Daily Roshni News

خوبصورت نرس۔۔۔تحریر۔۔۔سیمااعوان۔۔۔قسط 1

خوبصورت نرس

تحریر۔۔۔سیمااعوان

 (قسط نمبر1)

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خوبصورت نرس۔۔۔تحریر۔۔۔سیمااعوان)اس کی ڈیوٹی دس بجے شروع ہوتی تھی ۔ دس بجنے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا مگر یہ اس کی عادت تھی کہ وہ آدھا گھنٹہ پہلے آجاتی اور وارڈ کے ایک ایک مریض سے مزاج پرسی پر کافی وقت صرف کر دیتی وہ اتنے خلوص اور ملائمت سے مزاج پوچھتی کہ مریض کے چہرے پر امید اور خوشی کی لہر یں نمایاں ہو جا تیں وہ نپے تلے قدموں سے برآمدے سے گزر رہی تھی کہ ایک طرف کھڑکی پر کچھ نرسوں کو آپس میں سرگوشیاں کرتے دیکھ کر وہ رک گئی اسے پاس کھڑےدیکھ کر سب نرسیں گڈ مارنگ سسٹر، کہتی ہوئی ادھر ادھر ہوئیں ۔ اس لئے نہیں کہ وہ سخت مزاج تھی بلکہ اس کی شخصیت ہی پروقارتھی ۔ اس کا اصول تھا کام، کام اور پھر کام ، اور وہ کسی کو بھی یوں باتوں میں وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔

آج بھی اسے دیکھ کر سب نرسیں چلی گئیں لیکن نرس فلپا وہاں کھڑی رہی ۔ فلپا بڑی شوخ اور نڈر تھی جو دل میں آتا اسے بیان کر دیتی تھی ۔ اس سے قبل کہ وہ کچھ پوچھتی  فلپاخودہی کہنےلگی۔

سسٹر روبی! وہ جو نیا سول سرجن آیا ہے نا اسے ابھی آپ نے دیکھا نہیں شاید۔

کیوں ؟ کیا کوئی خاص بات ہے اس میں “ سسٹر نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔

”ارے سسٹر!پورا کارٹون ہے آپ خود ہی دیکھ لیں گی‘‘ فلپاہنستی ہوئی دوسری طرف چلی گئی۔

اف ان لوگوں کو تو دوسروں کا مذاق اڑانے کے سوا  کوئی کام نہیں ہے۔ سسٹر بڑ بڑاتی ہوئی وارڈ کی طرف مڑ گئی۔ جب وہ وارڈ میں ایک مریض کو انجکشن لگا رہی تھی تو چھوٹے ڈاکٹر کے ساتھ نئے سول سرجن شاہد لطیفی  داخل ہوئے ۔ اس نے جھکے ہوئے ہی ایک نظر ڈاکٹر لطیفی کی جانب دیکھا – أف! جیسے کوئی کالا سا بھوت آکھڑا ہوا ہو۔ پھرسرنج  نکال کر اور باز وکواسپرٹ کر کے وہ سیدھی کھڑی ہوگئی۔

سوری میں انجکشن لگارہی تھی “

نو سسٹرمس روبی ! فرض کے آگے رسمی باتوں کو اہمیت نہیں دینا چاہئے ۔ روبی نے پھر ایک بار اس کی طرف چور نظروں سے دیکھا ۔ دبلا پتلا جسم جھکے ہوئے شانے اور رنگ ایک دم کالا چہرے پر کسی زمانے کےنکلے ہوئے چیچک کے داغ ،مگریہ  بھی غنیمت تھی کہ ہلکے بلکے تھے سر میں کئی سفید بال جھانک رہے تھے۔ ہاں اس کے چہرے پر موٹے موٹے شیشوں کے پیچھے جھانکتی ہوئی آنکھیں ایسی تھیں جن میں  دلکشی  تھی ورنہ ڈاکٹر  لطیفی بچارے ایسے تھے کہ کوئی لڑکی بھی ان کی طرف دیکھا اپنی  تو ہیں سمجھتی  تھی۔ روبی دل میں بچارہ کہے بغیر نہ رہ سکی جب ڈاکٹر لطیفی  جا چکے تو فلپا نے آکر رولی سے پوچھا ‘‘

سسٹر !ڈاکٹر کیسا ہے دیکھا ہے نا؟

ہاں دیکھا ہے ۔ انسان جیسا ہے روبی نے تلخی  سے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ظاہری حسن ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ قلپا! باطنی حسن کو بھی دیکھنا چا ہئے اور فلپا کھسیانی ہو کر چلی گئی۔

اور واقعی ڈکٹر لطیفی کے پاس باطن کے حسن کی کمی نہ تھی وہ بڑا ہمدرد، نیک دل اور رحم دل ڈاکٹر تھا مریض پہلے تو ان کی شکل دیکھ کر ڈر جاتے مگر جب وہ ان کا علاج کرتے انہیں تسلیاں دیتے اور ان کے زخم دل پر ہمدردی و خلوص کا مرہم رکھتے تو دواؤں سے زیادہ اس کی ہمدردی و خلوص سے آرام پاتے۔

ڈاکٹر لطیفی  گو ظاہری حسن سے محروم تھے مگر ان کی شخصیت بڑی پروقارتھی وہ اپنے فرائض نہایت خوش دلی سے ادا کرنے پر وقار انداز میں آتے اور ہر مریض کو نہایت توجہ سے دیکھتے ۔ اور پیار سے مریض کوتسلی دیتے تھے شفقت آمیز لہجے میں نرس کو ہر مریض کے متعلق مختلف ہدایات دیکر نپے تلے قدم اٹھاتے دوسرے وارڈ کی طرف چلے جاتے ۔ ڈاکٹرلطیفی  بہت کم گو اور تنہائی پسند تھے۔ ہنسا تو جیسے جانتے نہ  تھے کسی بھی ہنسی  کی بات ہو وہ مسکرادیتے روبی کے دل میں ڈاکٹر لطیفی  کے لئے بڑی عزت تھی اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ کسی دن ڈکٹر لطیفی سے پوچھے کہ وہ اتنے خاموش اور رنجیدہ کیوں ہیں؟مگر وہ کچھ نہ کہ سکتی۔

بعض اوقات ڈاکٹر لطیفی  اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھتے اور روبی اس وقت بری طرح گھبرا جاتی۔ ڈاکٹرلطیفی کو یہاں آئے ہوئے تقر یباً ایک  سال ہو گیا اس کی بدصورتی قصہ پارینہ بن چکی تھی اور بلند اخلاق کی وجہ سے ہر کوئی ان کی عزت کرتا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ لطیفی کو غصہ نہیں آتا غصہ تو ہر آدمی کی کمزوری ہے اور کمزوری کس انسان میں نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر لطیفی کو غصہ کبھی نہیں آیا تھا مگر ایک دن جب ڈاکٹر کو غصہ آیا تو اگلی پچھلی کسر نکل گئی اسٹاف سے لیکر مریضوں تک نے اس کے غصہ کا روپ دیکھا ۔ مگروہ اپنے غصے پر حق بجانب بھی تھے کسی مریض کا اس دن آپریشن ہوا تھا اور اسکی حالت انتہائی نازک تھی ڈاکٹر لطیفی اس کے پاس کافی دیر کھڑے رہے کیوں کہ راؤنڈ پر بھی جانا تھا انہوں نے فلپا کو مریض کے پاس بیٹھے رہنے کی سخت تاکید کی اور خود راؤنڈ کے لئے چلے گئے۔

ایک جگہ جم کر بیٹھنا شوخ و شر یرفلپا کی فطرت کے خلاف تھاوہ ڈراویرمیں مریض کے پاس بیٹھنے میں اکتا گئی اور اٹھ کر کمرے میں چلی گئی پھر میز پر پڑے رسالے اٹھائے اور انہیں الٹا پلٹااور واپس  میز پر ڈال دیا۔ مریض کے چہرے پر نظریں جما کر اس میں دلچسپی  لینا چاہی مگر وہ بچارا موت و حیات کی کشمکش میں بے ہوش تھا اس کے پاس بیٹھنا اسے اتنا ضروری نہ  معلوم ہوا۔ اس سے بہتر کام تو کسی نرس یا باغیچے میں ٹہلتے ہوئے کسی مریض سے گپ شپ کا تھا ڈاکٹر کی نظروں سے بچنےکے لئے باغیچہ کی طرف کی کھڑکی کھول کر اس نے ادھر ادھر دیکھا اور دھپ سے دوسری جانب کوئی ڈاکٹر لطیفی کو اس مریض کی بڑی  فکرتھی جو آپریشن کے بعد سے اب تک بے ہوش تھا وہ را ؤنڈ لیکر واپس لوٹے اور آہستگی سے اس کے کمرے کا درواز کھول کر اندر داخل ہوئے تو مریض کر اہ رہا تھا  ڈاکٹر لطیفی   یہ دیکھ کر جھنجھلا گئے

کہ فلپا  مریض کے پاس سے غائب ہے شاید کسی ضرورت سے مجبور اٹھی  ہو انہوں نے سوچامگر جب پانچ دس منٹ بعدبھی فلپا نہ آئی تو مریض کو انجکشن دے کر باہر نکل آئے برآمدے میں دبے قدموں گزرتی ایک نرس کو فلپا  کو بلانے کے لئے بھیجا اور روبی  کو مریض کے پاس بھیج کر وہ اپنے کمرے میں آگئے تھوڑی دیر میں  فلپا مجرم بنی ہوئی دوسری نرس کے ساتھ اس کے سامنےتھی۔

یہ کہاں تھیں انہوں نے دوسری ان سے پوچھا۔

جی باغیچہ میں کسی مریض سے باتیں کر رہی تھیں ۔

 آپ جاسکتی ہیں

 اور وہ نرس  دل ہی دل میں شکر کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔

اب ڈالالطیفی  پشت پر ہاتھ باندھے فلیا کے پاس آکھڑے ہوئے ان کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے ۔

میں نے آپ کو کیا کہا تھا۔ وہ چیخ کر بولے۔

 فلپا نظریں جھکائے خاموش رہی۔ وہ  پھر چیخے۔

میں نے مریض کے پاس رہنے کی ہدایت کی تھی یا باغیچے میں چہل قدمی کو کہا تھا جب آپ فرض کو ادا کرنا نہیں جانتیں تو نرسنگ کرنے کوکس نے کہا تھا آپ بے بس اور مجبور مریضوں سے ہمدردی کے بجاۓ ان سے کھیلتی  ہیں کو ئی امیر آجائے تو ان کے آگے کے گھومیں گی اور اگر کوئی غریب آجائے تو آپ اسے حقارت سے دیکھتی ہیں گویا وہ انسان نہیں اسے جینے کا حق  نہیں  آپ کو معلوم تھا تا کہ یہ مریض ٹھیک ہونے پر آپ کا شکریہ تو ادا کرے گا مگر کوئی تحفہ آپ کی نذر نہیں کر سکے گا ۔ کیونکہ یہ غریب ہے مجھے اسی نرسوں کی ضرورت نہیں جو اپنے فرائض کو نہیں جانتیں۔ ……. دور ہو جائیں میری نظروں سے میں آپ کو ایک لمحہ  بھی یہاں دیکھنا گوارا نہیں کرسکتا۔ چلی جائے ۔

وہ  بری طرح چیخ  رہے تھے اور غصہ سے اپنے شانوں کو بار بار جھٹک رہے تھے بے چاری فلپا کی ساری شوخی ہوا ہوگئی ۔ زندگی میں پہلی بات اسے کسی نے اس بری طرح ڈانٹا تھا۔ جاؤ میری نظروں کے سامنے سے دور ہو جاؤ ۔ وہ ایک  دفعہ پھر چیخنے  اور فلپا بمشکل دروازه کھل کر باہر نکل آئی۔ اس دن سب نرسیں سہمی  ہوئی تھیں ۔ آج پہلی دفعہ سب کو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر کتنے  با اصول اور بلند کردار ہیں ۔

پھر ایک دن ڈاکٹر  صبح ہی صبح پریشان سے چھوٹے ڈاکٹر کے کمرے میں گئے اور پھر تھوڑی دیر بعد باہر نکل آئے اور اپنی لمبی  سی سفید کار میں نجانے کہاں  چلے گئے روبی الجھن  میں پڑ گئی کہ ڈاکٹر کہاں گئے ہیں اور وہ پریشان کیوں تھے اسی طرح  اچانک  چند دن بعد شام کو روبی بڑے اچھے موڈ میں اپنے کوارٹر کے باغیچہ میں پھولوں کو پانی دے رہی تھی تو جب وہ پانی دے کر کھڑی ہوئی تو اپنے پیچھے ڈاکٹر کو کھڑے دیکھ کر بوکھلا گئی ۔

مارے گھبراہٹ کے اس کے ہاتھوں سے پانی دینے کا فوارہ چھوٹ گیا۔

آ پ وہ اتنا ہی کہ کی۔

کیوں آپ کو میرا آنانا گوارگزرا ہے ڈاکٹر نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

نہیں نہیں ڈاکٹر میرا مطلب ہے آپ کہیں گئے ہوئے تھے نا۔ اس نے بات بنائیاور نہ وہ ان کو دیکھ کر ایک دم ڈرگئی  تھی تشریف رکھئے ، ڈاکٹر ! اس نے پھولوں کے قریب پڑی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کیا

شکر یہ۔۔ اس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا الجھے ہوئے بال سفید کپڑوں پر گردوغبار کی ہلکی سی تہ اس دن کی طرح پریشان شاید وہ ابھی کہیں سے آرہے تھے ڈاکٹر کو چائے کی ضرورت ہے تاکہ سفر کی کسلمندی دور ہو جائے روبی نے سوچا اور اندر جا کر خانساماں کو چائے لانے کا کہہ کر آئی۔

واپس آئی تو ڈاکٹر نے کرسی کی پشت پر سر ٹیک کر آنکھیں بند کر رکھی تھیں ۔ شاید وہ بہت تھک گئے تھے خانساماں چائے لیکر آیا تو رو بی نے اپنے پاس پڑی چھوٹی سی تپائی پر چائے کی ٹرے رکھ کر ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کیا،

ڈاکٹر صاحب چاۓ ۔

 ڈاکٹر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے ۔

اسکی کیا ضرورت تھی ؟

کوئی بات نہیں آپ تھکے ہوئے ہیں چائےسے تھکن دور ہو جائے گی اور چائے پیتے ہوئے وہ خلا میں دیکھتے رہے۔ آپ کہاں چلے گئے تھے۔

وہ روبی  کے سوال سے ایک دفعہ پھر چوکے۔

 میں۔۔۔۔ میں گاؤں گیا تھا میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے مس روبی ۔

 اوہ۔۔۔ اسے ایک دم بیحد دکھ ہوا۔ اس وسیع دنیامیں ایک ماں کی ہستی تھی جسے میرے۔۔۔۔۔جاری ہے

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013

Loading