Daily Roshni News

خوبصورت نرس۔۔۔تحریر۔۔۔سیما اعوان۔۔(قسط نمبر 2)

خوبصورت نرس
تحریر۔۔۔سیمااعوان
(قسط نمبر 2)
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خوبصورت نرس۔۔۔تحریر۔۔۔سیما اعوان)ساتھ والہانہ پیار تھا۔ جس کے نزدیک میں بدصورت ہوتے ہوئے بھی چاند تھا ڈاکٹر جیسے اپنے آپ کو کہہ رہے تھے مائیں بھی اگر مجھ جیسوں سے نفرت کریں تو یہ اپانی ، معذور، اندھے، گونگے بہرے انہیں کون پیار کرے گا انہیں اس وسیع دنیا میں کون پناہ دے گا انہیں سینے سے کون لگائے گا ان کو اگر پناہ ملی تو ماں کی آغوش میں انہیں کسی نے سینے سے لگایا تو ماں جیسی شفیق ہستی نے ، آہ میں بھی ماں کی گود میں سر رکھ کر ہر غم بھول جاتا تھا وہ بیٹے کے سہارے کی آرزو سینے میں لئے ہمیشہ کے لئے مجھے تنہا چھوڑ گئیں اب کون مجھے تسلی دے گا کون مجھے سمجھائے گا وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے روبی کی آنکھیں تو پہلے ہی چھلک رہی تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ غم کی شدت سے ڈاکٹر پاگل ہو رہے ہیں وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اچھا مس روبی ! میں معافی چاہتا ہوں خواہ مخواہ آپ کو رنجیدہ کیا۔ نہیں ڈاکٹر ! مجھے تو خوشی ہوئی آپ نے مجھے اس قابل سمجھا کہ اپنا دکھ کہہ کر دل ہلکا کر لیا۔ ہاں میں روبی ! ماں کے بعد آپ میری زندگی میں پہلی عورت ہیں جس کی آنکھوں میں میں نے اپنے لئے ہمدردی دیکھی ۔ دوسروں کی طرح آپ نے میرا مذاق نہیں اڑایا ۔ مجھ پر فقرے نہیں کے ، پھر وہ روبی کی طرف گہری نظروں سے دیکھ کر کہنے لگے میں نے کئی دفعہ چاہا تم سے درخواست کروں کہ میری زندگی کی ہمسفر بن جاؤ پھر تم کو لیکر اپنی ماں کے پاس جاؤں جسے بہو کی کتنی آرزو تھی بد قسمتی سے کسی نے بھی اس کے بدصورت بیٹے کی زندگی کی ساتھی بننا گوارہ نہیں کیا اگر کسی نے گوارا بھی کیا تو میری دولت دیکھ کر بڑی بڑی رقم کا حق مہر لکھوانا چاہا۔ مگر مجھے تو ایسی بیوی چاہئے تھی کہ جو زندگی سے زندگی میں رنگ بھر دیتی ، میرے دکھ درد میں شریک رہتی لیکن ہمت نہیں پڑی کہ میں تم سے یہ سب کہتا مجھے ڈر تھا کہ کہیں تمہاری ہمدردی بھی نفرت میں تبدیل نہ ہو جائے۔ اور روبی نگاہیں جھکائے چہرے پر حیا کی سرخی لیے سنتی رہی سوری روبی میری بات آپ کو ناگوار گزری ہو تو میں معافی چاہتا ہوں اور وہ روبی کو وہیں پریشان چھوڑ کر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے باہر چلے گئے ۔ روبی رات بھر نہ سوسکی وہ سوچتی رہی یہ ڈاکٹر دوسروں کے زخموں پر تو مرہم رکھ سکتا ہے مگر اس کے زخم پر کوئی مرہم رکھنے والا نہیں یہ اپنے سینے میں کتنا بڑا زخم چھپائے ہوئے ہے اسے ڈاکٹر کے درد کا احساس تھا کیوں کہ خود اسکا دل بھی ایک گہری چوٹ کھایا ہوا تھا وہ یونہی چھت کو گھورتی ہوئی اپنے ماضی میں کھو گئی ۔ ماضی جو لوٹ کر نہیں آتا مگر جس کی حسین اور تلخ ان مٹ یادیں آدمی کو ہمیشہ ستاتی رہتی ہیں۔ جب اس نے دوسرے بچوں کی طرح اپنے نتھے منے پاؤں سے چلنا چاہا تو اسکی ٹانگیں لڑ کھڑا گئیں۔ اس کی ممی نے سوچا کہ ابھی اس نے چلنا سیکھا ہی نہیں ہاتھ پکڑ پکڑ کر اسے چلاتی مگر وہ گر پڑتی ، ۔ پھر اس نے چھ سات ماہ بعد بھی چلنا نا سیکھا تو اسکی ممی کو بہت فکر ہوئی اسے ایک دن کار میں شہر کے سب سے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گئیں اتنا بڑا ڈاکٹر بھی کچھ نہ سمجھ سکا ، ابھی یہ چھوٹی اور کمزور ہے اس لیے شاید چل نہیں سکتی آپ فکر نہ کریں ٹھیک ہو جائے گی ۔ مگر ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں بدل گئے روبی نہ چل سکی اس کے ڈیڈی ریٹائرڈ حج تھے۔ خاندانی دولت مند تھے وہ روبی کو کہاں کہاں نہیں لے گئے ۔ معالج نے کہا: رگوں میں خون جم گیا ہے کبھی خود ہی ٹھیک ہو جائے گی پر وہ نہ ٹھیک ہوئی جب اس نے ہوش سنبھالا تو اپنے ہم عمر بچوں کو کھیلتے کودتے دیکھ کر اس کا ننھا سا دل بری طرح مچلتا۔ مگر یہ اس کے بس کی بات تھی اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا ڈیڈی نے اسے مستقل ما سر رکھ دیا تھا جو اسے ہر مضمون پڑھاتا اور پرائیویٹ امتحان دلاتا۔ مستقل روگ نے روبی کو بڑا سنجیدہ، خاموش اور تنہائی پسند بنا دیا اور شاید یہ خاموشی اور تنہائی کا ہی اثر تھا کہ روبی شاعری کرنے گئی ۔ روبی اس کا مخلص تھا ۔ روبی اپنے انوکھے بچپن کو پیچھے چھوڑ کر الھڑ جوانی کی منزل میں داخل ہو گئی مگر اس کے دل میں نہ جوانی کے مچلتے جذبات تھے اور نہ نت نئی امنگیں اور تمنائیں میں نے اسے بتایا تھا جب تم پیدا ہو ئیں تھیں تو تمہاری خالہ نے تمہیں اپنے بیٹے سلیم کے لئے مانگ لیا تھا مگر جب یہ پتا چلا کہ تم چل نہیں سکتیں تو انکار کر دیا ، اس وقت سے میں نے اپنی بہن کا منہ نہیں دیکھا یہ سن کر دل اور زیادہ اداس ہو گیا اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ایک دن رو بی اپنے کمرے میں کرسی پر بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی اس نے یونہی پیر نیچے رکھا اس کا پیر پہلے کی طرح سے کانپ انہیں روبی نے تعجب سے پیروں کی طرف دیکھا اور دھڑکتے دل کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔ اس کی ٹانگوں نے اس کا بوجھ سنبھال لیا جب وہ چلی تو ذرا لڑکھڑا سی گئی مگر پھر سنبھل گئی وہ آگے بڑھی اور پھر اور آگے … اس کی انگیں کانپ ضرور رہی تھیں مگر وہ گری نہیں۔ ممی ا وہ زور سے چیچنی ممی ! اور ڈیڈی دوڑتے ہوئے آئے روبی کو بغیر کسی کے سہارے کھڑے دیکھ کر وہ وہیں دروازے پر کھڑے رہ گئے ۔ می میں ٹھیک ہو گئی ہوں ڈیڈی میں چل سکتی ہوں ۔ ہ ڈیڈی کی طرف بڑھی اور ڈیڈی نے اسے دوڑ کر یوں وہ ۔ پکڑ لیا جیسے پہلی دفعہ پاؤں چلتے بچے کو اس ڈر سے پکڑلیتے ہیں کہ وہ گر نہ جائے ملی وہیں سجدے میں گر گئیں اور – ڈیڈی اسے سینے سے لگائے ہچکیاں لے رہے تھے۔ کئی ماہ تک گھر میں جشن کا سماں رہا ایسے میں خالہ بھی آئیں ممی اور ڈیڈی کے قدموں میں سر رکھ کر روبی کو مانگار و بی نے پہلی دفعہ سلیم کو دیکھا وہ سچ مچ اس کے خوابوں کے شہزادے کی مانند تھا مگر روبی نے انکار کر دیا۔ همی ! وہ رودی میں اب نرس بنوں گی اور اپنی ۔ ساری زندگی دوسروں کی خدمت میں گزار دوں گی ۔ میں کسی ٹوٹے دل کا سہارا بنوں گی ممی ۔“ اور پھر پھر وہ نرس بن گئی آج اسے ایک ٹوٹا ۔ دل تو ملا تھا پر وہ … وہ اس کے تصوراتی شہزادے سے ر ہے کتنا مختلف تھا وہ کچھ فیصلہ نہ کر سکی۔ ڈاکٹر اب اکثر اس کے پاس آتا وہ بھی ایک دو دفعہ اس کے گھر جا چکی تھی وہ ڈاکٹر تھا اور وہ نرس ۔ ان -کے پاس اتنا وقت کہاں تھا کہ وہ گھنٹوں بیٹھے باتیں کیا کریں یونہی شام کو ڈاکٹر ٹہلتا ٹہلتا روبی کے باغیچے میں آنکلتا یہاں روبی اکثر اسے کسی کام میں مصروف ملتی روبی کو ہر دفعہ ڈاکٹر کی آنکھوں میں خاموش درخواست اور التجا نظر آتی اور وہ کشمکش میں پڑ جاتی ادھر ہسپتال میں ان کے -متعلق دبی دبی سرگوشیاں بھی شروع ہو گئیں تھیں ۔ اور پھر ۔ ایک دن ڈاکٹر نے اپنی آنکھوں کی خاموش درخواست دھڑکتے دل کے ساتھ روبی کے آگے دہرادی اور روبی ایک دم سرخ ہوگئی اور وہ صرف اتنا کہ سکی ۔ 12 ڈاکٹر میں اپنے والدین سے اجازت تو لے لوں. اور ڈاکٹر اس دن بڑا مسرور تھا۔ روبی نے دوسرے دن مجھی کو خط لکھا۔ می! زندگی کے اتنے سالوں بعد مجھے ایک ٹوٹے دل کا آدمی ملا ہے جو واقعی صحیح معنوں میں انسان کہلانے کا مستحق ہے میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ میں کسی ٹوٹے دل کا سہارا بنوں گی ڈاکٹر بھی میری طرح ایک دکھی انسان ہے تو ممی میں آپ کی اور ڈیڈی کی اجازت کی منتظر ہوں ہمارا نکاح یہیں خاموشی سے ہوگا۔ پھر ہم دونوں جلد آپ کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوں گے ۔ کیا میں امید کروں گی کہ آپ اور ڈیڈی میری اس گستاخی کو معاف کرتے ہوئے جلد اپنی اجازت سے آگاہ کریں گے۔ آپ کی روبی. روبی کی خوشی ڈیڈی ممی کی زندگی تھی ۔ وہاں سے جلد ہی اجازت کا خط آگیا۔ اور پھر دوسرے ہی دن ڈاکٹر نے اپنے اسٹاف کو سادہ سی پارٹی دی اور روبی سے منگنی کا اعلان کرتے ہوئے روبی کو ایک چمکتی ہوئی خوبصورت انگوٹھی پہنا دی۔ سب ڈاکٹر اور نرسیں دانتوں میں انگلیاں دبا کر رہ گئے ۔ ایک دن رات کو فلپا روبی کے پاس آتے ہی اہل پڑی۔
روبی سٹر ! آپ کہاں ، ڈاکٹر کہاں ! آپ تو سچ سچ ہیرا ہیں اور ڈاکٹر آپ کے سامنے ایک پتھر کی مانند وہ دراصل ڈاکٹر کی اس دن سے دشمن بن گئی تھی جس دن ڈاکٹر نے اسے ڈانٹا تھا۔ روبی سسٹر ! آپ تو شاعرہ ہیں اور شاعر ہر چیز میں حسن دیکھنا چاہتا ہے۔ میں نے بھی فلپا ڈاکٹر میں باطن کا حسن دیکھا ہے اس کا باطن میرے ظاہری حسن سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے اگر میرا حسن ہیرے کی مانند چمک دمک رکھتا ہے تو ایسا حسن تو ہزاروں کے پاس ہے مگر ڈاکٹر کا دل ایک انمول ہیرا ہے۔ اور ڈاکٹر کی طرح دل رکھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ فلیپا ! ظاہری حسن تو چند روزہ چیز ہے مگر باطن کا حسن تو ہمیشہ قائم رہتا ہے یہ جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی اس پر نکھار آتا ہے اور خوبصورت اور پر وقار ہوتا رہتا ہے۔ شاعر ہمیشہ قائم رہنے والے حسن کو پسند کرتے ہیں نا! ایسے حسن کو پسند نہیں کرتے جو وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتا ہے اور پھر ایک حسین شام کو روبی کا ایک سادہ مگر نہایت پر وقار تقریب میں نکاح ہو گیا مریضوں نے دل کھول کر روبی اور ڈاکٹر پر پھولوں کی بارش کی جن میں پیار اور عقیدت کے پھول بھی تھے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013

Loading