دکن کے جن
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ دکن کے جن۔۔۔۔ قسط نمبر1)تقسیم ہند سے قبل حیدر آباد دکن میں جنات سے منسوب چند پر اسرار واقعات۔سینہ گزرٹ اردوادب میں ان قصوں اور داستانوں کو کہا جاتا ہے جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہوں۔ سینہ گزٹ واقعات کی حقیقت کیا ہے، یہ تھے مصدقہ ہیں یا نہیں، یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ ایسے واقعات یا قصوں میں کوئی اصلیت ہو نہ ہو لیکن ان کی ایک خوب صورتی یہ ہے کہ ان میں کوئی علت یعنی دلیل ضرور پائی جاتی ہے۔ قاری کی طبیعت قبول کرنے لگتی ہے۔ یہ کہانیاں صدیوں کا سفر کر کے ہمارے لٹریچر کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ہر معاشرہ اپنے وقت کے تقاضوں کے مطابق ان کہانیوں سے تفریح کے ساتھ ساتھ دانش بھی کشید کرتارہتا ہے۔ اردو کے ممتاز ادیوں، معروف اہل قلم اور مشہور روحانی شخصیات کی کتابوں میں ہمیں اس طرح کے کئی ماورائے عقل واقعات، ناقابل فہم اور حیرت انگیز قصائص پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ایسی کئی روایات اور واقعات کو مشاہیر ادب نے اپنی خود نوشت سوانح عمریوں، آپ بیتی یا یاد داشتوں پر مبنی کتابوں میں جگہ دی ہے۔ ان تحریروں کی حیثیت سینہ گزٹ سے زیادہ کچھ نہیں، مگر یہ قارئین میں تو بہت مقبول ہیں۔
یہاں ہم ملتان سے تعلق رکھنے والے ادیب ڈاکٹر سید زاہد علی واسطی کی خود نوشت کتاب بیتی یادیں“ سے حیدر آباد دکن میں جنات سے منسوب چند پر اسرار واقعات نقل کر رہے ہیں۔
دوران ملازمت مجھے شہر شہر گھومنا پڑتا تھا۔ پاک چین جب بھی جاتا کینال ریسٹ ہاؤس میں قیام کرتا اور مغرب و عشاء کی نمازیں ڈرائیور شمشاد شاہ کے ساتھ بابا فرید الدین گنج شکر کی مسجد میں پڑھتا۔ یہ سن 1974، 1975 کی بات ہے، احاطہ مسجد بازار کے قریب ایک مہذب شخص کو ضرور دیکھتا۔ آپ سعید الدین صدیقی تھے جن کی عمر پچاس پچپن کے لگ بھگ تھی۔ ان کا تعلق حیدرآباد دکن ( تلنگانہ، بھارت) سے تھا۔
حضرت مسکین شاہ حیدرآباد دکن کے بزرگ ہیں جو تیرہویں صدی ہجری (1786 1897ء) کے وسط میں تشریف لائے۔ حضرت مسکین شاہ کا حیدر آباد میں 1896ء میں انتقال ہوا۔ محلہ علی آباد، اندرون دروازہ کی جامع مسجد الماس میں ان کا مزار
تیر ہویں صدی ہجری میں حیدر آباد دکن کی ممتاز علمی وروحانی شخصیت حضرت مسکین شاہ نقشبندی کا اصل نام محمد نعیم صدیقی تھا، محمد نعیم تقریبا 1200ھ مطابق 1786ء کو حیدر آباد دکن کے محلہ شکر گنج میں پیدا ہوئے ، آپ کے والد محمد حفیظ محلہ علی آباد کی ایک مسجد الماس کے متولی تھے۔ عیہ مسجد 1591ء میں سلطان قطب شاہ کے نگراں تعمیرات ملک الماس نے تعمیر میر پیٹ کی تھی، یہ چھوٹی سی مسجد چارمینار اور فلک نما محل کو ملانے
والی در میانی قدیم سڑک پر آج بھی موجود ہے۔
محمد نعیم پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے اور فضل مسجد الماس کمال کے مالک تھے، آپ کو ورزش، تیرا کی اور پہلوانی اور مراقبہ وریاضت کا شوق تھا۔ آپ دہلی کے بزرگ غلام شاہ نقشبندی کے مرید ہونا چاہتے تھے مگر والد کی وفات کے بعد مسجد الماس کے متولی کی ذمہ داریوں سے
مرجع خلائق ہے۔
ایک روز حضرت مسکین شاہ کا ذکر چل نکلا تو سعید الدین صدیقی نے یہ بتا کر ہمیں چونکا دیا کہ مسکین شاه ز بر دست عامل تھے اور بہت سارے جن ان کے تابع تھے۔ حضرت موصوف بہت جلالی قسم کے بزرگ تھے۔ ہمہ وقت دس بارہ موکل ہاتھ باندھے حاضری میں کھڑے رہتے تھے۔ غیر حاضری ان کو بہت کھلتی تھی۔
ہمہ وقت ذرا کوئی موکل نظر نہ آیا، چیتے ” بے فلانا کہاں دفع ہو گیا۔ “
بس جیسے ہی وہ آتانا فرمانی، غیر حاضری کی سزا پاتا اور درخت سے الٹا لٹکا دیا جاتا۔ حیدر آباد سے ذرا فاصلے پر دریائے کرشنا بہتا ہے اس میں موکل کو دس دس بارہ گھنٹے سزا کے طور پر پانی میں غوطے کھانے کی سزا ملتی۔ کسی نے بھی ان کے سامنے ہو نہ کی اور حضرت صاحب کے تیور بدلے۔ چشم ابرو کا اشارہ ہوا اور اس پر کوڑوں کی بارش شروع۔ ہائے ہائے کی صدائیں آنے لگتیں۔ معافیاں مانگی جاتیں۔
شاہ صاحب کا دل پیچ جاتا تو ہاتھ کا اشارہ ہوتا،
فرصت نہیں مل سکی۔ غلام شاہ نقشبندی نے وصال سے قبل اپنے ایک مرید حضرت سعد اللہ شاہ نقشبندی کو دکنجانے کا حکم دیا۔ سعد اللہ نقشبندی جب دہلی سے حیدر آباد آئے تو انہوں نے کچھ عرصہ مسجد الماس سے متصل سرائے میں قیام فرمایا۔ محمد نعیم نے ان سے بیعت میں لینے کی درخواست کی، حضرت نے انہیں پہلے مدراس جاکر شریعت و طریقت کیبنیادی تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیا، محمد نعیم نے تقریبا چھ سات برس مدر اس میں رہ للات مسلين کر تعلیم حاصل کی جب واپس آئے تو اس وقت آپ کی عمر تقریباً 47 سال تھی۔محمد نعیم نے اپنے مرشد سعد اللہ نقشبندی کی خدمت میں 12 برس گزارے، مرشد نے محمد نعیم کو خرقہ خلافت دے کر مسکین شاہ کا لقب دیا ۔ حضرت سعد اللہ نقشبندی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے دکن میں سلسلہ نقشبندیہ کو فروغ دیا۔ ان کا مزار | قاضی پور، محله شاہ علی بندہ حیدر آباد میں مرجع خلائق ہے۔مرشد کے وصال کے بعد حضرت مسکین شاہ نقشبندی نے کئی برس درس روحانیت دینے میں گزرے، حضرت مسکین شاہ نے ایک کتاب ”لذات مسکین “ بھی لکھی، آپ کے حالات زندگی، کتاب ” حالات نقشبند دکن میں مذکور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ میں سلب الامراض کی خاصیت تھی، لوگ جادو جنات اور روحانی و جسمانی امراض کو سلب کرانے کے لیے آپ کی سلپ کرانے کے ۔خدمت میں حاضر ہوتے۔مزار حضرت مسکین شاہ نقشبندی حضرت مسکین شاہ کا وصال 14 ربیع الاول 1314ھ مطابق 1897ء کو 104 برس کی عمر میں ہوا۔ آپ کا مزار محله علی آباد ، اندرون دروازہ کی جامع مسجد الماس کے ساتھ مرجع خلائق ہے۔
کبھی فرماتے بس کر کیوں مرے جارہا ہے۔ اب غلطی نہیں کرے گا اور فورآ ہائے ہائے کی آوازیںبند ہو جاتیں۔سب موکل حضرت صاحب کی خواہش کے تابع تھے۔ نہ معلوم کتنے جنوں کو تو انہوں نے جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ کتنوں کو در مخنوں پر لٹکا لٹکا کر مارا۔ ایکایسے ہی جن کو انہوں نے جلا دیا تھا۔اس جن کا ایک بیٹا تھا۔ اس کی ماں نے کہا اگر تو اپنے باپ کا پیا ہے تو مسکین شاہ سے اپنےداباپ کا انتقام لے کر دکھا۔ “
اس نے بیٹے کو ملک فارس بھیج دیا جہاں عاملوںاور ساحروں کا بہت زور تھا۔ اس نوجوان جن نے اس فن کو بقدر ظرف سیکھا اور بڑے بڑے عملیاتحاصل کیے۔حضرت صاحب کو اطلاع مل گئی۔ آپ نے پیغامبھیجا، اگر تو جان کی امان چاہتا ہے تو فوراً حیدرآباد دکن سے نکل جاور نہ میں تجھے جلا کر راکھ کردوں گا مگر وہجن نہ مانا۔انہوں نے فرمایا اچھا! میں خود وہاں آتا ہوں۔ آپ وہاں پہنچ گئے، عمل کیا مگر اس پر اثر نہ ہوا اور وہ۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025