Daily Roshni News

حکومت کو عدلیہ کی قانون سازی سے متعلق سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے: چیف جسٹس

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے اختیارات اور ازخودنوٹس کے طریقہ کار میں تبدیلی سے متعلق قانون ‘سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ’ کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ حکومت کو عدلیہ کی قانون سازی سے متعلق سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 8 رکنی لارجربینچ  نےکیس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

خیال رہےکہ عدالت نے قانون پر عمل درآمد روک رکھا ہے۔

آج سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نےکچھ کہنا تھا؟

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہمارے دو قوانین ہیں، ایک سپریم کورٹ ریویو آف آرڈر اینڈ ججمنٹ ایکٹ ہے، دوسرا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے، دونوں قوانین میں ریویو اور وکیل کرنے کی شقوں کی آپس میں مماثلت ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ زیادہ وسیع ہے، اس میں سپریم کورٹ کےاندرونی معاملات سے متعلق شقیں ہیں، دونوں قوانین میں سےکس پر انحصارکرنا ہے اس پر کسی ایک  حل  پر  پہنچنا ضروری ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دونوں قوانین میں ہم آہنگی کے لیے پارلیمنٹ کو دیکھنےکا کہہ سکتے ہیں، آپ کی اس تجویزکا خیر مقدم کرتے ہیں، خوشی ہےکہ پارلیمنٹ اور حکومت ایک جیسے قوانین میں ترمیم کر رہی ہیں، حکومت کو عدلیہ کی قانون سازی سے متعلق سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہرکا کہنا تھا کہ دیکھنا ہوگا کہ اگر قوانین ایک جیسے ہیں تو اس کو حل کیا جاسکتا ہے یا نہیں، اگر قوانین آپس میں مماثلت رکھتے ہیں تو فل کورٹ سے متعلق درخواستیں سننا وقت کا ضیاع ہوگا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت اس معاملےکو پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو یہ معاملہ نہیں بھیجیں گے، پارلیمنٹ اور حکومت اگر کوئی تجویز دیں تو اس پر غور کریں گے، ریویو آف آرڈر کا سیکشن4 سیکشن 6 سے مماثلت رکھتا ہے، دونوں قوانین میں ریویو کا طریقہ کار بھی مماثلت رکھتا ہے، مجھے یقین ہےکہ اٹارنی جنرل اور  مسلم لیگ ن کے وکیل اس طرح کے تنازع کے دوران دلائل دینا نہیں چاہیں گے،  پارلیمنٹ کو معاملہ بھیجنے سے  لگےگا اس پر فیصلہ کردیا ہے، متضاد قانون سازی پر قوانین لے کر  آئیں۔

چیف جسٹس نے ‘گڈ ٹو سی یو’ کا حوالہ دیتے ہوئےکہا کہ تمام وکلا یہیں ہیں لیکن ان کو دیکھ کر اپنا جملہ نہیں دہراؤں گا، ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ دونوں قوانین پر سوچیں اور  ہم بھی مشاورت کریں گے، ورنہ دوسری صورت میں پارلیمنٹ اپنی کارروائی کرے ہم اپنی کرتے ہیں دیکھیں گےکون زیادہ  تیز ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ حکومت سے ہدایات لےلیں تب تک کسی اور کو سن لیتے ہیں۔

وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ عدالت نے پارلیمنٹ کی کارروائی طلب کی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اخبارات کے مطابق پارلیمنٹ نےکارروائی عدالت کو فراہم کرنے سے انکارکیا،لیکن ہم نے پارلیمنٹ کی کارروائی ان کی ویب سائٹ سے لے لی ہے، پارلیمنٹ کو شاید معلوم نہیں تھا کہ خوش قسمتی سے تمام کارروائی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

چیف جسٹس نےکہا کہ اگلے ہفتے اس کیس کو سنیں گے، تمام وکلاء جو کراچی سے لمبا سفر کرکے آئے ان سےمعذرت کرتے ہیں، آج کی سماعت کا حکم نامہ جاری کریں گے۔

کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

13 اپریل کا حکم نامہ 

13 اپریل کو جاری حکم نامے میں کہا گیا کہ  سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3 درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور  اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے، حکم امتناعی کا اجراء نا قابل تلافی خطرے سے بچنے کے لیے ضروری ہے، صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تا حکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کے لیے متفکر ہے، اس ضمن میں مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے عدالت کی مداخلت درکار ہے، سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکلاء کے ذریعے فریق بن سکتی ہیں۔

Loading