesia کہا جاتاہے۔

سمت معلوم کرنے والی حس

ہمارے اندر ایک حس ایسی بھی ہے جو ہمیں سمتوں کا تعین کرنا سکھاتی ہے۔ آپ نے ایسے بہت سارے نابینا لوگ دیکھے ہوں گے جنہیں اپنے راستے کا اندازہ ہوتا ہے ۔ پرندوں میں یہ حس بہت تیز ہوتی ہے۔ شہد کی مکھی میں بھی یہ حس بہت تیز ہوتی ہے۔ آپ اپنے گھر میں صوفہ پر بیٹھے یہ ڈائجسٹ پڑھ رہے ہوں کہ اچانک بجلی منقطع ہو جائے اور پورا گھر اندھیرے میں ڈوب جائے۔ اس وقت ہاتھ کو ہاتھ دیکھائی نہ دے گا مگر آپ کی سمت کی حس کام کرنا شروع کر دے گی۔ آپ کینڈل ڈھونڈنے کے لیے اٹھنے لگیں تو یہ حس آپ کو خبر دار کرے گی کہ سامنے میز رکھی ہے۔ بائیں طرف دیوار ہے۔ دائیں طرف کمرہ کا دروازہ ہے۔ کمرہ میں کس طرف بیڈ  ہے کس طرح الماری ہے۔ بیڈ کے کس سائیڈ ٹیبل کون سی  دراز میں کینڈل موجود ہے۔ صوفہ سے اٹھ کر کینڈل جلانے تک کے عمل کے دوران آپ کی اس حس نے آپ کا ساتھ دیا۔

اسپیس کی حس:

ہم اسپیس کی جتنی بھی جہتوں سے واقف ہیں وہ اسی وجہ سے ہیں کہ ہمارے اندر اسپیں کی حس بھی پائی جاتی ہے۔ کیا آپ یہ اندازہ نہیں کر لیتے کہ فٹ کتنا لمبا ہوتا ہے؟ گز یا میل کتنا؟ …. کہیں کسی گڑ ھے پر چھلانگ لگاتے ہوئے، یا کسی مخصوص مقام تک چلتے ہوئے ہم معلوم کر لیتے ہیں کہ یہاں سے وہاں تک کا فاصلہ کیا ہے ؟ اور پھر ہم یہ بھی اندازہ کر لیتے ہیں کہ وہاں تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا۔ کیا یہ سب کچھ بغیر حسوں کے ہو جاتا ہے۔

 رنگ محسوس کرنے کی حس:

انسان اپنی آنکھ میں موجود Cones کے ذریعے رنگ اور Rods کے ذریعے رنگوں کی شدت Density محسوس کرتا ہے۔

مثال کے طور پر Color Blind افراد کو بعض رنگوں کی تمیز نہیں ہو پاتی، انہیں سرخ اور سبز رنگ کی ہر چیز سیاہی مائل سفيد نظر آتی ہے۔ یہ صورتحال اکثر مورثی ہوتی ہے ، آنکھ کے اندرونی پردے جس کو پر ده شبکیہ یعنی ریٹناکہتے ہیں اس پردے میں بہت ننھے ننھے خورد بینی خلیے ہوتے ہیں، ان خلیوں کی کمی Color- Sense کے زوال کا باعث ہوتی ہے۔

 قربت کی حس

مثال کے طور پر آپ ایک پر ہجوم بال میں آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں اور پھر بھی آپ کو اپنے برابرسے بنا آواز پیدا کئے گزرنے والے شخص کا معلوم ہو جاتا ہے اور آپ بے اختیار آنکھیں کھول کے اسے دیکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک اضافی حس ہوتی ہے۔

آپ آنکھیں بند کر کے چلے جارہے ہیں یا گہرا اندھیرا ہے اور آپ چل رہے ہیں۔ راستے میں کوئی دیوار، نالی، کنواں یا کوئی رکاوٹ آجاتی ہے تو فورا آپ کو محسوس ہو گا کہ آگے کچھ ہے یا آپ اپنے کسی کام میں منہمک ہیں اور کوئی شخص بغیر آہٹ کیے آپ کے پیچھے آکر کھڑا ہو جاتا ہے تو فوراً آپ کو کسی دوسرے شخص کی موجودگی کا احساس ہو جائے گا اور آپ چونک کر پیچھے  دیکھیں گے۔

کسی چیز کا قرب بغیر دیکھے یا چھوئے محسوس کرنا کہ یہ کیا چیز ہے،اسی حس کا کام ہے۔ یہ حس انسانوں کی بہ نسبت بعض  جانوروں میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے انسانوں میں نابینا افراد میں عام لوگوں کی بہ نسبت یہ حس زیادہ کام کرتی ہے۔

دراصل انسانی دماغ آواز وں کا تین طریقوں سے تجزیہ کرتا ہے۔ اس کیلئے وہ آواز کی شدت، اس کی آمد کا وقت اور اس کی فریکوئنسی کا جائزہ لیتا ہے۔ جس انسان میں تجزیہ کی صلاحیت جس قدر تیز ہو، اسی قدر۔۔۔جاری ہے

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  فروری 2020

Loading