خلائ آلودگی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جب سے روس نے سپٹنک-1 خلا میں بھیجا ہے تب سے لے کر اب تک انسان خلا میں اتنی اتنی آلودگی پھیلا چکا ہے کہ یہ خطر ناک حد کو چھو رہی ہے اور سب سے زیادہ خلائ آلودگی کو ارتھ آربٹ(LEO) میں ہے۔خلائ آلودگی سے مراد راکٹ اور ٹوٹے اور ناکارہ ہوۓ سیٹلائٹس کا میٹیریل یے۔
خلائ آلودگی کو سب سے زیادہ بڑھاوا اس وقت ملا جب امریکہ نے زمین سے خلا میں سیٹلائٹس کو تباہ کرنے کا تجربہ کیا تھا امریکہ نے یہ تجربہ 1984 میں کیا تھا۔ظاہر سی بات ہے عالمی سپر پاور کی دوڑ میں شامل طاقتیں بھی اب پیچھے نہیں رہ سکتی تھیں کیونکہ ان کے سیٹلائٹس اب امریکہ کے نشانے پر تھے لہذا اسی قسم کا تجربہ چین نے 2007 میں کر دیا اور پھر روس بھی میدان میں کود پڑا اور 2014 میں یہی تجربہ کیا انڈیا بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہا۔انڈیا نے 2019 میں اپنے ہی شکتی مشن کو زمین سے خلا میں نشانہ بنایا لیکن انڈیا نے جب یہ تجربہ کیا تو دنیا بھر سے مذمت کی گئی۔
روس کے سپٹنک-1 کے بعد اب تک 12170 سیٹلائٹس خلا میں بھیجے جا چکے ہیں ان زیادہ تعداد بھی خلائ آلودگی کا باعث بن رہی ہے۔2009 میں ایک ایسا ہی واقعی پیش آیا جب دو سیٹلائٹس آپس میں نے ٹکرا گئیں۔حالیہ تحقیق کے مطابق خلا میں 1cm سے لے کر 10cm کے 900000 ٹکڑے موجود ہیں جو سائز میں تو بہت چھوٹے ہیں لیکن خلائ آلودگی پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
جب انڈیا نے زمین سے خلا میں اپنا مشن تباہ کرنے کا تجربہ کیا تھا تو دنیا بھر سے انڈیا پر تنقید کی گئی اور پھر ایسے قوانین بنائے گئے جو ایسی کارروائیوں کو روکنے کے لیے تھے۔امریکہ نے بھی ایک قانون بنایا تھا جس کے مطابق کوئ بھی ملک 25 سال سے زیادہ سیٹلائٹ سے کام نہیں لے سکتا اسی طرح یورپی خالی ایجنسی کا ارادہ ہے کہ خلا میں ایسے سیارچے بھیجے جائیں جو کم سے کم خلائ آلودگی پیدا کریں۔اسی طرح 1999 میں خلائ ایجنسیوں نے ایمرجنسی کے طور پر خلائ آلودگی کو روکنے کے لیے 29 نقاط پر اتفاق کیا تھا لیکن اپ پڑھ چکے ہیں کہ اس کے بعد ہی چین روس اور انڈیا نے سیٹلائٹ تباہ کرنے کے تجربات کیے تھے
یہ طاقت کے حصول کی جنگ کوئ ملک خلا میں کسی دوسرے ملک پر حکم نہیں چلا سکتا ہمیں بطور انسان ہی سوچنا ہو گا کہ یہ ہمارے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔
مزید ایسی تحریروں کے لیے سائنسی دستور فالو کریں۔