ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ خواتین کو باہمت اور پر اعتماد بنائیے ۔۔۔ انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظیمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ)امی جلدی کریں، بھائی کو بلالیں مجھے کالج کے لیے دیر ہو رہی ہے۔“ ثناء نے جھنجھلاتے ہوئے اپنی والدہ کو آواز دی۔ ارے کچھ صبر کر لو۔ بھائی کو ناشتا تو کرنے دو۔ چھوڑ آئے گا تمہیں، دو قدم پر تو تمہارا کالج ہے“ میرا پیپر ہے آج یہ نواب صاحب تو ناشتا کرنے میں بھی آدھا گھنٹہ لگادیں گے، اگر یہ صاحب پانچ منٹ میں نہیں اُٹھتے تو میں خود ہی کالج چلی جاؤں گی۔“
ثناء کا یہ جواب سن کر اس کی امی کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔
” یہ سنتاہی باقی رہ گیا تھا، اب تم اتنی بہادر ہو گئی ہو کہ اکیلے ہی گھر سے باہر نکلو۔“ ثناء نے مزید کچھ نہ کہا اور بھائی کا ناشتا ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
یہ بات ہمارے ہاں کوئی نئی نہیں کہ لڑکی چاہے جتنی بھی بڑی ہو جائے اسے زندگی کے ہر قدم پر کسی نہ کسی سہارے کی عادت ڈالی جاتی ہے۔ میں بائیس سالہ لڑکی کے آٹھ دس برس کے چھوٹے بھائی کو جب اس کا محافظ قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کا گھر سے نکلنا اس کی ہم راہی سے مشروط ہو جاتا ہے ، تو بھلا خواتین میں کہاں سے خود اعتمادی پیدا ہو گی۔
شعور کی منزل میں قدم رکھنے سے پہلے ہی ہمارے معاشرے میں اکثر لڑکیوں کو یہ رسے باہر سمجھا دیا جاتا ہے کہ وہ ناتواں ہیں، اور بھائی خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو ان کا محافظ ہے۔ جب لڑکی گھر آنے جانے لگتی ہے تو یہی چھوٹا بھائی اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ اس رویے سے اس لڑکی میں خود اعتمادی نہیں رہتی اور وہ زندگی بھر سہاروں ہی کی تلاش میں رہتی ہے۔ پہلے بھائی پھر بیٹا، غرض کہ ہر موڑ پر اسے کسی نہ کسی صورت میں سہارے کی تلاش رہتی ہے۔ اسی وجہ سے لڑکی کی نفسیات میں خود اعتمادی کے بجائے خوف سوار ہو جاتا ہے اور خود انحصاری ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بعض گھرانوں میں ابتداہی سے لڑکیوں کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ مرد کے مقابلے میں کوئی کم تر مخلوق ہیں۔ اسی طرح بچپن سے لڑکوں کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی بہنوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہیں بلکہ ان کے محافظ ہیں۔ بہن بھائیوں میں باہمی محبت اور ایک دوسرے کا احساس ہونا ایک بہت اچھی بات ہے، لیکن ایک کو پر مکمل انحصار کی تربیت دینا درست رویہ دوسرے پر نہیں، کیونکہ جب بھی کسی ایک کو دوسرے پر انحصار سکھایا جاتا ہے تو دوسرے میں احساس برتری کا پیدا ہونا فطری رد عمل ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنے بیٹے اور بیٹیوں دونوں کو یہ تربیت دیں کہ ایک دوسرے کی مدد کرنا اور خیال رکھنا ان کی ذمہ داری ہے اور رشتوں کے ساتھ ذمے داری کا ہونالازمی ہے تو بچوں میں احساس برتری یا کم تری جنم نہیں لے گا۔ موجودہ دور میں خواتین میں تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر خواتین اعلیٰ تعلیم کے باوجود خود اعتمادی سے بڑی حد تک محروم ہیں۔ والدین کی جانب سے لڑکیوں کی تربیت کے لیے اپنائے گئے چند رویے اس کا بنیادی سبب ہیں۔ کئی گھرانوں میں لڑکیوں کو بچپن ہی سے باور کر وایا جاتا ہے کہ وہ کمزور ہیں اور زندگی کی مشکلات کا سامنا نہیں کر سکتیں۔ ابتدائی عمر سے پنپنے والے اس تصور کی وجہ سے کئی خواتین اپنی خود اعتمادی کھو بیٹھتی ہیں اور ساری زندگی جھجک اور بے اعتمادی میں مبتلا رہتی ہیں۔ شادی کے بعد بھی ایسی خواتین میں اعتماد بحال نہیں ہو پاتا۔ یہ رویہ عدم تحفظ کی بنا پر پروان چڑھتا ہے۔ اس عدم تحفظ کے احساس کو خواتین میں اعتماد پیدا کر کے ختم کیا جا سکتا لیکن اس معاملے میں بھی ہمارا معاشرتی بہ تضاد میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ اگر خواتین کو تعلیم کے حصول میں یا دوران ملازمت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، تو ان مسائل کو دور کرنے کے لیے آگے بڑھنے کے بجائے اکثر ان کے پڑھنے لکھنے یا ملازمت کرنے ہی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گھر سے باہر نکلنے والی خواتین خواہ وہ طالبات ہوں ، کام پر جانے والی خواتین ہوں یا کسی بھی کام سے بازار یا رویہ کہیں باہر جانے والی خواتین ہوں۔ وہ کار یا موٹر سائیکل پر جارہی ہوں، بس یار کشہ میں سوار ہوں یا پیدل جارہی ہوں ان سب کا احترام مردوں پر فرض ہے۔ مردوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ راہ چلتی خواتین کا مکمل احترام ملحوظ خاطر رکھیں ان کے لیے کسی قسم کے خوف وہر اس کا سبب نہ بنیں۔ خواتین کے تحفظ کے لیے
خود عورت کی ذمہ داریاں :
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی نے کراچی میں سلسلہ عظیمیہ کے زیر اہتمام ہونے والی ایک نشست میں ہمارے معاشرے میں عورت کو در پیش بعض مسائل و مشکلات کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطاب میں ان مسائل کے موثر حل بھی تجویز کیے۔ عورت کے احترام کے حوالے سے خود عورت کی ذمہ داری پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی نے تقریب میں موجود خواتین سے پوچھا کہ کتنی خواتین اپنے بیٹوں کو یہ بتاتی ہیں کہ وہ گھر سے باہر سب خواتین کا احترام کریں۔ اس سوال پر وہاں موجود بیسیوں خواتین میں سے صرف تین خواتین نے ہاتھ اُٹھائے اور کہا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو ہر مقام پر دوسری خواتین کی عزت و احترام کی مسلسل تاکید کی ہے۔ دراصل پاکستانی عورت کئی مقامات پر شاکی تو نظر آتی ہے لیکن کسی مسئلے کو حل کرنے میں خود اپنی ذمہ داری پر کماحقہ غور نہیں کرتی۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کا کہنا تھا کہ گھر سے باہر لڑکیوں کو ، عورتوں کو مردوں کی بری نگاہوں سے بچنے کا معاملہ ہو یا ان کی طرف سے کسی بدسلوکی کی بات ہو، اس میں قصور وار اس لڑکے یا مرد کی اپنی ماں بھی ہو سکتی ہے۔ مائیں اپنی بیٹیوں کی یابڑی بہنیں اپنی چھوٹی بہنوں کو تو یہ بتاتی ہیں کہ دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھو، مناسب کپڑے پہنو، لوگوں سے بات کرنے میں محتاط رہو لیکن اکثر مائیں اپنے بیٹوں کو یا بہنیں اپنے بھائیوں کو یہ نہیں بتائیں کہ دوسری خواتین یا لڑکیوں کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی شریفانہ اور مہذبانہ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی نے کہا کہ ہر ماں اور بہن کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ گھر میں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو یہ تلقین کرتی رہیں کہ ان کی ذات کسی بھی لڑکی یا عورت کے لیے خوف کا سبب نہیں بننی چاہیے۔ ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کی تربیت کرتے ہوئے انہیں ہر لڑکی، عورت کا احترام کرنا سکھائیں۔ معاشرے کی طرف سے ملنے والا یہ احترام اور تحفظ کا احساس ہی لڑکیوں میں کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کا ایک بہتر ذریعہ بن سکتا ہے۔
نامساعد حالات کے باوجود ہمارے ملک میں خواتین نے میڈیکل فیلڈ، ٹیچنگ حتی کہ فوج اور پولیس سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابیاں حاصل کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر انہیں مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ کسی سے کم نہیں۔ لیکن حیرت ۔ انگیز بات یہ ہے کہ اب بھی بڑی تعداد میں خواتین تعلیم کی بہتر شرح رکھنے کے باوجود عملی زندگی میں اپنا کے موثر کردار ادا نہیں کر پاتیں ۔ اس کی بنیادی وجہ خواتین کی اکثریت میں اعتماد کی کمی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے…..؟
یہ بے اعتمادی معاشرتی رویوں اور امتیازات پر بعد مبنی رسومات کا نتیجہ ہے۔ ان تمام حالات کے بعد بھی بہی کبھی کھیل کے میدان اور کبھی عملی زندگی کے کسی ہے شعبے سے کسی نہ کسی خاتون کا نام سامنے آہی جاتا ہے ۔ نیم حمید اس کی روشن مثال ہیں ، جنہوں نے ساؤ تھ کثر ایشین گیمز میں طلائی تمغہ حاصل کر کے اس بات کو ں ثابت کر دیا کہ اگر ماں باپ اپنی بیٹی پر اعتماد کریں تو کا اُمید کی شمع خراب ترین حالات میں بھی فروزاں رہ سکتی ہے۔ نسیم حمید اور سائکلسٹ سدرہ صدف ، کے علاوہ پاکستان اور دنیا بھر میں سیاست ، معیشت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے قابل ذکر کردار ادا کرنے والی خواتین کی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اہل خانہ اور معاشرے کی جانب سے نے ملنے والے اعتماد ہی کے بل پر پاکستانی خواتین نے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے۔ خواتین کے لیے عملی زندگی میں اپنا کردار ادا کرنے کی راہ میں کئی رکاوٹیں بھی ہیں ۔ انہیں ہر اساں کیا جاتا ہے، کام کرنے کی جگہوں میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے، انہیں مرد ملازمین کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے اور ان سب سے بڑھ کر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کئی کاوشوں کے بعد بھی کئی گھرانوں میں خواتین کا عملی زندگی میں متحرک ہونا اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ خواتین کی اکثریت بھی معاشرتی رویوں کی وجہ سے عدم تحفظ میں مبتلا دکھائی دیتی ہے۔ خواتین میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی کے متعلق آگاہی بہت کم ہے۔ اس حوالے سے ہونے والی قانون سازی کے بعد بھی اس کے اطلاق کے حوالے سے تاخیر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2019