Daily Roshni News

درودشریف اہل محبت کا وظیفہ ہے۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کشف سے مراد پردے کا اٹھ جانا ہے۔ اِسی سے مکاشفہ ہے۔ بندہ جیسے جیسے نفس کی کدورتوں، رزائل اور کثافتوں سے پاک ہوتا چلا جاتاہے ویسے ویسے قلب کا تصفیہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں مومنین اور صالحین کو صفائے قلب نصیب ہوتا ہے اور دل کا آئینہ گناہوں کی گرد و غبار سے اجلا ہو کر حق کی تجلیوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ قرآن مجید میں کشف کا لفظ کچھ اس معنی میں آیا ہے:

لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌoقٓ، 50: 22

حقیقت میں تُو اِس (دن) سے غفلت میں پڑا رہا سو ہم نے تیرا پردۂِ (غفلت) ہٹا دیاپس آج تیری نگاہ تیز ہے۔

1۔ کشف اور حجابات

حجابات مختلف اقسام کے پردے ہیں جو انسان کے دل پر پڑے ہوئے ہیں۔ اِن حجابات کو دور کئے بغیر روحانی ترقی ممکن نہیں ہوتی۔ اِن حجابات کے علاوہ مختلف انواع کی سیاہیاں بھی ہیں جو اَعمال سیئہ اور برے اخلاق کے نتیجے میں دل کو سیاہ کرتی ہیں۔ ان سیاہیوں کے علاوہ دل کے درج ذیل زنگ بھی ہیں جو انسانی دل پر چھائے ہوئے ہیں:

(1) غین

یہ دِل پر چھانے والے زنگ میں سے ہلکی قسم ہے، جس میں دل پر چھوٹی موٹی گرد و غبار پڑ جاتی ہے۔ یہ نہایت ہلکا حجاب ہوتاہے۔

(2) غیم

یہ غین سے زیادہ کثیف حجاب ہوتا ہے۔

(3) ران

غیم سے کثیف حجاب کو رَین اور ران کہتے ہیں۔

اِن حجابات کا ذکر قرآن مجید اور احادیثِ نبوی میں مختلف حوالوں سے آیاہے۔ ان حجابات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بندے کو علم ہو کہ دل پر چھانے والا حجاب کس نوعیت کا ہے؟ وہ حجاب کتنا پتلا اور کتنا زیادہ سخت ہے۔ حجابات کے اٹھنے کے عمل کورفعِ حُجب کہتے ہیں۔ جب ہماری آنکھوں کے سامنے ایک پردہ بھی پڑا ہو تو ہمیں واضح نظر نہیں آتا۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر پردہ اٹھا دیں تو کیا ہو تاہے؟ جو کچھ ورائے حجاب یعنی پردے کے پیچھے تھا وہ سب کچھ نظر آنے لگ جاتاہے۔ یہ پردے کیسے اُٹھتے ہیں؟ دراصل یہ سب کشف ہی کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔

 جس طرح جسمانی کان، آنکھیں اور زبان ہوتے ہیں، عین اِسی طرح قلب کی بھی آنکھیں، کان اور زبان ہیں۔ قلب اپنی زبان سے اللہ کا ذکر کرتاہے۔ قلب اپنے کانوں سے مخاطبات اور فرشتوں کے کلمات کو سنتاہے۔ اِسی طرح قلب اپنی آنکھوں سے مغیّبات یعنی غیب کی چیزوں کو واضح طور پر دیکھتا ہے جنہیں سر کی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ قلب (دل) پر چونکہ چھوٹے، بڑے، ظاہری اور باطنی گناہوں، برے عقائد و خیالات، بری باتوں، شہوات اور طرح طرح کے حجابات پڑے ہوئے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ غفلتوں، اعلیٰ کاموں کو چھوڑ کر ادنیٰ کام کرنے اور مباحات کی کثرت جیسے اعمال کے پردے حائل ہوتے ہیں؛ لہٰذا جیسے جیسے ریاضات و مجاہدات اور اعمالِ صالحہ کے نتیجے میں گناہوں کی سیاہی دھلتی چلی جاتی ہے، ویسے ویسے دل سے پردے اور حجابات بھی اُٹھتے چلے جاتے ہیں۔

قرآن مجید میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا.

العنکبوت، 29: 69

اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔

راستوں کے کھول دینے سے مراد انہی حجابات کا اٹھا دینا اور انہی راستوں کا کھلنا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جب پردے اٹھتے ہیں تو تبھی راستے کھلتے ہیں۔ سو اس بنیادی تصور کا نام ہی ’کشف‘ اور ’مکاشفہ‘ ہے۔

2۔ قرآن مجید میں لفظ ’کشف‘ کا استعمال اور اس کے معانی

قرآن مجید میں کشف کو جن معانی میں استعمال کیا گیا ہے، آئیے! ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

(1) غفلت کا پردہ اٹھ جانا

قرآن مجید نے سورۃ ق کی آیت نمبر 22 میں اِس لفظ کو پردۂ غفلت اُٹھا دینے کے معنی میں استعمال فرمایا ہے:

لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌo

قٓ، 50: 22

حقیقت میں تُو اِس (دن) سے غفلت میں پڑا رہا سو ہم نے تیرا پردۂِ (غفلت) ہٹا دیاپس آج تیری نگاہ تیز ہے۔

اس آیتِ مبارکہ میں غفلت اور کشف کے درمیان ایک تناسب بیان کیا گیا ہے کہ غفلت دراصل قلب پر پردے ڈالتی ہے اور کشف اُن پردوں کو اٹھا دیتا ہے۔ اِس آیت کریمہ میں ان دونوں چیزوں کا ورود ہوا ہے کہ انسان حقیقت میں یوم حشر سے غفلت میں پڑا ہوا تھا اور اس غفلت نے اس کے دل کو اندھا کر دیا تھا کہ اُس کا دل آنے والے روزِ قیامت کو اللہ کے حضور پیش ہونے کو دیکھ سکے، سمجھ سکے اور اُس کی معرفت حاصل کر سکے۔ پھر کیا ہوا؟ اس سے غفلت کے پردہ کو ہٹا دیا گیا۔ یعنی کل تک جو کچھ پنہاں تھا، غفلت کا پردہ اٹھ جانے کے بعد آج وہ ہر چیز کو عیاں دیکھ کر اس کا مشاہدہ کر رہا ہے۔

(2) قیامت کی ہولناکیوں سے پردہ اُٹھ جانا

قرآن مجید نے قیامت کے دن کے احوال کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَـلَا یَسْتَطِیْعُونَo

القلم، 68: 42

جس دن ساق (یعنی اَحوالِ قیامت کی ہولناک شدت) سے پردہ اٹھایا جائے گا اور وہ (نافرمان) لوگ سجدہ کے لیے بلائے جائیں گے تو وہ (سجدہ) نہ کر سکیں گے۔

روزِ محشر وہ دن ہو گا جس دن ساق سے پردہ اُٹھایا جائے گا۔ یہاں احوالِ قیامت کی ہولناکیوں اور شدتوں کو ’ساق ‘کہا گیا ہے۔ ان سے انسان پریشان ہوں گے۔ تاحال جو کچھ وہ نہیں دیکھ سکتے تھے اب اُنہیں واضح نظر آنے لگ جائے گا۔ اُنہیں دعوت دی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤ مگر وہ سجدہ نہ کر سکیں گے۔

حضرت قتادہ التابعی نے بیان کیا ہے کہ قیامت کے دن کا کشف (یعنی پردے کا اُٹھنا) قیامت کی ہولناکیوں، شدائد اور مشکلات سے ہوگا۔

طبری، جامع البیان، 29: 39

سیوطی، الدر المنثور، 8: 256

(3) عظیم نور سے پردہ اُٹھ جانا

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین نے ’ساق‘ کے کئی اور معانی بھی بیان کیے ہیں۔ امام بخاری نے ’صحیح بخاری‘ کی کتاب التفسیر میں ’بَابُ یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ‘ کے عنوان سے باب قائم کیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

یَکْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهٖ.

بخاری، الصحیح، کتاب التفسیر، باب: {یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ}، 4: 1871، رقم: 4635

ہمارا رب اُس دن اپنی ساق سے پردہ اُٹھا دے گا۔

یعنی کشف کر دیا جائے گا۔ لوگوں کی آنکھوں سے پردے اٹھ جائیں گے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ’ساق‘ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ (القلم، 68: 42)، قَالَ: عَنْ نُوْرٍ عَظِیْمٍ یَخِرُّوْنَ لَہٗ سُجَّدًا.

أبو یعلی، المسند، 13: 269، رقم: 7283

عسقلانی، فتح الباری، 8: 664

سیوطی، الدر المنثور، 8: 254

ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 10: 201

شوکانی، فتح القدیر، 5: 278

جس دن ساق سے پردہ اٹھایا جائے گا۔ فرمایا: اس سے مراد ایک عظیم نور (نورِ الٰہی) ہے جسے دیکھتے ہی سب (مؤمنین) سجدے میں گر جائیں گے

Loading