کسی جنگل میں ایک بہت بڑے گھنے درخت کے نیچے ایک خرگوش نے اپنا مکان بنا رکھا تھا۔ اس خرگوش کا نام بنی تھا ایک دن بنی کی آنکھ کھلی تو دن خاصا چڑھ چکا تھا۔ یوں بھی گرمی کا موسم تھا ۔ بنی نے سوچا کہ اسے جلدی جلدی ناشتا کرکے بازار چلے جانا چاہیے تاکہ سوداسلف لے آئے ۔گرمی بڑھ گئی تو گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو جائے گا، بنی نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر رات کے بچے ہوئے کھانے سے ناشتہ کیا ،کپڑے بدلے ،سودا لانے کی ٹوکری سنبھالی اور ٹوکری ہاتھ میں لے کر بازار جانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔
خرگوش اچھلتا ہوا اپنے گھر سے تھوڑی دور پہنچا تھا کہ اسے ایک باریک سی آواز سنائی دی ۔”بھائی بنی․․․․بھائی بنی!“
بنی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آواز کہاں سے آئی ہے ۔اس نے اوپر دیکھا ،نیچے دیکھا اِدھر دیکھا، اُدھر دیکھا لیکن آواز دینے والا نظر نہ آیا۔
”میں یہاں ہوں۔“آواز دوبارہ سنائی دی ۔اب بنی نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ آواز تو قریب ہی اگی ہوئی لمبی لمبی گھاس میں سے آرہی ہے ۔
اب اس نے گھور کر دیکھا تو وہاں چوہے میاں آنکھوں پر چشمہ لگائے کندھے پر ایک تھیلا لادے کھڑے تھے۔
”آہا ! چوہے میاں۔ آپ کہاں․․․․․؟“بنی نے کچھ خوشی اور کچھ حیرت سے پوچھا۔”میں نے سوچا ،بنی سے ملے ہوئے کئی دن ہو چکے ہیں اس لئے چلا آیا، لیکن تم تو کہیں جارہے ہو․․․․؟“ چوہے میاں نے کہا۔”ہاں! ذرا بازار تک ارادہ ہے ۔ آج کتنی گرمی ہے ۔
سچ مچ جھلسا دینے والی گرمی سوچا کہ جلدی سے سودا لے آؤں ۔گرمی بڑھ گئی تو بازار تک پہنچنا بھی مشکل ہو جائے گا۔“
”ہاں!واقعی گرمی تو بہت ہے ۔تھوڑی دیر اور ہو گئی تو سچ مچ یہ گرمی جھلسا دے گی ۔“چوہے نے بنی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پوچھا ،”کہو تو میں بھی ساتھ چلوں․․․․؟“
”ضرور ․․․․ضرور ۔بھلا اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے ․․․․․؟“ بنی نے کہا پھر دونوں دوست بازار کی طرف چل دیے ۔
بنی اچھلتا کودتا ہوا جا رہا تھا اور چوہے میاں کچھ دوڑتے اور کبھی چھلانگیں لگاتے ۔تھوڑی ہی دور چلے ہوں گے کہ انہیں پھر ایک باریک سی آواز سنائی دی۔
”بھائی بنی! آداب ۔بھائی چوہے میاں آداب“
بنی اور چوہے میاں کو ایسا محسوس ہوا جیسے آواز ان کے پیروں کے نیچے ہی سے آئی ہو ،اس لئے پہلے تو انہوں نے نیچے دیکھا ،پھر دائیں جانب اور پھر بائیں جانب ،لیکن انہیں کوئی نظر نہ آیا۔
”میں یہاں ہوں“آواز دوبارہ سنائی دی ۔اب انہیں آواز کی سمت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے اس سمت میں غور سے دیکھا تو لمبی گھاس کے درمیان میں انہیں ایک ننھا منا خوبصورت لال رنگ کا پرندہ نظر آیا۔ اس پرندے کو اس کے رنگ کی وجہ سے ”لال“ ہی کہتے ہیں ۔”واہ بھائی لال!“تم تو بڑی سایہ دار جگہ تلاش کرکے بیٹھے ہو ۔بنی اور چوہے میاں نے ایک ساتھ کہا۔
”ہاں بس! گرمی سے گھبرا کر ذرا دیر کے لئے یہاں رک گیا تھا۔“لال نے جواب دیا۔”واقعی گرمی بہت زیادہ ہے ۔سچ مچ جھلسا دینے والی گرمی ۔“بنی نے جواب دیا۔
”آپ لوگ کہاں جا رہے تھے ․․․․؟“لال نے پوچھا۔
”سودا لینے بازار جارہے تھے ۔گرمی زیادہ ہے نا!اس لئے سوچا تھا کہ جلدی سے سودا لے آئیں، ورنہ گرمی اور بڑھ گئی تو جھلس کر رہ جائیں گے۔
“ بنی اور چوہے میاں نے جواب دیا۔”میں بھی سودا لینے ہی کے لئے گھر سے نکلا ہوں ۔کہو تو تمہارے ساتھ ہی چلا چلو!“لال نے پوچھیا۔
”یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔دو سے تین بھلے “بنی نے کہا۔
بنی اچھلتا کودتا ،چوہے صاحب بھاگتے ،چھلانگیں لگاتے اور لال صاحب کبھی پیدل چلتے اور کبھی اڑتے ہوئے بازار کی سمت بڑھنے لگے ۔ابھی تینوں بازار کے قریب پہنچے ہی تھے کہ انہیں بھائی ہرن مل گئے۔
انہوں نے آواز دے کر تینوں کو روکا اور پوچھنے لگے کہ وہ تینوں کہاں جا رہے ہیں۔
”سخت گرمی پڑ رہی ہے ۔اس لئے بازار جا رہے ہیں تاکہ اس سے پہلے کہ گرمی بڑھے اور ہمیں سچ مچ جھلسا دے ہم سودا لے کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔“ بنی ،چوہے صاحب اور لال نے ایک ساتھ کہا۔ ”بڑا اچھا خیال ہے کہو تو میں بھی تمہارا ساتھ دوں․․․․؟“بھائی ہرن نے پوچھا۔
”اس سے اچھی بات کیا ہو گی ۔ضرور چلو۔“ تینوں نے کہا ۔تھوڑی دیر بعد وہ چاروں بازار میں پہنچ چکے تھے۔بنی نے اپنے لئے تازہ تازہ سبزیاں خریدیں کچھ لیموں لئے اور شکر بھی خریدی ۔چوہے صاحب نے اپنے لئے پھل اور باجرے کے دانے خریدے ۔بھائی ہرن نے اپنے لئے خشک میوہ اور تھوڑا سا بھوسا خریدا۔ ابھی وہ سب سامان خرید کر دکان سے باہر نکلے بھی نہیں تھے کہ انہیں ایک زور دار کڑک سنائی دی ۔
بنی نے کہا،”یہ تو بجلی کی کڑک ہے۔“
چاروں جلدی سے دکان کے باہر آئے اور آسمان کی طرف دیکھا ۔کالے کالے بادلوں نے سورج کو چھپا دیا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد بادل زور سے گرجتا بھی تھا اور بجلی بھی چمک رہی تھی ۔”بارش ہونے والی ہے ۔جب ایسے بادل چھاتے ہیں تو بارش ضرور ہوتی ہے ۔“چوہے نے کہا ۔”چلو جلدی کرو۔“بھائی ہرن گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے بولا”تم تینوں میری پیٹھ پر چڑھ جاؤ۔“اسی وقت بوندیں بھی پڑنے لگیں ۔بنی ،چوہا اور لال تینوں بھائی ہرن کی پیٹھ پر بیٹھ کر اپنی اپنی منزل کو پہنچ گئے ۔ایک دوسرے کی مدد کرنے سے سب کو فائدہ ہوتاہے۔