Daily Roshni News

خدا کا سوال اب ویسا نہیں رہا!۔۔۔ تحریر۔۔۔ ڈاکٹر حفیظ الحسن

خدا کا سوال اب ویسا نہیں رہا!!

تحریر۔۔۔ ڈاکٹر حفیظ الحسن

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خدا کا سوال اب ویسا نہیں رہا!۔۔۔ تحریر۔۔۔ ڈاکٹر حفیظ الحسن )انسان جب کائنات پر غور کرتا ہے تو سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ خدا جس کا تصور پیش کیا جاتا ہے وہ شخصی ہے یا غیر شخصی۔ یہ سوال محض نظری نہیں بلکہ اس کے ساتھ کئی اور سوال جڑ جاتے ہیں۔ اگر خدا کو شخصی مانا جائے تو ارادہ، شعور، نیت اور انسان سے مخاطب ہونے جیسے تصورات لازم آتے ہیں، اور پھر یہ پوچھنا پڑتا ہے کہ وہ انسانوں سے بات کیوں کرتا ہے، کن لوگوں کو چنتا ہے، اور اس پیغام کی سچائی کو پرکھنے کا معیار کیا ہے۔ اسی مقام پر وحی، نبوت، مذہبی متون، ان کی تعبیرات اور تاریخ کی پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ اگر خدا کو غیر شخصی مانا جائے تو بات ایک شعوری ہستی سے نکل کر کسی بنیادی اصول، کسی اولین حقیقت یا محض کائنات کی بنیاد تک آ جاتی ہے، جہاں ارادہ اور کلام جیسے انسانی تصورات اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔

مذہب کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ خدائی تصورات تہذیبوں کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ ابتدائی انسان فطرت کے مظاہر سے خوف زدہ تھا، اس لیے اس نے بارش، بجلی، زلزلے اور بیماری کو کسی ماورائی طاقت سے جوڑا۔ جیسے جیسے علم بڑھتا گیا، ان مظاہر کی فطری توجیہات سامنے آتی گئیں، مگر خدا کا تصور ختم نہیں ہوا بلکہ نئی صورتوں میں ڈھلتا رہا۔ اکثر ایسا ہوا کہ جہاں انسانی علم رک جاتا تھا، وہاں خدا کو رکھ دیا جاتا تھا۔ بعد میں اس رویے کو ‘گاڈ آف گیپس’ کہا گیا۔ مسئلہ خدا کے تصور کا نہیں تھا بلکہ اسے لاعلمی کے خلا کو پُر کرنے کے لیے استعمال کرنے کا تھا، کیونکہ علم کے بڑھنے کے ساتھ ایسے خلا خود بخود کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔

آج کی فکری بحث میں ایک واضح تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ اب کم ہی لوگ کسی مخصوص مذہبی خدا کے حق میں تفصیلی دلائل دیتے ہیں۔ زیادہ تر گفتگو ایک عمومی خالق، پہلی بنیاد یا موجد کے تصور تک محدود ہو گئی ہے۔ یہ تبدیلی خود اس بات کی علامت ہے کہ انسانی سوچ کس مرحلے تک پہنچ چکی ہے۔ مگر قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہ بحث اب بھی زیادہ تر اسی مانوس دنیا کے اصولوں پر کی جاتی ہے جہاں ہر واقعے کے پیچھے کسی واضح سبب کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے، حالانکہ جدید سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات کے آغاز کے قریب یہ اصول اپنی عام صورت میں موجود نہیں تھے۔

جب ہم کائنات کی ابتدا پر غور کرتے ہیں تو بات اس سطح تک پہنچتی ہے جہاں زمان، مکان، مادہ اور توانائی خود وجود میں آتے ہیں۔ یہاں وجہ اور اثر کی وہ ترتیب کام نہیں کرتی جس کی ہمیں روزمرہ زندگی میں عادت ہے۔ پلانک عہد کے قریب(یعنی بگ بینگ کے ایک سیکنڈ کے بھی کھربا ہا کھربویں حصے میں) کائنات ایک ایسی حالت میں تھی جہاں تعین کے بجائے امکانات غالب تھے۔ واقعات ایک سیدھے سبب کے نتیجے میں نہیں بلکہ امکان کے دائرے میں وقوع پذیر ہو رہے تھے۔ اس تناظر میں خدا کو سادہ سبب اور نتیجے کے سلسلے سے ثابت کرنے کی کوشش خود ایک سادگی بن جاتی ہے، کیونکہ یہ منطق اسی دنیا کی ہے جو بگ بینگ کے بعد وجود میں آئی، نہ کہ اس حالت کی جہاں کائنات خود جنم لے رہی تھی۔

یہیں شعور کا سوال بھی سامنے آتا ہے۔ انسان حقیقت کو عقل کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، مگر عقل خود اسی کائنات کی پیداوار ہے جسے وہ سمجھنا چاہتی ہے۔ جب عقل اپنے ہی ماخذ سے ماورا حقیقت کو ناپنے کی کوشش کرتی ہے تو الجھنیں پیدا ہونا فطری بات ہے۔ یہ کیفیت نہ خدا کے وجود کا صاف انکار ہے اور نہ اس کا قطعی اثبات، بلکہ انسانی فہم کی حدود کا اعتراف ہے۔

مذہب اس مقام پر ایک مختلف کردار ادا کرتا ہے۔ وہ کائنات کی سائنسی وضاحت پیش کرنے کے بجائے انسان کو معنی، امید، اخلاقی سمت اور جذباتی سہارا فراہم کرتا ہے۔ اس دائرے میں مذہب پر تنقید ممکن ہے اور اسے رد بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اس کی سماجی اور نفسیاتی موجودگی کو محض عقلی دلائل سے ختم نہیں کیا جا سکا۔ شاید اسی لیے آج مذہب کے دفاع میں اب کسی مخصوص خدا کے بجائے ایک غیر متعین خالق یا پہلی بنیاد کی بات زیادہ کی جاتی ہے، جو خود اس بات کی علامت ہے کہ کلاسیکی مذہبی دلائل اپنی پرانی صورت میں برقرار نہیں رہے۔

یوں موجودہ فکری منظرنامہ کسی حتمی فیصلے کے بجائے ایک محتاط مقام پر آ کر ٹھہرتا ہے۔ خدا کو روایتی سبب اور نتیجے کی منطق سے ثابت کرنا جدید سائنس اور کوانٹم فہم کی روشنی میں ایک سادہ روی ہے، اور اسے مکمل طور پر رد کرنا بھی انسانی عقل کی محدودیت کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ بحث اب کسی ایک مذہب کے درست یا غلط ہونے سے آگے بڑھ کر امکان، شعور، منطق اور انسانی فہم کی سرحدوں تک آ پہنچی ہے، اور شاید اسی غیر یقینی کے ساتھ جینا اس موضوع پر سب سے زیادہ دیانت دار رویہ ہے۔

ڈاکٹر حفیظ الحسن

Loading