خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں
تحریر۔۔۔لیوٹالسٹائی
(قسط نمبر2)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔۔۔ تحریر۔۔۔لیوٹالسٹائی)یاد کیا اور یہ کہہ کر رونے لگا کہ “اب تو ایسا لگتا ہے کہ بس خدا ہی سچ جانتا ہے، اب بس ایک وہ ہی ہے جس سے میں درخواست کر سکتا ہوں، جسے عرضی دے سکتا ہوںاور ایک اسی سے رحم کی بھیک مانگ سکتا ہوں۔”
اس کے بعد اکسیونوف نے نہ تو کوئی عرضی لکھی اور نہ ہی کوئی امید رکھی۔ اس نے اپنا سارا وقت خدا کی عبادت کے نام کر دیا۔ اس کے بعد اکسیونوف کو کوڑے پڑوانے بھیجا گیا۔ اس کو ایسے کوڑوں سے مارا گیا جو موت کے بھی باعث بن سکتے تھے۔ جب کوڑوں کے زخم بھر گئے تو اس کو سایبیریا بھیج دیا گیا۔چھبیس سال تک اکسیونوف سایبیریا میں ایک مجرم کی طرح رہا۔ اس کے بال برف کی طرح سفید ہو گئے اور اس کی ڈارھی لمبی ، پتلی اور زیادہ سفید ہو گئی۔ اس کی ساری خوشی مر چکی تھی ، وہ خمیدہ کمر ہوگیا تھا، اس کے چلنے کی رفتار دھیمی ہو گئی تھی ، وہ کم بولنے لگا تھا، اس کی ہنسی غائب ہو چکی تھی، مگر وہ اب بھی عبادت کر تا تھا۔ جیل میں اکسیونوف نے جوتے بنانا سیکھا اور یہی کر کے اس نے کچھ پیسے بھی کمائے جس ایک کتاب خریدی جس کا نام تھا “ولیوں کی زندگیاں” وہ یہ کتاب جیل میں اس وقت پڑھتا تھا جب وہاں زیادہ روشنی ہوا کرتی تھی ۔ اتوار کے دن وہ اس کتاب کو چرچ کے اندر بلند آواز میں پڑھتا بھی تھا اورمڈہبی گیت بھی گاتا تھا کیونکہ اس کی آواز ابھی تک اچھی تھی۔جیل کے ادھیکاری اکسیونوف کو اس کی نیکی کی وجہ سے پسند کرتے تھے اور دوسرے قیدری اس کی بہت عزت کرتے تھے:وہ اس کو “بابا” اور “دادا” کہہ کر پکارتے تھے۔ جب بھی کسی قیدی کو اپنی عرضی جیل ادھیکاریوں کے سامنے پیش کرنی ہوتی تھی تووہ اکسیونوف کو ہی اپنا نمائندہ بناتے تھے، اور اگر کبھی کوئی جھگڑا ہوتا تھا تو وہ اسی کے پاس انصاف اور صحیح فیصلے کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ اکسیونوف کو اپنے گھر کی ذرا بھی خبر نہیں تھی، اس کو تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ اس کے بیوی بچے زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔
ایک دن جیل میں قیدیوں کا ایک نیا گروہ لایا گیا۔ شام میں سارے پرانے قیدیوں نے نئے قیدیوں سے ان کے گاؤں اور ان کی سراؤں کے بارے میں پوچھ تاچھ کی ۔ سب چیزیں چھوڑ کر اکسیونوف ان نئے قیدیوں کی پوچھ تاچھ کے دوران زمین پر بیٹھ کر نیچےسر کئے ان کے ہر ایک لفظ کو غور سے سن رہا تھا ۔ ان نئے قیدیوں میں سے ایک جو تقریباَ ساٹھ سال کا رہا ہوگا ، لمبا ، چوڑا ، اپنے گرفتار ہونے کی وجہ بتا رہا تھا ۔
“دوستو!”اس نے کہا”میں نے بس ایک گھوڑا ، جو کہ ایک گاڑی سے باندھ لیا تو مجھ پر چوری کا الزام لگا دیا گیا ۔ میں نے کہا بھی کہ میں نے ایسا صرف گھر جلدی پہنچنے کے لئے لیا تھا اور اس کے بعد میں اس کو جانے دیتا۔ جبکہ گاڑی ہانکنے والا میرا بہت اچھا دوست تھا۔ تو جب میں نے ان سے کہا کہ ‘مجھے جانے دیجیے ‘ تو انہوں نے کہا کہ ‘نہیں ، تم نے اسے چرایا ہے ‘ مگر وہ یہ نہیں بتا سکے کہ میں نے اسے کب اور کہاں سے چرایا ہے ۔ میں نے ایک بار سچ میں ایک غلط کام کیا تھا ، اور یہاں آنے والا تھا لیکن میں نہیں پکڑا گیا ۔ اب مجھے یہاں بھیجا گیا ہے جبکہ میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔مگر یہ سب جھوٹ ہے ، میں سائبیریا پہلے بھی آچکا ہوں مگر کبھی بہت نہیں رکا۔ “
“تم کہاں سے ہو” کسی نے پوچھا۔
“ولاڈیمر ۔ میرے گھر والے وہاں کے ہیں ۔ میرا نام مکر ہے اور دوسرے لوگ مجھے سیمیونچ بھی کہتے ہیں”
اکسیونوف نے اپنا سر اٹھا یا اور بولا ” سیمیونچ کیا تم مجھے کچھ ولاڈیمرکےاس سوداگر اکسیونوف کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہو ؟ کیا وہ اب بھی زندہ ہے ؟”
“بتا سکتے ہو ؟ بالکل بتا سکتا ہوں ۔ اکسیونوف کے گھر والے بہت امیر ہیں ۔ مگر ان کا باپ ہماری ہی طرح کہیں اس جیل میں قید ہے چونکہ وہ بھی ایک بہت بڑا گنہگار ہے ! آپ بتایئے ، بابا ، آپ یہاں کیوں آئے؟”
اکسیوننوف نے اپنی بد نصیبی کے بارے میں بتانا درست نہ سمجھا تو اس نے صرف اتنا ہی کہ دیا۔ “میں اپنے ایک گنہ کی وجہ سے اس جیل میں تقریبا َ چھبیس سال سے ہوں ۔”
“کون سا گنہ؟” مکر نے پوچھا۔
“خیر خیر ۔۔۔۔میں گنہگار تھا ۔” اکسیونوف نے تو کچھ نہیں کہا مگر اس کے ساتھیوں نے مکر کو سب بتا دیا کہ اکسیونوف سائبیریا میں کیوں آیا ہے ۔ انہوں نےبتایا کہ کیسے کسی اور نے ایک سوداگر کا قتل کیا اور اکسیونوف کو اس الزام میں قید کر دیا گیا۔ جب مکر نے یہ سب کچھ سنا تو اس کی آنکھیں اکسیونوف کو دیکھتی ہی رہ گئیں ۔ اس نے اپنے گھٹنے پر ہاتھ مار کر کہا۔
“خیر یہ سب بہت عجیب ہے! کافی عجیب!مگر آپ اتنےضعیف کیسے ہو گئے بابا”
دوسروں نے مکر سے بہت پوچھا کہ وہ اس بات پر اتنا کیوں چونکا اور یہ کہ اس نے اکسیونوف کو پہلے کہاں دیکھا تھا، مگر مکر کہ منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ اس نے بس اتنا ہی کہا ۔
“یہ بہت اچھی بات ہے کہ ہم یہاں آکر پھر سے ملے، دوست!”
ان لفظوں کو سن کر اکسیونوف نے سوچا کہ شاید کہیں یہ آدمی اس سوداگر کے قاتل کو جانتا ہو۔ تو آخر اس نے کہا ۔ ” سیمیونچ شاید تم نے مجھے پہلے دیکھا ہو یا پھر تم اس معاملے کہ بارے میں کچھ جانتے ہو۔”
“میں صرف سن کر کیسے مدد کروں؟ یہ دنیا افواہوں سے بھری پڑی ہے اور ویسے بھی یہ بہت پرانا واقعہ ہے اور میں بہت چیزیں بھول گیا ہوں۔”
“شاید تم قاتل کو جانتے ہو؟” اکسیونوف نے پوچھا۔
“قتل تو اسی نے کیا ہوگا جس کے سامان میں چاقو ملا تھا ، اگر کسی اور نے وہاں چاقو چھپایا ہو گا، تو جیسا کہ کہا جا تا ہے ‘وہ جب تک پکڑا نہ جائے تب تک وہ چور نہیں’ کوئی آپ کے سامان میں چاقو کیسے چھپا سکتا تھا جبکہ آپ کا بستہ آپ کہ سر کے نیچے رکھا تھا ؟ وہ آپ کو ضرور اٹھا دیتا۔”
جب اکسیونوف نے یہ الفاظ سنے تو اس کو یقین ہو گیا کہ مکر ہی وہ آدمی ہے جس نے وہ قتل کیا تھا۔ اکسیونوف وہاں سے اٹھا اور چلا گیا۔
وہ رات اکسیونوف نے جاگ کر بتائی۔ اس کو بہت برا لگ رہا تھا اور وہ سارے منظر اس کی آنکھوں۔۔۔جاری ہے۔