خیالات کی دنیا
تحریر۔۔۔۔۔۔۔طاہر محمود
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔خیالات کی دنیا۔۔۔تحریر۔۔۔طاہر محمود)قانون منکشف ہوتا ہے کہ شے کی مضبوطی کا تعلق فرماں برداری اور نافرمانی کے نظام سے ہے۔ دھا تیں اور دیگر عناصر چاہے کتنے مضبوط ہوں ،بکھر جاتے ہیں۔ حفاظت کرنے والی ذات اللہ ہے۔
خیالات کہاں سے آتے ہیں؟ ماحول ان سے کس طرح متاثر ہوتا ہے؟ ہم ان کو کس میکانزم کے تحت قبول کرتے ہیں؟ خیال کو ارادہ میں تبدیل کرنے کا کیا میکانزم ہے ؟ خیال پر نیت کے کیا اثرات ہیں؟ کن خیالات پر عمل سے اللہ کی قربت ملتی ہے؟ ہر کوئی ان سوالات کے جواب تلاش نہیں کرتا! خوش قسمتی سے اللہ کے دوست کا قرب میسر آ جائے تو وہ آدمی کی توجہ باطنی دنیا کی طرف کر دیتے ہیں اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ خیال ہی مکمل دنیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور جس کے تابع ہو کر افعال و اعمال انجام دیتے ہیں ۔ ابدال حق قلندر بابا اولیا فرماتے ہیں،
ہر چیز خیالات کی ہے پیمائش
ہیں نام کے دنیا میں غم و آسائش
تبدیل ہوئی جو خاک گورستان میں
سب کوچہ و بازار کی تھی زیبائش
خانواده سلسلہ عظیمیہ، عظیمی صاحب رباعی کی تشریح بیان کرتے ہیں،
انسانی نگاہ کے سامنے جتنے مناظر ہیں وہ شعور کی بنائی ہوئی مختلف تصویریں ہیں ۔ یہ تذکرہ ہو چکا ہے کہ دیکھنے کی یہ طرز مفروضہ ہے۔ اس لئے اس کے مشاہدات و تجربات بھی مفروضہ ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہ ایک ہی چیز ایک آدمی کے لئے خوشی اور دوسرے کے لئے غم کا باعث ہوتی ہے۔ ایک چیز کے بارے میں مختلف لوگوں کی سینکڑوں مختلف آرا ہوتی ہیں حالاں کہ حقیقت ایک اور صرف ایک ہوسکتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ہماری نگاہ کے سامنے مظاہر میں ہر وقت تغیر ہوتا رہتا ہے۔ آبادی ویرانہ میں اور ویرانہ آبادی میں بدل جاتا ہے۔ یہ متغیر دنیا کس طرح حقیقی ہے ۔ حقیقت میں تغیر نہیں ہوتا ۔ “
قرآن کریم میں ارشاد ہے،
تم اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقررہ راستہ سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔ (فاطر : ۴۳)
قطع نظر اس کے کہ اطلاع کے مدارج پر بات کی
جائے جن کو واہمہ، خیال، تصور، احساس اور مظاہرہ کہا جاتا ہے، ہم قارئین کی آسانی کے لئے لفظ “خیال”پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ یونی ورسٹی میں علوم کے مختلف شعبےہیں۔ اسلامیات کا شعبہ الگ ہے۔ معاشیات، ریاضی، طبیعیات، ارضیات اور جغرافیہ کے شعبے الگ ہیں ۔ اسی طرح خیال بھی مختلف شعبوں پر مشتمل ہے۔ ان کی قبولیت کا تعلق ذہن کی وسعت نظری اور تنگ نظری . کے ساتھ ہمارے چاہنے اور نہ چاہنے پر ہے۔
مثلاً میں چاہتا ہوں کہ چائے بنائی جائے۔ حافظہ میں چائے بنانے کا طریقہ خیال کے ذریعے دماغ کی اسکرین پر آ جاتا ہے کہ کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لئے کتنی مقدار میں دودھ، پتی چینی اور پانی ڈالنا ہے۔ آنچ تیز رکھنی ہے یا ہلکی ، پانی کے گرم ہونے کے کتنی دیر بعد پتی اور چینی ڈالنی ہے اور پتی پکنے کے بعد دودھ کب شامل کیا جائے۔
ہر وہ کام جو معاشرہ سے سیکھا ہے، میرے حافظہ میں ریکارڈ ہے اور میں اس کے مطابق عمل کرتا ہوں ۔ جو شے حافظہ میں ہے ، فی الواقع وہی میرا شعور ہے اور جو شے حافظہ میں نہیں ، وہ میر الا شعور ہے۔ یاد کرنے کی کوشش پر بات یاد نہ آئے تو ہم کہتے ہیں کہ بھول کے خانہ میں چلی گئی۔ بھول کا خانہ کیا ہے؟ خیالات کی ذمہ داری اطلاع کو لانے اور لے جانے کی ہے۔
ذہن میں جو ماحول قائم ہے، اس کے مطابق ہم خیال میں معنی پہناتے ہیں۔ گھر میں پریشانی ہے تو آفس میں مصروفیت کے باوجود ذہن پریشان ہوتا ہے اور بعض اوقات ہم صحیح باتوں کا غلط مطلب سمجھ لیتے ہیں۔ خیال کی ہم نے جس طرح پیمائش کی ، آنکھ نے اس کو ذہن کے مطابق دیکھا۔ خیال اپنی اصل میں مقدار پر قائم ہے۔ اگر کسی خیال میں ریگستان کی تصویر ہے تو ریگستان کی تصویر بنتی ہے۔
بنیادی تقاضوں سے متعلق خیالات آدمی اور جانور دونوں میں مشترک ہیں۔ ہم زمین پر حاکم ہوتے ہوئے بھی محکوم ہیں اس لئے بھوک پیاس اور اغراض کے ہاتھوں مجبور ہیں ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ جانور اور آدمی کو آنے والے خیالات یکساں ہیں چاہے ان تقاضوں کا تعلق جبلت سے ہو یا فطرت سے غور کرنے پر عقدہ کھلتا ہے کہ مخلوق کی سطح پر سب ایک ہیں ۔ آدمی نے اچھا گھر تعمیر کر لیا تو کیا ہوا۔ بیا، شہد کی مکھی ،ہمکڑی اور بعض دوسری مخلوقات کے فن تعمیر کو دیکھ کر آپ سرا ہے بنا نہیں رہیں گے کہ یہ انجینیئر نگ کے شاہ کار ہیں۔ بیا پرندہ جن خیالات کی راہ نمائی میں گھر بناتا ہے وہ آندھی اور طوفان میں بھی قائم رہتا ہے جب کہ آدمی کے بنائے ہوئے بہترین گھروں کی چھتیں اڑ جاتی ہیں۔ بیا اور آدمی دونوں کو گھر بنانے کا خیال آتا ہے۔ آدمی خیال میں معنی پہناتا ہے، بیامعنی نہیں پہناتا اس لئے تنکوں۔۔۔جاری ہے۔