دشتِ سوس (جمیلہ ہاشمی)
1995 ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میں ایران جانا ہوا ، تو سامان میں جمیلہ ہاشمی کا ناول دشت سوس بھی رکھ لیا ، ایران وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ملک ہے اور اس بناء پر ایک شہر سے دوسرے شہر کا فاصلہ بہت طویل ہے ۔ دوران سفر یہ ناول میری تنہائی ، روحانی تشنگی اور طویل ترین فاصلوں کا بہترین ساتھی ثابت ہوا ۔
دشتِ سوس حسین ابن منصور حلاج کی حیات کے گرد گھومتا ہے ، تصوف کی تشریح و تفسیر ، سالک سے کامل واکمل بننے کے تمام مراحل کو کہانی میں گوندھ کر جمیلہ ہاشمی نے ایک ادبی معجزہ کر دکھایا ہے ۔
جمیلہ ہاشمی قاری کو ایک ایسی فضا اور سحر میں جکڑ لیتی ہے کہ وہ اس میں سے باہر نہیں نکل پاتا اور اسی دنیا میں چلتا پھرتا ، سانس لیتا دکھائی دیتا ہے ۔ وہ روحانی کیفیات ، تجلیات اور صوفیانہ واردات کو قلب و نظر پہ وارد ہوتے ہوئے دیکھتا ہے ۔
ناول کے اختتام پر مصنفہ نے حسین ابن منصور کو قید ہونے اور سولی پہ چڑھنے کے منظر کو جس طرح مجسم کیا ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے ۔
اردو ادب میں معیاری ناول آٹے میں نمک کے برابر ہیں ، اگرچہ کچھ مصنفین اپنے وقت میں بہت پاپولر اور بیسٹ سیلر رہے ہیں لیکن معیار پر پورے نہیں اترتے ۔
دشتِ سوس کی طرف ناقدین کی نظر کم ہی پڑی ہے ورنہ یہ ناول اداس نسلیں ، راجہ گدھ آگ کا دریا جیسے ناولوں سے کم تر نہیں ہے ۔
ایک بدقسمتی جس کا بہت دکھ ہے ، وہ یہ کہ 1988 میں ایف سی کالج لاہور میں تھا تو ان سے ملاقات کا موقع مل سکتا تھا ، لیکن اس کا مجھے بہت بعد میں پتہ چلا ۔
اگر آپ نے دشتِ سوس ابھی تک نہیں پڑھا تو یقیناً آپ ایک بہترین کتاب سے محروم ہیں ۔
اعجاز حسین احسن ✍️
![]()

