Daily Roshni News

خصوصی انٹرویو۔۔۔جمیل قیس لاشاری۔۔۔انٹرویوکار۔۔۔عیشا صائمہ

جمیل قیس لاشاری

سے خصوصی انٹرویو۔۔

آپ  مثبت اور تعمیری سوچ کے حامل ہیں۔

انٹرویو کار۔۔۔۔عیشا صائمہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔خصوصی انٹرویو۔۔۔جمیل قیس لاشاری۔۔۔انٹرویوکار۔۔۔عیشا صائمہ) میں نے آن لائن اردو نیوز پیپر ڈیلی روشنی انٹرنیشنل کی نمائندہ کی حیثیت سے ایک ایسے نوجوان سے گفتگو کی-جو ہمارے ملک کا ابھرتا ہوا ستارا ہے-نوجوان نسل جو ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں جن پر ملک کے مستقبل کا انحصار ہے-وہ اپنی مٹی سے کتنی محبت رکھتے ہیں اور وہ اپنے وطن سے کتنا مخلص ہیں- کیسے اس وطن کی ترقی میں اپنا کردار ادا، کر رہے ہیں-آج آپ کی ملاقات کروانے جا رہی ہوں ابھرتے ہوئے ستارے قیس لاشاری سے جو نہ صرف شاعری میں اپنا مقام بنا رہے ہیں بلکہ ایک پیغمبرانہ پیشے کو لئے ہوئے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں- ایسے ہی نوجوانوں پہ ہمیں فخر ہے- جو اپنے ملک کانام روشن کریں گے ان کا انٹرویو میں اپنے آن لائن اردو نیوز پیپر ڈیلی روشنی  انٹرنیشنل  کے معزز قارئین کی نذر کرتی ہوں- مجھے امید ہے کہ آپ سب کو قیس لاشاری سے کی گئ گفتگو پسند آئے گی-

سوال-آپ کا پورا نام کیا ہے؟

جواب – مکمل نام جمیل احمد ہے-قلمی نام جمیل قیس لاشاری لکھتا ہوں-

سوال – آپ کی ایجوکیشن کیا ہے؟

جواب – ایم فل زولجی کیا ہے-

سوال-   آپ کیا کرتے ہیں؟

جواب-ایک پرائیویٹ سکول میں استاد کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں.

سوال – پاکستان کے کس شہر سے تعلق ہے؟

جواب-تونسہ شریف سے-

سوال-   بچپن میں کیسے تھے؟

ویسے تو ابھی بھی آپ کا بچپن ہی ہے؟

جواب-    بچپن میں بہت شریر تھا لیکن اب وہ چیز نہیں رہی- جی اب بچپن سے تھوڑا آگے نکل آئے لڑکپن کی آخری حدود میں ہوں-

سوال- بہن بھائی کتنے ہیں اور ان کے ساتھ تعلق کیسا ہے؟

جواب-  ایک بہن اور ایک بھائی

بھائی بہن کم اور دوست زیادہ ہیں ہم ایک دوسرے کے.

سوال-لکھنے کی طرف کیسے آئے؟

جواب-ایک دوست کی کرامات ہیں-

سوال-   کب پتہ چلا کہ یہ تخلیقی صلاحیت آپ میں موجود ہے؟

جواب – میٹرک کے بعد سے ہی پتہ چل گیا تھا- لیکن استعمال یونیورسٹی لائف میں کیا-

سوال-“باقاعدہ لکھنا کب شروع کیا-

جواب-ڈیڑھ سال سے لکھ رہا ہوں-

سوال-  زندگی کا کوئی مقصد بنایا ہے؟

جواب – جی ہاں-اپنے والدین کے خواب پورے کرنے ہیں ان کے جیتے جی-

سوال-  ادب میں شاعری کے علاوہ بھی کسی صنف پر کام کر رہے ہیں؟

جواب-  جی نہیں. صرف شاعری کرتا ہوں اور ابھی صرف شاعری کی صنف غزل  پہ ہی کام کر رہا ہوں-

سوال- ادب سے منسلک ہو کر کیسا لگا جب پہلی نظم یا غزل شائع ہوئی تو کیا احساسات تھے؟

جواب-  ادب ایک الگ دنیا ہے یہاں پر اپنا آپ منوانے میں کافی محنت درکار ہوتی ہے اللّٰہ پاک کا کرم ہے کہ میں اس دنیا سے منسلک ہوں مجھے میری پہچان اور عزت اسی سے ملی ہے اور باقی اپنی غزل کے شائع ہونے پر جس خوشی کا احساس مجھے ہوا تھا میں اسے لفظوں میں بیان کرنے قاصر ہوں-

سوال- کس شاعر کو زیادہ پڑھا یا کون پسند ہے؟

جواب – زین شکیل کو زیادہ پڑھا لیکن آج کل مجھے ہر اچھا لکھنے والا شاعر پسند ہے-

سوال-والدین کے ساتھ تعلق کیسا ہے؟

جواب-  الحمدللہ رب العالمین بہت اچھا تعلق ہے-

سوال- آپ کے والدین کو پتہ ہے کہ آپ لکھتے ہیں؟

جواب-  جی ہاں انہیں پتہ ہے شروع میں وہ اس چیز کے خلاف تھے بہت لیکن پھر میں نے راضی کر لیا تھا-

سوال- اس طرف آنے میں دوست کے علاوہ کسی  نے پذیرائی کی؟

جواب-   جی ہاں قمر آسی صاحب اور علی اعجاز سحر یہ دو نام ہیں جنہوں نے شروعات میں میری رہنمائی کی تھی لیکن جس مقام پر میں آج ہوں وہ میرے مرشدی نصرت عارفین صاحب اور جناب ضمیر حسن قیس صاحب کی بدولت ہوں-

سوال- اب تک کتنی غزلیں یا نظمیں لکھ چکے ہیں؟

جواب – زیادہ نہیں ہیں یہی کوئی 25 سے 30 غزلیں ہوں گی مگر ایک ایک دو دو اشعار کافی ہیں-

سوال-کبھی خیال آیا بچوں کے لئے بھی کچھ لکھا جائے ؟

جواب-  جی جب سے پڑھا رہا ہوں تب سے دل کر رہا ہے کچھ لکھوں نظم لکھنے کا سوچا ہے جس کا نام” ایک استاد کی خواہش” رکھوں گا اگر کامیاب ہو گیا لکھنے میں-

سوال – نوجوان چونکہ ملک کا مستقبل ہیں آپ کی کیا خواہش ہے کیسے اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردار، ادا کیا جا سکتا ہے؟

جواب-   جو کچھ ان کے پاس ہے اپنی ساری ان پٹ اپنے ملک کے لیے استعمال کریں باہر کے ملکوں کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اپنے ملک میں کام کریں تا کہ ہمارا ملک ترقی یافتہ ہو جائے اپنی مٹی اپنی ہے-

سوال – زندگی گزارنے کے اصول بنائے ہیں؟

جواب-  نہیں ایسا کوئی اصول نہیں بنایا میں تو زندگی کے ساتھ بہتا ہوں جہاں لے جائے زندگی-

سوال- کسی شخصیت نے اگر متاثر کیا کبھی تو ان کی کون سی خوبی بہت پسند آئی جس نے آپ کو بدل دیا ہو؟

جواب –   میرے ایک استاد صاحب تھے یونیورسٹی لائف کے ان سے میں کافی متاثر ہوا ہوں وہ بے باک، صاف گو اور بہترین شخصیت کے مالک انسان تھے ان سے کافی کچھ سیکھا اور اپنی زندگی میں اپلائی بھی کیا-

سوال- ایک استاد کی حیثیت سے آپ بہت اہم کام سرانجام دے رہے ہیں؟ اس شعبے میں آکے کیسا لگا؟

جواب–  پہلے میری سوچ تھی کہ میں اس شعبے میں نہ جاؤں کیوں کہ میں ایک سست طبیعت کا مالک انسان ہوں اور استاد ہونا ایک عظیم زمہ داری کا کام ہے جسے پوری دیانتداری سے نبھانا ہوتا ہے لیکن میری قسمت مجھے اس طرف لے آئی تو الحمد للّٰہ میں مطمئن ہوں اپنے کام سے اور استاد ہونا ایک نعمت سے کم نہیں ہے میں اپنے مالک کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے-

سوال–آخر میں اپنے شاگردوں یا نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

جواب-   جیسے بھی حالات ہوں ہمت نہیں ہارنی اللّٰہ سبحانہ وتعالی نے ہر مشکل کے ساتھ آسانی رکھی ہے اس آسانی کو تلاش کریں، اپنے والدین کی اور بزرگوں کی صحبت میں رہیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور ان احترام کیا کریں دل سے-

سوال- انٹرویو دینا کیسا لگا؟

جواب-بے حد اچھا لگا یہ میرا پہلا انٹرویو تھا-

سوال- اپنی پسندیدہ نظم جو آپ کو بہت پسند ہو ہم سے شئر کریں-

جی کیوں نہیں –

اس لیے بھی دور ہیں ہم منزلوں سے

راستے ملتے نہیں ہیں راستوں سے

عرض بھگوانوں تلک جاتی نہیں ہے

گھنٹیاں چوری ہوئی ہیں مندروں سے

روشنی سے تنگ آ کر پھر کسی دن

ظلمتوں نے جنگ چھیڑی سورجوں سے

میں نے صحرا سے کنارا کر لیا ہے

میری ان بن ہوگئی ہے وحشتوں سے

منتخب کرنا پڑا ہے فاصلوں کو

الجھنیں بڑھنے لگی تھیں رابطوں سے

یہ مجھے اپنا مسیحا مانتے ہیں

اور میں بے زار ہوں ان دوستوں سے

جتنا اس کو سوچتا ہوں قیس میں اب

ایک دن مر جائے گی وہ ہچکیوں سے

قیس لاشاری سے جہاں گفتگو کر کے مجھے بہت اچھا لگا مجھے یقین ہے آپ کو بھی ان کی گفتگو پسند آئی ہو گی-کیونکہ وہ ایک تعمیری سوچ کے مالک ہیں – اور اپنے وطن کے لئے اپنے ملک میں رہ کر بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں اللہ انہیں اپنے اس مقصد میں کامیابی عطا کرے آمین- کیونکہ ہمارے ملک کو ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے-جو نہ صرف اپنے فرائض کو بخوبی ادا کریں بلکہ نئے معماروں میں بھی اپنی مثبت اور تعمیری سوچ منتقل کر کے انہیں بھی محب وطن شہری بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں –

Loading