خاموش سرگوشیاں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )بارش ہمیشہ عائشہ کو سکون دیتی تھی۔ مگر آج کی بارش کچھ مختلف تھی۔ کھڑکی کے شیشے پر گرتے ہوئے قطرے اسے اس کے دل کے اندر گرتے ہوئے احساسات کی طرح محسوس ہو رہے تھے — بے نام، بوجھل، مگر سچے۔
لاہور کی سرد شام تھی۔ اکتوبر کی ہوا میں نمی اور بچھڑنے کا احساس گھلا ہوا تھا۔ چائے کا کپ سامنے رکھا تھا مگر اس کی بھاپ کب کی ختم ہو چکی تھی۔ کمرے میں مدھم پیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور ایک پرانا سا گراموفون میز پر رکھا، ہلکی آواز میں فیض احمد فیض کی غزل چلا رہا تھا —
“دل نااُمید تو نہیں ناکام ہی تو ہے…”
عائشہ نے آنکھیں بند کیں۔ الفاظ جیسے دل میں تیر بن کر اتر گئے۔
باب 1: ماضی کے دروازے پر
پانچ سال پہلے عائشہ کراچی یونیورسٹی میں ادب کی طالبہ تھی۔ شوخ، چنچل، خوابوں میں رنگ بھرتی ہوئی لڑکی۔ اس کی آنکھوں میں کہانیاں تھیں، اور لبوں پر ہر وقت کوئی مصرع۔ اسی دوران ایک نیا لیکچرار آیا — ارحم۔ نرم لہجہ، سنجیدہ چہرہ، اور آنکھوں میں عجیب سا سکون۔
پہلے دن کی کلاس میں ہی عائشہ نے محسوس کیا کہ یہ شخص عام نہیں۔ جب اس نے غالب پر بات کرتے ہوئے کہا:
“محبت وہ سوال ہے جس کا جواب کبھی مکمل نہیں ہوتا۔”
عائشہ کے دل میں جیسے کوئی چراغ جل اٹھا۔
وقت گزرتا گیا، کلاسیں ختم ہوئیں مگر عائشہ کے دل میں ارحم کا عکس گہرا ہوتا گیا۔ دونوں کے درمیان ادب کے بہانے گفتگو شروع ہوئی۔ وہ اس کے مضامین پر تبصرہ کرتا، کبھی اشعار پر بحث، کبھی چائے کے کپ کے ساتھ لمبی گفتگو۔
باب 2: خاموشی کا عہد
ایک دن ارحم نے یونیورسٹی کے باغ میں کہا:
“عائشہ، تم جانتی ہو؟ زندگی میں سب کچھ لکھا نہیں جاتا، کچھ باتیں صرف محسوس کی جاتی ہیں۔”
عائشہ نے مسکرا کر کہا،
“اور کچھ محسوسات لکھے بغیر دل میں بوجھ بن جاتے ہیں۔”
ارحم نے نظریں جھکائیں۔
“کچھ بوجھ زندگی کا حصہ ہوتے ہیں، ان سے نجات نہیں، عادت ڈالنی پڑتی ہے۔”
اس کے لہجے میں وہ درد تھا جسے عائشہ نے پہلی بار محسوس کیا۔ اس نے پوچھا،
“کیا تمہارے دل میں بھی کوئی ایسا بوجھ ہے؟”
ارحم نے ہلکی مسکراہٹ سے جواب دیا،
“ہاں، ایک ایسا رشتہ جو کبھی مکمل نہیں ہوا۔”
یہ جملہ عائشہ کے لیے بجلی کی مانند تھا۔ اس کے دل نے کچھ ٹوٹنے کی آواز سنی۔ مگر اس نے کچھ نہ کہا۔
باب 3: جدائی
ڈگری مکمل ہونے کے بعد ارحم نے اچانک ملازمت چھوڑ دی۔ نہ کوئی الوداع، نہ کوئی وضاحت۔ صرف ایک خط —
“عائشہ، کچھ راستے ہم خود نہیں چنتے، وہ قسمت ہمیں چن لیتی ہے۔ تمہارے لیے دعا ہے کہ تم ہمیشہ لکھتی رہو، کیونکہ لفظ تمہیں میری طرح کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔”
یہ آخری سطر عائشہ کے دل میں گونجتی رہی۔ اس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ کبھی الفاظ کو مرنے نہیں دے گی۔ وہ لکھے گی — اس کے لیے، اپنے لیے، اور ان احساسات کے لیے جو کبھی کہے نہیں جا سکے۔
باب 4: آج کی شام
پانچ سال بعد، عائشہ اب ایک مشہور ادیبہ تھی۔ مگر اس کے چہرے کی مسکراہٹ کے پیچھے ایک خالی پن چھپا ہوا تھا۔
وہ اکثر کہتی،
“میں لفظوں سے دوستی کرتی ہوں کیونکہ وہ دھوکہ نہیں دیتے۔”
اسی دوران، ایک دن اسے لاہور لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کی دعوت ملی۔
اس کے دل میں عجیب سا اضطراب تھا — جیسے کوئی پرانی یاد دوبارہ جنم لینے والی ہو۔
اسٹیج پر پہنچنے کے بعد جب میزبان نے اگلے مقرر کو بلایا، تو اس کے قدم جیسے زمین میں جم گئے۔
ارحم احمد — معروف شاعر، اور اس شام کے مہمانِ خصوصی۔
دونوں کی نظریں ایک لمحے کو ملیں، پھر جیسے دنیا رک گئی۔
ارحم کی آنکھوں میں وہی سکون، وہی خاموش درد تھا۔
باب 5: سامنا
تقریب کے بعد ارحم خاموشی سے اس کے پاس آیا۔
“تم اب بھی وہی عائشہ ہو، جو ہر لفظ میں زندگی ڈھونڈتی تھی۔”
عائشہ نے دھیرے سے کہا،
“اور تم وہ ارحم ہو، جو ہر زندگی میں خاموشی ڈھونڈ لیتا ہے۔”
دونوں کے درمیان لمحوں کی ایک دیوار کھڑی تھی۔
بارش پھر شروع ہو گئی۔
عائشہ نے ہلکی آواز میں کہا،
“کبھی کبھی سوچتی ہوں، اگر تم جاتے نہیں تو شاید میں وہ نہیں بنتی جو آج ہوں۔”
ارحم مسکرایا،
“کبھی کبھی جدائی ہی ہمیں مکمل کرتی ہے۔”
دونوں خاموش ہو گئے۔ صرف بارش کی آواز تھی — جیسے وقت خود تھم گیا ہو۔
باب 6: آخری خط
تقریب کے چند دن بعد، عائشہ کو ایک لفافہ موصول ہوا۔
اسی خطی تحریر میں، جو کبھی اس نے برسوں پہلے دیکھی تھی:
“عائشہ، تم ٹھیک کہتی تھیں۔ کچھ احساسات لکھے بغیر بوجھ بن جاتے ہیں۔ میں نے تمہیں کھو کر یہی جانا کہ محبت ہمیشہ انجام نہیں مانگتی۔ کچھ رشتے دعا بن کر رہ جاتے ہیں۔”
لفافے کے ساتھ ایک پرانی تصویر تھی — یونیورسٹی کے باغ کی، جہاں وہ دونوں آخری بار بیٹھے تھے۔
عائشہ نے تصویر کے نیچے ایک سطر لکھی:
“محبت اگر خاموش ہو جائے تو بھی دل کی سرگوشیوں میں زندہ رہتی ہے۔”
اس کے آنسو تصویر پر گرنے لگے، مگر لبوں پر ایک سکون بھری مسکراہٹ تھی۔
شاید کچھ کہانیاں ختم نہیں ہوتیں، وہ صرف خاموش ہو جاتی ہیں۔
اختتام
کھڑکی کے باہر بارش اب رک چکی تھی۔
عائشہ نے چائے کا نیا کپ بنایا، میز پر بیٹھ کر اپنی نئی کہانی لکھنے لگی —
عنوان: “خاموش سرگوشیاں”۔
![]()

