Daily Roshni News

دیم ہاشمی کی یہ غزل جسمانی قربت اور روحانی دوری کے درمیان کشمکش کا ایک دلچسپ بیانیہ پیش کرتی ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )عدیم ہاشمی کی یہ غزل جسمانی قربت اور روحانی دوری کے درمیان کشمکش کا ایک دلچسپ بیانیہ پیش کرتی ہے۔

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا

سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

عدیم ہاشمی کی یہ غزل جسمانی قربت اور روحانی دوری کے درمیان کشمکش کا ایک دلچسپ بیانیہ پیش کرتی ہے۔ شاعر نے ایک ایسے شخص کے بارے میں بات کی ہے جو جسمانی طور پر موجود ہونے کے باوجود روحانی طور پر کتنا دور محسوس ہوتا ہے۔ یہ غزل محبت اور جدائی کے پیچیدہ رشتے کو بیان کرتی ہے جہاں شاعر جسمانی قربت کے باوجود ایک اندرونی تنہائی محسوس کرتا ہے۔ شاعر کے جذبات میں محبت، جدائی، تنہائی، بے چینی اور امید و مایوسی کا امتزاج ہے۔ وہ اس شخص کی یاد میں گم ہے لیکن اس کی موجودگی میں بھی اسے محسوس نہیں کر پاتا۔ شاعر کی یہ کیفیت ایک ایسی صورتحال کو بیان کرتی ہے جہاں جسمانی طور پر سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دل کو سکون نہیں ملتا۔

عدیم ہاشمی

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا

سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو

میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی

جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا

ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا

آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں

تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا

یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں

آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا

سینکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب

ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا

یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ

بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیمؔ

ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا

Loading