اسلام آباد: حکومت عدالتی اصلاحات پر مبنی آئینی ترامیم کو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں انجام تک پہنچا دینا چاہتی ہے، دونوں ایوانوں کے اجلاس آئندہ ہفتے بلا لیے جائیں گے۔
عدالتی اصلاحات پر مبنی آئینی ترامیم پر غور کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس آئندہ ہفتے طلب کیے جارہے ہیں جن کے بارے میں شیڈول کا تعین آئین کی دفعہ 63 اے کے بارے میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں ہوگا، یہ بینچ اس عدالتی فیصلے پر نظرثانی کررہا ہے جس میں عدالت نے مبینہ طور پر 2022ء میں اس آئینی دفعہ میں تحریف کرکے آئین کو از خود تحریر کرڈالا تھا۔
اس کی رو سے اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے والے ارکان اسمبلی کو وفاداریاں تبدیل کرنے کی پاداش میں بیک وقت نا اہل قراردیدیا جائے گا اور ان کا ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا ملک بھر کے قانون دانوں اور آئینی ماہرین نے اس فیصلے کےخلاف ذمہ دار آواز اٹھائی تھی۔ نظرثانی کی درخواست آئندہ پیر (30ستمبر) کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کا بینچ کرے گا۔
حد درجہ قابل اعتماد پارلیمانی ذرائع نے جنگ/دی نیوز کے خصوصی سینٹرل رپورٹنگ سیل کو بتایا کہ پارلیمانی سیکرٹری کو اپنے اجلاس منعقد کرنے کے لئے تیار رہنےکی گزشتہ ہفتے جو ہدایات جاری کی گئی تھیں۔
ان کی روشنی میں تمام مطلوبہ تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کی اسپیکر سردار ایاز صادق کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی جس کے ذمے پارلیمانی معاملات کو درست طور پر آگے چلانے کی ذمہ داری تفویض ہوئی تھی اس کا اجلاس بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس سے پہلے ہوگا۔
اب اس میں سینیٹ کی نمائندگی بھی شامل کرلی گئی ہے، تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئینی ترامیم کے لیے مسودے کو اس اجلاس میں غور کے لیے پیش کیا جائے گا۔
معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف جنہیں پہلے سے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق اکتوبر کے پہلے ہفتے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپس آنا تھا لیکن اب منگل (یکم اکتوبر) تک وطن واپس آجائیں گے۔
وطن واپسی پر ان کے لندن قیام کو بھی مختصر کردیا گیا ہے، وزیراعظم کی عدم موجودگی میں نائب وزیراعظم وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے دیگر امور کے علاوہ پارلیمانی سرگرمیوں بالخصوص آئینی ترامیم کے منصوبے کی نگرانی کی ذمہ داریاں انجام دی ہیں اور وہ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر سابق وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف سے مسلسل رابطے میں رہے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ حکومت آئینی ترامیم کے معاملے میں پارلیمانی ایوانوں میں منظوری کے کام کو اکتوبر کے پہلے ہفتے سے آگے لے جانے کا ارادہ نہیں رکھتی، اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان حکومت کا اجلاس وسط اکتوبر میں شروع ہورہا ہے جس کے لئے مندوبین کی آمد کا سلسلہ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں شروع ہو جائے گا۔
علاوہ ازیں چین کے وزیراعظم مسٹر لی شیانگ 14 اکتوبر سے پاکستان کا دو طرفہ سرکاری دورہ بھی کررہے ہیں جس کے لیے فضا کو سازگار رکھنے کی غرض سے آئینی امور کو پہلے ہفتے کے آخر تک نمٹادینے کا فیصلہ کیا گیاہے، شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں 34 سے زیادہ سربراہان حکومت اور سرکردہ رہنماؤں نے اپنی شمولیت کے بارے میں رضامندی سے پاکستان کو آگاہ کردیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس ایکٹ میں ترمیمی آرڈیننس کو عندالضرورت قانون بنانے کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کرے گی اس امر کا امکان بھی موجودہے کہ اس آرڈیننس کو اپنے طبعی عمر تین ماہ بعد معدوم ہونے دیا جائے کیونکہ بعد ازاں اس کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پرکٹیشنر آرڈیننس کو پارلیمانی ایوانوں کی آگاہی کے لیے پیش کر دیا جائے گا تاہم حکومت کو اسے قانون بنانے میں دلچسپی نہیں ہے۔