دنیا کا سب سے مہنگا مادہ جس کا ایک گرام امریکہ اور چین کی ٹوٹل جی ڈی پی سے بھی مہنگا ہے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) دنیا کے سب سے مہنگے مادے کی قیمت 62 ٹریلین ڈالر (62 ہزار ارب ڈالر) ہے جو زمین پر کسی بھی اور چیز کے مقابلے میں سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ یعنی یہ امریکہ، چین اور جاپان جیسے ملکوں کی کل جی ڈی پی سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔ اس کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ 2023 میں دنیا کے تمام ملکوں کی مجموعی جی ڈی پی 96 ٹریلین ڈالر تھی جب کہ اس مادے کا ایک گرام 62 ٹریلین ڈالر کا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس مادے کو خریدنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو تب بھی کائنات میں اس کا ایک گرام ملنا بھی تقریباً ناممکن ہے۔ یہ کسی قیمتی دھات یا جواہر کی طرح زمین سے نہیں نکالا جا سکتا بلکہ اسے ایٹم در ایٹم جوڑ کر تیار کرنا پڑتا ہے اور اس عمل میں ایک گرام کا دسواں حصہ بنانے کے لیے بھی ایک ارب سال لگ سکتے ہیں۔
سائنسدان اس مہنگے اور ناپائیدار مادے پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ یہ کائنات کے بنیادی سوالات کے جوابات دے سکتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ بگ بینگ کے وقت برابر مقدار میں مادہ اور اینٹی میٹر پیدا ہوا ہوگا جو ایک دوسرے کو ختم کر کے صفر کر دیتے، مگر آج ہم جس کائنات میں رہتے ہیں، وہ مکمل طور پر مادے سے بنی ہے جب کہ اینٹی میٹر ناپید ہے۔ اگر مادہ اور اینٹی میٹر کی مقدار ایک جیسی تھی، تو پھر مادہ کیوں بچا؟ یہ سوال سائنسدانوں کے لیے ایک بہت بڑا معمہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ مادہ اور اینٹی میٹر میں کوئی باریک فرق موجود ہے جو ابھی دریافت نہیں ہوا، یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کائنات میں کچھ علاقے مکمل طور پر اینٹی میٹر پر مشتمل ہوں اور ہماری نظروں سے اوجھل ہوں۔
ویب ڈیسک