Daily Roshni News

دس جہتی کائنات۔۔۔تحریر۔۔۔محمد یاسین خوج

 

دس جہتی کائنات

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔تحریر۔۔۔محمد یاسین خوجہ)کائنات پر سے پر اسراریت کے خول اتارنے کیلئے۔بنی نوع انسان کے صد ہزار ہا ذہین و فطین افراد نے اپنی عمریں صرف کی ہیں، کئی نظریات قائم کیے ہیں مگر تا حال یہ کائنات بدستور اجنبیت اوراسرار کے پردوں میں لپٹی ہوئی ہے۔۔۔

اپنی عمر کا ایک حصہ تیاگ دینے والے ایک محقق کے یہ الفاظ حضرتِ انسان کی بے بسی کا ثبوت ہیں

“یہ کائنات اتنی پراسرار نہیں ہے جتنا کہ آپ سوچتے ہیں۔۔۔ یہ کائنات تو اتنی پراسرار ہے جنتا کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کائنات تو پر اسرار ہے ہی۔۔۔۔

مگر اس سے زیادہ پریشان کن کچھ سوالات ہیں جن کا جواب ملنا قریب قریب نا ممکن نظر آتا ہے

جیسے۔۔۔۔۔

کائنات تو بگ بینگ سے وجود میں آئی ہے مگر۔۔۔۔

بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟

بلیک ہول کے اندر (سینگولیرٹی) مادہ کی کونسی حالت ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

پھر ایک ایسی تھیوری پیش کی گئی جس میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ بگ بینگ سے پہلے کی اور بلیک ہول کے اندر کی کیفیت کی وضاحت کر سکتی ہے۔۔۔

اس تھیوری کو سپر سٹرنگ تھیوری (یا صرف”سٹرنگ تھیوری”) کہتے ہیں۔۔۔

اس کے مطابق اس کائنات کے بلڈنگ بلاکس ایٹم نہیں بلکہ ایٹموں سے بھی اربوں گنا زیادہ لطیف اور چھوٹے توانائی کے یک جہتی تار(strings) ہیں جو ہر وقت تھرتھراتے رہتے ہیں ان کی تھرتھراہٹ(وائبریشن) سے  سب اٹامک پارٹیکل  تشکیل پاتے ہیں۔۔۔

 اس کے سٹرنگز کے براہ راست مشاہدہ کیلئے ہمارے حساس ترین اور جدید ترین آلات بھی بیکار ہیں

یہ تھیوری اپنے حسابات میں تو بالکل صحیح اور مضبوط ہے مگر  مشاہداتی اعتبار سے یہ کافی کمزور ہے اور تھیوری سے زیادہ مفروضہ لگتی ہے۔۔۔

ابھی سائنسدانوں کی بڑی تعداد اسے اپنانے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے۔۔۔

 اس تھیوری کے  حسابات بتاتے ہیں کہ

“یہ کائنات ایک ساتھ 10 جہتوں (ڈائیمینشنز) میں exist کرتی ہے”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلی تین جہتوں سے ہم بخوبی واقف ہیں اور ان کا روزآنہ کی بنیاد پر تجربہ بھی کرتے ہیں یعنی یہ جہتیں کائنات کی تمام اشیاء کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی کی وضاحت کرتی ہیں۔۔۔

ان تین نظر آنے والے جہتوں سے آگے، طبیعات دانوں کا خیال ہے کہ اور بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔  درحقیقت، سپر اسٹرنگ تھیوری کا نظریاتی فریم ورک یہ ثابت کرتا ہے کہ کائنات دس مختلف جہتوں میں موجود ہے۔  یہ مختلف پہلو ہیں جو کائنات، فطرت کی بنیادی قوتوں اور  تمام ابتدائی ذرات پر کنٹرول رکھتے ہیں۔

پہلی جہت: جو صرف دو سمتوں پر مشتمل ہے  یعنی اس میں چوڑائی یا گہرائی کا تصور نہیں

اس کی مثال کاغذ پر کھینچی گئی ایک لکیر ہے

دوسری جہت۔۔۔

اس میں لمبائی اور چوڑائی تو ہے مگر یہاں بھی اونچائی یا گہرائی کا کوئی کنسیپٹ نہیں

اس کی مثال کاغذ کا ایک ورق، موبائل، ٹیلیویژن یا کمپیوٹر کی سکرین پر چلتی ہوئی ویڈیو ہے۔۔۔

تیسری جہت میں لمبائی، چوڑائی اور گہرائی کا کنسیپٹ موجود ہے ۔۔۔

چوتھی جہت وقت کو مانا جاتا ہے اور ہماری روزمرہ کی مرئی دنیا انہی چار جہتوں پر مشتمل ہے جن میں پہلی تین جہتیں حقیقی جبکہ چوتھی جہت وقت تصوراتی ہے

پہلی تین جہتوں کی مدد سے ہم کائنات کی کسی بھی چیز کے مقام کا تعین  وقت کے بغیر بھی  کر سکتے ہیں

مگر۔۔۔۔۔۔ چونکہ

کائنات پرسکون نہیں ہے اس میں ہر لمحہ ہنگامہ حشرنما کی بھر مار ہے۔۔

ایک ہی مقام پر ایک ساتھ کئی عوامل اور واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں

ان میں تفریق کیلئے ہمیں وقت کی ضرورت پڑتی ہے

 وقت کے بغیر نہ انہیں سمجھنا ممکن ہے اور نہ ہی ان میں تفریق کرنا ممکن ہے۔۔۔

اسپیس اور ٹائم کا آپس میں ربط آئن سٹائن کی عمومی اضافیت کا بنیادی حصہ ہے

جو ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات میں اشیاء کیسے حرکت کرتی اور کیسے ایک دوسرے سے تعامل کرتی ہیں

جدید طبیعات میں پہلی تین جہتوں اور وقت کو ساتھ ملا کر بیان کیا جاتا ہے

چاروں جہتوں کو بالترتیب x ،y ،z اور t سے ظاہر کرتے ہیں

تین جہتوں کے بعد کی جہتوں کو اعلیٰ جہتیں کہا جاتا ہے۔۔۔ یہ وہ مقام ہے جہاں گہرے امکانات سے کام لیا جاتا ہے یعنی ان کے فزیکلی ثبوت ابھی تک دستیاب نہیں ہوئے۔۔۔

 یہ  جہتیں کیسی ہیں؟  چار جہتوں سے کیسے مربوط ہیں؟ اور یہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتیں؟ اس کی وضاحت وہ جگہ ہے جہاں طبیعیات دان خاصی مشکل میں پڑ جاتے ہیں، کوئی معقول دلیل پیش نہیں کر سکتے۔۔۔

مثلاً ان کے نظر نہ آنے کی یہ عجیب سی وجہ بیان کرتے ہیں کہ یہ مڑی ہوئی ہیں اسلئے انہیں دیکھنا ممکن نہیں

۔۔۔۔۔۔۔

جہتوں کا سب سے پہلا تصور اور اُن پر تجزیہ نگاری 1822میں جوزف فوریئر کی جانب سے شروع ہوئی۔۔۔

پھر ان کا جدید تصور 1863 میں میکس ویل نے پیش کیا۔۔ اس نے جوزف فوریر اور  اس تصور کے بعد میں آنیوالے حامیوں  کی ابتدائی فارمولیشنز کو synthesize کیا اور۔۔۔۔۔

چارلس ہاورڈ ہنٹن (1907-1853) کو فادر آف ڈائیمینشنز کہا جاتا ہے۔۔

وہ ایک برطانوی ریاضی دان اور سائنس فکشن لکھاری تھا اُسے اعلیٰ جہتوں میں خصوصاً چوتھی جہت میں…. بہت دلچسپی تھی۔۔۔

 وہ لفظ ” Tesseract” کے خالق کے طور پر کافی مشہور تھا اور  اعلیٰ جہتوں کے جیومیٹریکل طریقوں پر کام کیلئے بھی جانا جاتا ہے۔۔۔۔

میڈلین ایل اینگل کی فلم A Wrinkle in the time میں Tesseract کا ذکر ملتا ہے، یہ ایک  چار جہتی فرضی ہائپر کیوب ہے جس میں اسپیس ٹائم کو موڑنے کی صلاحیت ہے

۔۔۔۔۔۔

 کارل سیگان نے بھی اس جہت کہانی میں بڑی دلچسپی لی اور چار جہتوں کی وضاحت اس سادگی سے کی کہ کوئی بھی انہیں سمجھ سکتا ہے

اسکی ایک ویڈیو کی تھوڑی سی ایکسپلیشن ملاحظہ کیجیۓ

کارل کہتے ہیں

” ایک بالکل ہموار یا چپٹی دنیا(Flatland) کا تصور کریں جہاں سب کچھ بالکل ہموار اور فلیٹ ہے۔ اس فلیٹ لینڈ  میں لوگوں اور اشیاء کی لمبائی اور چوڑائی تو ہے، لیکن بلندی بالکل صفر ہے۔ اس چپٹی دنیا کے لوگ آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں کو تو جانتے ہیں لیکن ان کے پاس اوپر اور نیچے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہ اور ان کی پوری دنیا دو جہتوں میں قید ہے۔

اب تصور کریں کہ اس دنیا کے پاس سے ایک تین جہتی مخلوق (جو کہ تین جہتوں، لمبائی، چوڑائی اور بلندی کی حامل ہے) گزرتی ہے۔ اس ویڈیو میں سیب(Apple) کو وہ سہ جہتی مخلوق تصور کیا گیا ہے۔ سیب اس دنیا میں ایک مربع(Square) کو اپنے کمرے میں جاتے ہوئے دیکھتا ہے اور اس کو ہیلو کہتا ہے اور اپنا تعارف کرواتا ہے کہ میں تیسری جہت سے  ایک مہمان بن کر آیا ہوں (اس موقع پر سیب اس دو جہتی مربع کے بالکل اوپر ہے)۔ دو جہتوں میں قید وہ مربع اپنے کمرے میں ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ کمرہ بند ہے اور کوئی بھی وہاں موجود نہیں ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ کہ اسے یہ آواز اپنے اندر سے سنائی دے رہی ہے۔ وہ پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ کہیں میں پاگل تو نہیں ہو گیا؟

اس سہ جہتی مخلوق (سیب) کو یہ بات پسند نہیں آتی کہ مربع اسے محض دماغ کا فتور سمجھ رہا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی موجودگی کا ثبوت دینے کے لیے اس دنیا میں داخل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اب ایک سہ جہتی مخلوق کا ایک دو جہتی دنیا میں محض وہی حصہ موجود ہوگا جو کہ اس دو جہتی دنیا کو چھو رہا ہے،  انگریزی میں اسے cross section کہہ لیں۔ یہاں پر کارل ساگان سیب پر روشنائی لگا کر اس سہ جہتی مخلوق کے اس دنیا میں داخلے کے مختلف مراحل دکھاتا ہے۔ اب وہ مربع دیکھتا ہے کہ اس کے کمرے میں، جو کہ بند ہے، پراسرار طور پر کوئی چیز ظاہر ہو رہی ہے اور اپنی شکل بدلتی جا رہی ہے۔ اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کے دماغ کا فیوز اڑ گیا ہے۔ سیب کو اس کا یہ خیال کچھ پسند نہیں آتا۔ چنانچہ وہ اس مربع اٹھا کر اُوپر کو طرف اچھال دیتا ہے شروع میں تو اس مربع کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا ہو رہا ہے کیونکہ یہ اس کے لیے ایک بالکل نیا تجربہ ہے۔ لیکن جیسے جیسے اس کے حواس بحال ہوتے ہیں تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ بند کمروں میں دیکھ سکتا ہے، حتیٰ کہ وہ اپنے دو جہتی ساتھیوں کے اندر بھی دیکھ سکتا ہے۔ وہ فلیٹ لینڈ کو ایک ایسے نقطۂ نگاہ سے دیکھ رہا ہے جس سے پہلے کبھی اس کے کسی جاننے والے نے نہیں دیکھا۔ اب یہ فلیٹ لینڈ کا باشندہ آہستہ آہستہ نیچے سطح پر (فلیٹ لینڈ میں) واپس آ جاتا ہے (اب وہ باہر کھلی جگہ میں ہے جہاں اس کے دوست موجود ہیں)۔ اور اس کے دوست اس کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں کہ یہ کیا ہوا۔ ان کے نقطۂ نگاہ کے مطابق وہ مربع اچانک ہی وہاں نمودار ہو گیا ہے۔ وہ کہیں سے چلتا ہوا نہیں آیا۔ بلکہ اچانک کہیں سے پراسرار طور پر نمودار ہو گیا۔ اس کے دوست پوچھتے ہیں کہ خیریت تو ہے؟ ابھی ابھی یہ کیا ہوا؟ تو وہ مربع کہتا ہے کہ میں کسی اور پراسرار دنیا میں تھا جسے “اوپر” کہتے ہیں۔ اس کے دوست اس سے پوچھتے ہیں کہ بتاؤ یہ  دنیا کہاں ہے؟ کس سمت میں ہے؟ لیکن بے چارہ مربع اپنی دو جہتوں میں قید ساخت کی وجہ سے انہیں اس سمت میں اشارہ کر کے نہیں دکھا سکتا۔ اور نہ ہی کوئی معقول وضاحت کر سکتا ہے۔۔۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر ہم سٹرنگ تھیوری کے دعووں کو پرکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو میرا دعویٰ ہے کہ

یہ کائنات پراسرار اور اجنبی نہیں رہے گی

کارل کا دو جہتی مربع ، تین جہتی سیب کو باوجود کوشش کے نہیں دیکھ سکا حالانکہ وہ اس کے سر کے اوپر قلیل فاصلے پر تھا۔۔۔ اور اگر وہ قابلِ مشاہدہ کائنات کے قطر جتنا بھی سفر کر لیتا تو وہ سیب تک نہیں پہنچ سکتا۔۔۔

اگر اس میں اُوپر جانے یا دیکھنے کی صلاحیت ہوتی تو وہ ایک لمحے میں سیب کو دیکھ بھی لیتا اور چھو بھی سکتا۔۔۔

ممکن ہے ہم تھری ڈی (سہ جہتی) مخلوق کیلئے قابل مشاہدہ کائنات اربوں نوری

 سالوں لمبا سفر ہو مگر وہی کائنات کی فائیو ڈی یا سکس ڈی مخلوق کیلئے کچھ پل کا فاصلے ہو۔۔۔

ممکن ہے کوئی کائناتی جہت ہم سے اتنی ہی دور ہو جتنا کہ مربع سے سیب دور تھا۔۔۔

اس جہت میں جھانکنے پر ہم بغیر ہبل اور جیمز ویب کے قابل مشاہدہ کائنات کے کناروں کے اس پر کی دنیائیں دیکھ لیں؟

آنے والا وقت کیا کیا رنگ دکھاتا ہے ہم اس سے اتنے ہی  انجان ہیں جتنا کہ مربع سیب بے خبر سے تھا

میں بھی بازگشت سن رہا ہوں انجانی تہذیبوں کے اجنبی باشندوں کی آوازوں کی مگر مربع کی طرح انہیں دیکھنے سے قاصر ہوں۔۔۔۔

جہتوں کی کہانی پڑھنے کے بعد۔۔۔ جب کبھی مجھے تنہائی میں ایسا محسوس ہو کہ جیسے کسی نے میرا نام لیکر پُکارا ہے تو میرے جسم میں سرسراہٹ ہوتی ہے

شدید گرمی میں بھی سردی کی ایک لہر سی رگ و پے میں دوڑ جاتی ہے

ایسا لگتا ہے جیسے کسی اعلیٰ جہتی نے مجھے مخاطب کیا ہے اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔۔

وہ میرا مہمان بننا چاہتا ہے یا پھر مجھے اپنی جہت کی طرف اچھال کر اپنے ہونے کا یقین دلانا چاہتا ہے

اگر کبھی وہ مجھے اپنی جہت کا نظارہ کرائے بھی تو شاید میں وضاحت نہ دے سکوں گا کہ میں نے کیا دیکھا ہے۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#محمدیاسین_خوجہ

Loading