Daily Roshni News

خبیب زئی سے خصوصی ملاقات اور انٹرویو۔۔۔ میزبان:عیشا صائمہ

 

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)آج آن لائن اردو نیوز پیپر ڈیلی روشنی انٹرنیشنل کی نمائندہ کی حیثیت سے جس شخصیت سے آپ کی ملاقات کروانے جا رہی ہوں انہوں  نے زندگی میں بہت سی مشکلات دیکھیں لیکن ان مشکلات کا ڈٹ کر نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ جو کمیاں اور برائیاں انہوں نے اپنے اردگرد دیکھیں ان کو دور کرنے کی ٹھانی اور انفرادیت کی بجائےاجتماعیت کی طرف توجہ دلانے اور نئ نسل کی صحیح رہنمائی کے لئے تنہا اٹھ کھڑے ہوئے لیکن جب اس عظیم  مقصد کو لے کے چلے تو بہت سے اور لوگ بھی ان کے اس عظیم کام میں شامل ہوتے گئے –

آج یہ ایک تنظیم بنا کر اس کام کو کامیابی سے آگے بڑھا رہے ہیں جس کا متن ہی “آؤ مل کر معاشرہ سدھاریں” ہے -اس کے بانی و صدر ہیں اور ان کی یہ تنظیم پاکستان کے تقریباً سبھی شہروں میں اپنے اراکین کے ساتھ اس مہم کو آگے بڑھا رہی ہے جس کا مقصد بہترین افرادی قوت تیار کرنا ہے -اس کے ساتھ ساتھ ان کی کتاب “تعمیر معاشرہ” جلد منظر عام پر آرہی ہے – ان سے کی گئ گفتگو آپ پیارے قارئین کی نذر ہے یقیناً آپ نہ صرف اس سے مستفید ہونگے بلکہ مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے بہت سے لوگ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے میں فخر محسوس کریں گے –

سوال – آپ کی تعلیم کیا ہے؟

جواب -ماسٹر کمپیریٹیو رلیجن

سوال – بچپن سے ہی سنجیدہ مزاج تھے یا شرارتی؟

جواب -بچپن سے ہی سنجیدہ تھا بطور فطرت چلبلا اور شرارتی بھی تھا مگر جوں جوں وقت گزرا انٹر کے بعد بہت سنجیدہ ہوچکا تھا-

سوال – ادب سے تعلق کس وجہ سے ہوا؟

جواب -اردو ادب سے تعلق یوں بنا کہ مجھے لکھنے کا بہت شوق تھا یہ شوق زندگی کے داؤ پیچ کو جاننے اور سنجیدہ لوگوں کو پڑھنے کا نتیجہ تھا –

سوال – معاشرتی مسائل پر آپ نے مختلف تحاریر لکھیں اس کا محرک کیا تھا؟

جواب -معاشرے میں موجود مسائل اور بگاڑ اسکا محرک تھا میں معاشرے پر بڑی ہی گہری نظر رکھتا تھا جیسا کہ ہمارے معاشرے میں ہر انسان دوسروں کو محبتوں کا درس دیتا ہے مگر کوئی غریب کو اپنا رشتہ دار بتانا پسند نہیں کرتا لوگوں کو سچ کہنے کا درس دیتے ہیں مگر اپنے آپ کو سچ سننے پر آمادہ نہیں کرتے ہر ایک شخص دوسرے کو اسکے حقوق بتاتا پھرتا ہے مگر اسکے حقوق ادا نہیں کرتا ہر

ایک درجے پر میں نے اپنے سماج کو زہر آلود پایا –

سوال -ادب کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد آپ کو لگا کہ معاشرے کے سدھار کے لئے کام ہو رہا ہے؟

جواب -ادب کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد مثبت کام کے ہونے کا تو احساس ہوا مگر بہت سے سوالات نے جنم لیا کہ ہر شخص ہی اپنی ذات اور اپنے مسائل تک محدود رہا اپنے نظریات لوگوں میں پرو کر چلا گیا لیکن کسی نے بھی اجتماعیت پر جمع کرنے اور سماج سے مخلص ہونے پر ذہن سازی نہیں کی-

سوال – کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اسلامی یا اخلاقی  اقدار کو اپنانے میں نوجوان نسل کو مشکلات کا سامنا ہے یا وہ ان سے صحیح طور سے واقف ہی نہیں؟

جواب -جی ہاں سچ کہوں تو اس سماج میں اخلاقی اور اسلامی زندگی گزارنا محال ہے جس سماج میں ہم رہتے ہیں وہاں ہم دو کیفیت کے قائل ہیں یا تو انسان مکمل کافر بنے یا مکمل مومن یہاں میانہ روی اور اعتدال کیساتھ جینے والے کی زندگی ایسے ہے جیسے کانٹوں کے راستے پر کپڑے کو سمیٹ کر چلنا نوجوان نسل اخلاقی اور اسلامی اقدار اپنانا چاہتے ہیں مگر وہ تبدیل ہونے پر ملنے والے طعنوں سے خوفزدہ ہیں کیونکہ انکی مثبت تبدیلی کو سماج برداشت نہیں کر پاتا دوسری بات یہ کہ جو واقف ہیں وہ خوفزدہ ہیں اور جو ناواقف ہیں اہل علم اور مہذب لوگ ان تک پیغام امن کو پہنچانا ضروری نہیں سمجھتے –

سوال – کیا نوجوان نسل کی تربیت صحیح خطوط پر ہو رہی ہے؟

جواب -سارا مسئلہ ہی تربیت کا ہے کہ جسکی بنا پر آج کے نوجوانوں پراسکرین سے منسلک پرکشش زندگی انکے اعصاب پر سوار ہے انھیں پیسہ کمانے کا درس بھی اسلیئے دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے لوگوں کو حقیر ثابت کرسکیں لوگوں کو اپنا غلام بنا سکیں علاقہ اور شہر میں اپنا نام اور غیر ضروری رعب قائم کرسکیں میں اکثر اپنے لیکچرز میں کہا کرتا ہوں کہ اگر آپ معاشرے کو یا نوجوانوں کو سدھارنے کے خواہاں ہیں تو تربیت یافتہ والدین تیار کریں-

سوال – آپ نے معاشرے کے سدھار کا جو بیٹرا اٹھایا ہے اس کے پیچھے کیا محرک تھا یا اس کے کیا مقاصد تھے؟

جواب – معاشرے کے سدھار کا بیڑا اٹھانے کا بنیادی محرک وہ اخلاقیات ہیں جو سماج میں سنائی تو دیتی ہے مگر دیکھائی نہیں دیتی اگرچہ کہیں دیکھائی دیں  تو اس شخص پر اسقدر پریشانی اور مصیبتوں کے پہاڑ ان لوگوں کی طرف سے ڈالے جاتے ہیں جو محض لوگوں کو سناتے ہیں اپنے کردار پر لاگو نہیں کرتے اور معاشرے کی منافقتیں جس نے ہر ایک انسان کو گھٹن زدہ زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہوا ہے جیسا کہ ہر اچھے اور برے انسان سے تعلق قائم رکھنا تاکہ اچھے وقت میں اچھے لوگ اور برے وقت میں برے لوگوں کا استعمال کیا جاسکے شریف انسان کو ناکام تصور کرکے بدمعاشوں کی کامیابیوں کے گیت سنانا خود  والدین کو بے آسرا چھوڑ دینا اور بچوں کو مل جل کر درس دینا اور بھی میرے دل میں بہت سے سوالوں کا انبار ہے انھی سوالوں اور کرداروں نے مجھے معاشرے کے سدھار کا بیڑا اٹھانے پر ابھارا-

سوال – زندگی میں یا ادبی دنیا میں کن مشکلات کا سامنا رہا؟ان مشکلات پر کیسے قابو پایا؟

جواب -ادبی زندگی میں مشکلیں ہی مشکلیں ہیں کیونکہ ہم بے ادب سماج میں جی رہے ہیں جہاں نوجوان کی شاعری سے رغبت کو ناکام عشق کہا جاتا ہے لوگوں کی دُکھی اور سبق آموز کہانیوں سے لوگوں کو کچھ سیکھانے کو سستا لکھاری کہا جاتا کہیں آپکی سنجیدگی لوگوں کو بالکل برداشت نہیں ہوتی بہت قریبی رشتے بھی آپکو طعنوں سے چھلنی کردیتے ہیں کوئی بھی ناکامی کے وقت میں کسی انسان کو اپنا دوست بھائی بتانا پسند نہیں کرتا مگر جیسے ہی چار لوگوں اخباروں اور ٹی وی چینلز پر آپکی شخصیت متعارف ہوجائے تو سب ہی بھائی اور  دوست بتانے پر فخر کرتے ہیں ادب انسان کو سنجیدگی سے جوڑ دیتا ہے اور ہمارا سماج طنز و مزاح اور بحث و تکرار کا عادی ہے ادب کے راستے میں بہت سی مشکلیں جھیلی اور ان پر قابو پانے میں خدا اور اسکے اخلاص والے بندوں نے بہت ساتھ دیا-

سوال – معاشرے میں پھیلی بے حسی کو ختم کرنے کے لئے آپ نے جو قدم اٹھایا ہے قابل ستائش ہے بہت سے لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنا اور مل کر کام کرنا کتنا مشکل ہدف تھا اور کس حد تک آپ اس میں کامیاب ہوئے؟

جواب -جب ہم نے معاشرے کے سدھار کے کام کا آغاز کیا تو ہم 5 لوگ تھے اور سب کے دل اخلاص سے بھرے تھے خوب اپنے رب سے دعائیں کرتے تھے اور اپنے قلم محنت پر بھروسہ تھا کہ ضرور ایک دن ہم چند لوگوں سے زیادہ لوگوں کی میں تبدیل ہونگے اس سفر میں بڑی مشکلیں آئی کیونکہ ہمارا کام پیسوں اور فیم سے پاک تھا اور لوگ اس انسان کو نہ تو قابل سمجھتے ہیں نہ اسے کامیاب قبول کرتے ہیں جسکے پاس دولت اور شہرت نہ ہو البتہ وہ کتنا ہی عظیم مشن رکھتا ہو بہت سے لوگ ہمیں طعنے دیا کرتے تھے ہنسا کرتے تھے یہ سلسلہ اب تک بھی جاری ہے اس مشن پر قائم رہنے اور اس سوچ کو لوگوں تک پہنچانے کیلیئے بہت آنسوؤں کی قربانی دی ہے رفتہ رفتہ لوگ بڑھتے گئے تو اللہ نے ایک پہچان عطاء کی تو کچھ طعنوں میں کمی محسوس ہوئی آج الحمداللہ پاکستان کے کئی علاقوں میں ہمارے میمبرز موجود ہیں ہماری فکر موجود ہے اور وہ اپنی طاقت کے مطابق معاشرے کے سدھار کا کام کررہے ہیں ہر ایک ہدف پورا ہو ہی جاتا ہے اگر آپکا یقین ہو خدا پر اور آپ اس نتیجے پر پہنچنے کیلیئے ہر ایک قربانی دینے کیلیئے تیار ہو جائیں-

سوال – اس کے علاوہ آپ  کن تنظیموں کے ساتھ منسلک ہیں اور خدمت خلق سرانجام دے رہے ہیں اس کام میں آپ کو کتنا لطف آتا ہے؟

جواب -چونکہ ہمارا مقصد معاشرے کا سدھار ہے تو ہم ہر اس جماعت اور تنظیم کا ساتھ دیتے ہیں جو خیر و بھلائی کا کام کرے میں کئی دینی اور سیاسی جماعتوں سے خیر کے کام میں انکے ساتھ منسلک رہا 2011ء کے سیلاب میں مہینوں خدمت خلق کا اندرون سندھ میں کام کیا اور حالیہ سیلاب میں بھی الحمداللہ سات ماہ پاکستان کے 45 متاثرہ شھروں سندھ اور بلوچستان میں انسانیت کی خدمت کی بنیادی طور پر خلق خدا کی خدمت میرے اعصاب پر سوار ہے اس کام میں مجھے وہ لطف حاصل ہوا جو قابل بیان نہیں اور اگر بیان کر بھی دیا جائے تو کوئی محسوس نہ کر پائے یہ سب اللہ ہی کا فضل ہے کہ وہ ہم سے کام لے رہا ہے-

سوال – والدین سے رشتہ کیسا رہا یا ہے؟

جواب -والدین سے الحمداللہ بہت اچھا رشتہ قائم ہے جو کچھ میں ہوں یہ سب سے پہلے اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ایسے والدین عطاء کیئے کہ جنھوں نے صحیح غلط کی پختہ پہچان کرائی مشکلوں کے آگے ڈٹے رہنے کی تعلیم دی طعنے کسنے والوں کو معاف کرنے کا حوصلہ سکھایا خالی جیب رہ کر اچھائی کرنے اور بھری ہوئی جیب رکھ کر برائی کرنے سے بچنے کی ذہن سازی کی دنیا کی چمک سے بچنے اور اندھیروں میں سے روشنی تلاش کرنے کا ہنر سکھایا یہ سب انھیں والدین کی مہربانی ہے جو روز تہجد میں میری کامیابی کی دعا کرتے ہیں ضرور یہ دعائیں مجھے مزید ترقیوں سے ہمکنار کرینگی –

سوال – کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مختلف کہانیوں، یا افسانوں کی مدد سے معاشرے میں موجود برائی کے خاتمے کے لئے بہتر انداز میں کام ہو سکتا ہے؟

جواب -بطور لکھاری میرا یہ ماننا ہے کہ قلم ضروری ہے معاشرے کیلئے یہی وہ روشنی ہے جو سوچ کو روشن کرنے قوم و ملت کی تربیت اور ذہن سازی کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے قلم ہی وہ طاقت ہے جو کسی ان دیکھے شخص کے نظریات کو پڑھ کر اسکا ساتھ دینے پر آمادہ کرتا ہے برائیوں کا خاتمے کیلئے محض قلم کافی نہیں البتہ برائیوں کی روک تھام کیلئے قلم ایک مؤثر ہتھیار ہے-

سوال – آپ کی نظر میں زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟

جواب -میری نظر میں زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ وہی ہے جو خدا نے اپنی کتابوں اور صحیفوں میں زمین پر رہنے والوں کو پیغام دیا ان تمام کا مکمل خلاصہ قرآن مجید میں واضح ہے اور اگر کسی شخصیت کی زندگی کو دیکھا تو وہ محمد کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں جنھوں نے قربانی کی ایثار کیا اعلٰی ظرفی ہمدردی اور اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کی وہ مثال قائم کی جو نفرت و بغض کی عینک کو اتار کر دیکھنے والے ہر انسان کو محبوب ہے واقعی انکی زندگی انسانیت کو روح بخشتی ہے ایک ایسا فلسفہ بخشتی ہے کہ جو لازوال و بے مثال ہے –

سوال – ایمانداری جیسی صفت کسی بھی شخص کے اندر کیسے پیدا کی جا سکتی ہے؟ جب کہ آجکل ہر کوئی شارٹ کٹ کے چکر میں ہے؟

جواب -ایمانداری کی صفت پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اس شخص کو سراہیں ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ایماندار کو ناکام ثابت کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ایمانداری کیساتھ زیادہ دولت نہیں بنا پاتا جبکہ ہم قابل فخر اور قابل تذکرہ شخصیت اسے سمجھتے ہیں جو دولت بنانے میں کامیاب رہا چاہے وہ بے ایمان ہی رہا ہمیں چاہیئے کہ ہم ایمانداروں کو معاشرے میں کامیابی کا درجہ دیں اور قابل فخر شخصیت متعارف کروائیں سچ تو یہ ہے کہ اس سماج میں بہت سے ایماندار بے ایمان اسلیے بن جاتے ہیں کہ یہ معاشرہ انکی ایمانداری کی قدر کرنے سے قاصر ہے حوصلہ دیجیئے اچھائی سے جڑے لوگوں کو تاکہ اچھائی فروغ پاسکے  لوگ شارٹ کٹ اسلیئے بھی چاہتے ہیں کہ ہم نے زندگی کو بہت مشکل کردیا ہے نوجوانوں کے زہنوں میں دولت کا مرض بھر دیا گیا اور ہمارے رویوں نے انھیں یہ محسوس کروایا کہ سماج میں عزت اسی کی ہے جسکے پاس دولت ہے اسی لئے وہ عزت اور مقام پانے کیلئے جلد بازی سے کام لے رہے ہیں-

سوال – آپ نے ایک مشکل زندگی گزاری ہے ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کیا تجاویز دینا چاہیں گے کہ عام لوگ ان مشکلات سے نہ صرف نکل سکیں بلکہ بہترزندگی کو اپنا سکیں؟

جواب-بس یہی تجویز دونگا کہ زندگی میں ایک سلجھا ہوا دوست ضرور بنائیں یہ ضروری ہے زندگی کیلئے ترقی کیلئے جب تمہیں ساری دنیا دھتکار دے تو اس انسان کے پاس تم اپنے سکھ دکھ کو بیان کرسکو اور وہ کبھی تمہیں ان سکھ دکھ کے آنسوؤں پر طعنے نہ دے اگر تم چاہتے ہو کہ تھوڑے ہی سہی مگر لوگ اپنے دلوں میں جگہ دیں تو خدا سے مضبوط رابطہ قائم رکھنا خدا ضروری ہے زندگی کیلئے زندگی کسی کی بھی آسان نہیں زندگی کئی بار خودکشی کے ارادوں سے منہ موڑ کر ان محرومیوں اور ان احساسات کے قلع قمع کرنے کا نام ہے بہتر زندگی مشقتوں سے گزر کر ان سے سیکھنے کا نام ہے –

سوال – کیا آپ سمجھتے ہیں معاشرے میں نفرت یا احساس برتری کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں؟

جواب-نفرت یا تو کسی کی طرف سے دی جاتی ہے یا پھر خود ساختہ طور پر بھی یہ احساس انسان میں پایا جاتا ہے نفرت معاشرے میں بڑے وبال پیدا کرتی ہے کسی کی اچھائی سے منہ موڑنے پر مطمئن رکھتی ہے اس مرض کی بنیادی وجہ تعلق کی کمزوری ہے جبکہ احساس برتری معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ایک بڑی گراوٹ ہے جسکی بنا پر معاشرہ کئی حصوں میں نہ صرف بٹتا ہے بلکہ یہ معاشرے میں موجود امن و اتحاد کی روح اکھاڑ دیتا ہے-

سوال – معاشرے کے سدھار کا جو کام آپ نے شروع کیا اس میں کتنے فیصد آپ کو بہترین نتائج ملے؟

جواب -فیصد کے اعتبار سے اعداد و شمار دینا تو مشکل ہے بس اتنا ہی کہوں گا کہ بہت سی زندگیاں بدلنے میں اللہ نے کامیاب کیا ابتک 40 سے زائد لوگوں کو خودکشی کرنے سے بچا چکے ہیں کئی لوگ زندگی جینا سیکھ چکے ہیں کئی لوگ معاشرے کے سدھار میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں مٹھی بھر لوگ ہی سہی مگر کچھ لوگ اپنے مفاد سے زیادہ معاشرے کے مفاد کو اہمیت دینے لگے ہیں یہ سب کارنامے میرے نہیں یہ سب اللہ ہی کا فضل ہے کہ جس نے ہم عام سے انسانوں سے خاص کام لے لیا-

سوال – زندگی میں کبھی برے لوگوں سے واسطہ پڑا؟

19- جی ہاں زندگی میں میں برے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے-

سوال – کوئی اہم پیغام جو آپ دینا چاہیں؟

جواب -یہی پیغام دینا چاہوں گا کہ ہم جب تک انفرادی طور پر سوچتے رہینگے اور اپنے اپنے مفادات حاصل کرتے رہینگے تو یہ معاشرہ ہمیں قیامت خیز منظر پیش کرنے لگے گا ہمارے پاس تمام آسائشیں بھی آجائیں تب بھی ہم خوش نہیں جی سکیں گے میری التجاء ہے کہ معاشرے کے سدھار کیلئے اپنا کردار پیش کریں اپنے علم سے اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کے سدھار کی کوشش کریں ذاتی مفاد سے زیادہ معاشرے کے مفادات کو ترجیع دیں معاشرہ کا سدھار باہمی اتحاد و اتفاق ہمدردی اور لحاظ سے ہی ممکن ہے پہل کیجیئے اپنی اناؤں کو قربان کیجیئے اپنے حلقہ احباب سے معاشرے کے سدھار کے اس پیغام کا آغاز کیجیئے لوگوں کی مثبت ذہن سازی اور بہتر رہنمائی کیجیے ہم ہی سے یہ سماج روشن ہے آؤ مل کر اپنے حصے کی مشعل جلاتے جائیں بکھری ہوئے موتیوں کو ایک تسبیح بناتے جائیں-

اس کے ساتھ ہم نے “محترم خبیب زئی” سے اجازت چاہی اس دعا کے ساتھ کہ وہ معاشرے کے سدھار کے لیے جو کام کر رہے ہیں اللّٰہ تعالی ان کی ہمت و حوصلے کو مزید بڑھائے اور وہ اپنے اس مشن میں مزید کامیابی حاصل کریں جو ان کے لیے دنیا و آخرت میں صدقہ جاریہ ہے اور رہے گا –

Loading