Daily Roshni News

دماغ اور ذہن کا فرق۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر مظفر الدین (نیو رو سرجن)

دماغ اور ذہن  کا فرق

تحریر۔۔۔ڈاکٹر مظفر الدین (نیو رو سرجن)

(قسط نمبر1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔دماغ اور ذہن کا فرق۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر مظفر الدین (نیو رو سرجن))اشعرمیاں کا کمپیوٹر خراب ہو گیا تھا وہ اسکول سے آنے کے بعد نہا یت بے چینی سے اپنے ابو کا انتظار کررہے تھے تا کہ ان سے اپنا کمپیوٹر ٹھیک کروا کر اس میں  گیم  کھیل سکیں ۔ شام میں ان کے ابو آفس سے گھر آئے تو وہ دروازے میں ان سے لپٹ گئے اور فورا کمپیوٹر کو ٹھیک کرنے کی فرمائش کی۔ ابونے اشعر کو پیار کرتے ہوئے کہا بیٹا تمہارا کمپیوٹر ٹھیک ہو جائے گا۔ کمپیوٹر چیک کرتے ہوئےا شعر کے ابو نے اشعر کو بتایا کہ آپ کے کمپیوٹر میں Software Window خراب ہو گیا ہے اور Window دوباره Install

کرنی ہوگی ۔ 6 سالہ اشعر نے اپنے ابو سے کہا کہ کمپیوٹر کھول کر مجھے دکھائیں کہ Window کہاں لگی  ہوئی ہے اور وہ خراب ہوکرکیسی لگتی ہے ۔ا شعر کے والد اشعر کی اس معصومانہ خواہش پرہنس پڑے اور پیار سے کہا کہ Window ایک پروگرام کانام ہے اس کی شکل وصورت نہیں ہوتی اور نہ ہی کمپیوٹر کو کھول کر اس کو دکھایا جاسکتا

ہے ۔ یہ پروگرام دراصل کمپیوٹر کے تمام پرزوں میں ایک کرنٹ کی طرح بہتا ہے جس سے کیا کام کرتا ہےاورمختلف کام سرانجام دیتا ہے۔

جس طرح اشعر کے معصوم ذہن میں Window پروگرام کو دیکھنے کی خواہش ابھری اسی طرح کئی ہزار سالوں سے حضرت انسان اور انسانی سائنس دانوں میں ذہن کو دیکھنے کی خواہش موجود ہے۔

سائنس دانوں نے کھوپڑی کھول کر دماغ کو تو دیکھ لیا مگر کیا دماغ میں انسانی ذہن ہے اس بات پر تمام سائنس دان شش وپنج کا شکار ہیں۔ اب تک دماغ اور ذہن کے متعلق جو ماڈل سائنس دانوں کے ذہن میں ہے وہ کمپیوٹر کے ماڈل کی طرح ہے لیکن کمپیوٹر کا ہارڈویر۔ RAM میموری ، مدر بورڈ انسانی دماغ کی طرح ہے اور ان پر زوں میں چلنے والے سوفٹ وئیر Window اور دیگر بے شمار سوفٹ وئیر دراصل ان پر زوں کی ورکنگ ہے وہ انسانی ذہن کے مشابہ ہیں۔ .

آسان لفظوں میں یہ کہا جائے گا جو دماغ  ہمیں نظر آتا ہے وہ ہا رڈوئیر Hard

– ware ہے اور ذہن در اصل Software سوفٹ وئیر یا پروگرام ہے جس طرح ہارڈوئیر Hard – ware ایک جیسے ہونے کے با وجود دو ایک جیسےConfiguration کے کمپیوٹر اپنے سوفٹ وئیر کا پروگرامز کی بنیاد پر ایک دوسرے سےبے انتہاء مختلف ہو سکتے ہیں اسی طرح وہ انسان جن کا دماغ بظاہر ایک جیسا نظر آتا ہے وہ اپنے ذہن اور اسکی ذہانت (Programming) کی وجہ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

IQ یا Intelligence Quotient ایک ایسا Clinical test ہے جس کے ذریعےہم کسی حدتک اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس انسان میں کتنی ذہانت ہے مگر ٹیسٹ بھی محدود ہے۔

ابھی تک انسانی ذہانت کو جانچنے کا %100 درست ٹیسٹ یا پیمانہ ایجاد نہیں ہوسکا۔

انسانی ذہن اور دماغ کو  سمجھنے کے لئے کمپیوٹر کا ماڈل استعمال کرنا دراصل انسانی دماغ کی بہت بڑی کمزوری ہے کیوں کہ سائنسدانوں کے پاس شواہد ہیں کہ عام انسانی دماغ کسی عام کمپیوٹر سے کئی ہزار گنا زیادہ باصلاحیت ہے مگر یہ ماڈل اب تک سائنسدانوں کے

 80% سوالوں کا تسلی بخش جواب دے رہا تھا ۔ اب تک‘‘ کا لفظ ہم نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ موجودہ دور میں انسانی دماغ اور ذہن پر کی جانے والی ریسرچ

نے سائنسدانوں کو سپر کمپیوٹر کا ماڈل بنانے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ایک ایسا کمپیوٹر جس میں بے شمار سوفٹ وئیر ہوں جس کے ہارڈوئیر Hard – ware اور میموری کی وسعت لا محدود ہو اور جو اپنے ہارڈ وئیر Hardware اور سوفٹ وئیر کی خرابی کو خود سمجھنے اور درست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ایسا سپر کمپیوٹر جو اپنے سے کئی گنا طاقتور Server کمپیوٹر سے رابطے میں ہو اور کسی بھی قسم کی شکل میں Server کمپیوٹر اسکومکمل Guide lines دے سکتا ہے او راس کمپیوٹرکو اس مشکل صورتحال سے

نکال سکتا ہے۔

کمپیوٹر کی فیلڈ سے وابستہ لوگ اس بات کو بھی سمجھ  رہے  ہونگے کہ ابھی ایسا کمپیوٹر ایجاد نہیں ہوا اور شاید ایجاد بھی نہ ہو سکے گا۔

انسانی ذہن کیا ہے؟

دماغ میں کہاں ہوتا ہے؟

 دماغ اور ذہن میں کیا فرق ہے؟

دو ایک جیسے انسان جن کے دماغ ایک جیسے نظر آتے ہیں ان میں ذہانت کا فرق کیوں ہے؟ کیا دماغ کے مرنے کے بعد ذہن بھی مر جاتا ہے؟

کیا ہمارا دماغ ذہن کو چلاتا ہے یا ہمارا ذہن دماغ کو چلاتا ہے؟

سائنس کی وہ شاخ جو دماغ اور اس کے افعال کے بارے میں بحث کرتی ہے وہ نیورولوجی اور نیوروسرجری کہلاتی ہے اور اس کے ماہر نیورولوجسٹ نیوروسرجن مانے جاتے ہیں جبکہ وہ شاخ جوانسانی ذہن اور اس کے افعال کے متعلق معلومات فراہم کرتی ہے وہ سائیکاٹری ( Psychiatry) کہلاتی ہے اور اس کے ماہرین کو Psychiatrist سائکاٹرسٹ کہتے ہیں۔

دماغ اور زبان کے متعلق کی جانے والی بے شمار ریسرچ کے باوجود سائنس دان ابھی تک دماغ اور ذہن  کو %50 بھی سمجھنے کا مثبت کوئی نہیں کر سکے۔ سائنسدانوں کی ریسرچ کا محور دماغ ہے کیونکہ زیادہ تر سائنس دان دماغ کو ہی ذہین سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ذہن کی حیثیت اس مادی دماغ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دماغ کےمرجانے پرذہن بھی مر جا تا ہے ۔ سائنسدانوں کے نزدیک دماغ کے نیورونز میں بہنے والا کرنٹ دراصل ذہن ہے۔ دماغ کےمختلف حصوں کے نیورونز میں بہنے والا کرنٹ یا الیکٹریکل ایکٹویٹی ایک فردکو دوسرے فردسے مختلف بناتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق دوافراد میں ذہانت کا فرق دراصل دماغ کے نیورونز میں موجود جوڑ کی تعداد اور ان نیورونز کے درمیان سے بہنے والے کرنٹ کی مقدار سے ہوتا ہے۔

سائنسدان ابھی تک اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ دماغ کے مر جانے کے بعد ذہن بھی مر جاتا ہے اور فرد کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے سائنسدان سمجھتے ہیں کہ ہمارا دماغ در اصل ذہن کو چلاتا ہے اگر دماغ اور اس کے نیورونز نہیں ہونگے تو ذہن بھی ختم ہو جائے گا۔

سائنسدانوں کے اس یقین کی وجوہات کئی ہیں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سائنسدان صرف 5 مادی حواس کی گرفت میں آنے والی انفارمیشن یا معلومات پر یقین رکھتے ہیں اب چاہے یہ معلومات بلا واسطہ کی جارہی ہو یاکسی مشین کو استعمال کر کے بالواسطے حاصل کی جاتی ہو۔

وائرس ایک زندہ مخلوق ہے۔ انسانی آنکھ اس کونہیں دیکھ سکتی لیکن اگر انسان اپنی آنکھ پر الیکٹران مائیکرو اسکوپ لگا لے تو وائرس نظر آنا شروع ہو جا تا ہے۔ اب وائرس ایک حقیقت بن جاتا ہے۔ یہی بات دماغ کے متعلق بھی ہے چونکہ ابھی تک کوئی ایسی جامع مشین۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعوراگست2013

Loading