Daily Roshni News

خوش رہیئے صحت مند لمبی عمر پائیے

خوش رہیئے

صحت مند لمبی عمر پائیے۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خوش رہیئے صحت مند لمبی عمر پائیے)ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ خوشی اور مسرت کا احساس انسان کی عمر میں اضافہ کرتا ہے۔ ایک خوش گوار ازدواجی زندگی اور مثبت سوچ عمر میں اضافے کا سبب ہوتی ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونا، زیادہ دوست رکھنا، لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور مناسب خوراک کااستعمال انسان کی زندگی کے کم از کم میں سال بڑھا دیتا ہے۔ دوسری طرف سگریٹ نوشی یا ناخوش گوار شادی شدہ زندگی زندگی کے ہیں سال کم کر دیتی ہے۔ کئی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ طرز زندگی میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں کر کے عمر میں آٹھ سے دس سال تک اضافہ ممکن ہے مثلا دن میں دو تین مرتبہ چائے کا استعمال زندگی کے چار سال بڑھا سکتا ہے۔ برطانیہ میں عورتوں کی اوسط عمر تقریباً 80 جبکہ مردوں کی اوسط عمر 75 سال ہے، اس تفریق کی ایک بڑی وجہ مردوں اور عورتوں کی عادات اور طرز زندگی کا فرق ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ دن میں دو کپ چائے اور ایسے پھل کھائیے جن میں اینٹی آکسیڈنٹ اجزاء ہوتے ہیں جیسے سیب کھانے سے عمر میں تقریبا چار سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چائے میں ایسے اجزاء کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں جو انسان میں کینسر سے بچاؤ کی قوت پیدا کرتے ہیں اور بیماریوں کےخلیف انسان کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتے ہیں۔ امریکہ کی پہلے یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق میں ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو لوگ زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں عام طور پر ان کی عمریں کم پڑھے لکھے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہیں۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والوں اور یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے والوں کی عمروں میں تقریباً آٹھ سے نو سال کا فرق نمایاں طور پر دیکھا گیا ہے یعنی زیاد و پڑھے لکھے افراد نو سال زیادہ زند دور ہتے ہیں۔

اسی طرح ایسے افراد جو خوش گوار خاندانی زندگی گزارتے ہیں، روزانہ باقاعدگی سے ناشتہ کرتے ہیں، ہلکی پھلکی سیر کرتے ہیں۔ ان کی یہ عادات بھی عمر میں اضافے میں مددگار ہوتی ہیں۔

پہلے یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ جو لوگ یہ سب کچھ نہیں کرتے وہ کم از کم اپنی سوچ کو ضرور ثبت رکھیں۔ زندگی کے روشن پہلوؤں کو سامنے رکھیں، ذراذراسی باتوں پر کڑھنا چھوڑ دیں اور بنتے مسکراتے رہیں۔

ایک مطالعے کے مطابق ایسے افراد جو خوش باش زندگی گزارنے کے عادی ہوتے ہیں وہ اداس اور مضمحل رہنے والوں کے مقابلے میں تقریب سات سال زیاد و زندور ہے ہیں۔ ماہرین نے اپنی رپورٹ کے آخر میں متوسط طبقے کے سادہ مگر مطمئن اور خوش رہنے

والے جوڑوں کو خوش خبری سنائی ہے کہ آپ کی عمر میں نو سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

ایک امریکی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایڈورڈ نے بیان کیا ہے کہ ہماری خوشیوں کا تعلق جسمانی، ذہنی اور اعصابی نظام سے ہے۔ خوشی کا تعلق، دولت یا خاندانی پس منظر سے نہیں۔ ایک مزدور بھی ویسی ہی خوشی سے ہمکنار ہو سکتا ہے جو ایک کروڑ پتی اپنی قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر محسوس کرتا ہے۔

ایک جرمن فلاسفر نے خوشی کے موضوع پر اپنے مخیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے۔ “جولوگ حقائق کو فراغ دلی کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں۔

ان کے دامن خوشی سے بھر جاتے ہیں۔“ایک اہم بات یہ کہ انسانی زندگی میں مقاصد بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ جو لوگ اعلیٰ مقاصد کے لیے جیتے ہیں۔ جن لوگوں کو اپنے مقاصد سے پیار ہوتا ہے، وہ نامساعد حالات میں بھی خوشی پالیتے ہیں۔ جو لوگ دوسروں کی خوشی کی خاطر خود دکھ اٹھاتے ہیں، دوسروں کو خوش کرنے کے طریقے سوچتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے لیے خوشیاں سمیٹتے ہیں۔

ہم اپنی زندگی میں خوشیوں کے مختلف مناظر دیکھتے ہیں۔ ایک شاعر کو شاعری میں، مصور کو رنگوں میں، صوفی کو ذکر و عبادت میں، مزدور کو محنت میں، دہقان کو اپنی فصلوں میں، سپاہی کو میدان جنگ میں کھلاڑی کو میدان میں خوشی ملتی ہے۔ کوئی خلوت میں تو کوئی جلوت میں خوشی پاتا ہے۔ کسی کو محفلوں میں خوشی محسوس ہوتی ہے تو کوئی خوشی کے لیے جنگلوں، وادیوں میں گھومتا ہے۔ کوئی مال ودولت ، جاہ و منصب میں تو کوئی غور و فکر اور سیاحت میں خوشی پاتا ہے۔ شادمانی کے حصول کا سبب کوئی بھی ہو، یہ بات

طے شدہ ہے کہ اس کا تعلق مال و زر اور سامان طرب سے نہیں۔ خوشی ایک ذہنی سوچ اور جذباتی کیفیت ہے۔ زندگی اگر بغیر کسی نظام و مقصد کے بسر کی جائےتو اس میں رونما ہونے والے خوشیوں کے لمحات عارضی ہوتے ہیں۔ ایک دانش ور کا قول ہے: خوشی کوئی پالتو پر زندہ نہیں، جو ہر وقت ہمارے پنجرے میں بند رہے، بلکہ یہ وہ طائر بلند و پرواز ہے جس کو قابو میں لانے کے لیے نفس کشی کی ضرورت ہے۔“

ایک اور فلاسفر نے کہا ہے خوشی کے حصول کے لیے ہمیں ماضی کی تلخیاں، دوسروں کے ستم اور اپنی ناکامیاں فراموش کر دینی چاہئیں۔“

خوشی کا حصول بہت آسان اور سادہ سی بات میں پوشیدہ ہے۔ ہمیں ایک چھوٹے سے گھر اور سادہ خوراک کے علاوہ دوسری مادی اشیاء کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خوشی کا تعلق ان چیزوں سے نہیں ہے۔ خوشی تو انسان کی سوچ اور دل کے گوشوں میں موجزن ہوتی ہے۔ خوف خوشی کی ضد ہے اور انسان نے بہت سے خوف پال رکھے ہیں۔ موت، ناکامی اور نقصان کا خوف انسان کو بے قرار رکھتا ہے۔ “کسی تکلیف کو چلتے مسکراتے برداشت کرتے رہنے سے زندگی آرام دہ ہو جاتی ہے۔

کوئی وجہ نہیں کہ اس دنیا میں زندگی کو مسرتوں سے ہمکنار نہ کیا جاسکے۔ اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ رکاوٹیں صرف انسانی ذہن میں ہیں۔ ان کا علاج صحیح فکر اور یقین محکم میں ہے۔ خوشی انسان کی اپنی ذات میں چھپی ہے، بس انسان کو اس خوشی کو کھوجنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2022

Loading