Daily Roshni News

*ذہن، حقیقت اور وہم*

*ذہن، حقیقت اور وہم*

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )انسان کی سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ جس دنیا کو دیکھ رہا ہے، اسے ہی حقیقت سمجھ لیتا ہے، حالانکہ وہ دنیا کو براہِ راست نہیں دیکھتا بلکہ اپنی آنکھوں پر چڑھی ہوئی ایک ذہنی عینک کے ذریعے دیکھتا ہے۔ یہ عینک اس کے تجربات، یادداشتوں، خواہشات، خوف اور تعصبات سے بنی ہوتی ہے۔ یوں حقیقت خود کو جس صورت میں ظاہر کرتی ہے، انسان اسے ویسے نہیں دیکھ پاتا، بلکہ ویسا دیکھتا ہے جیسا اس کا ذہن اجازت دیتا ہے۔ اس نکتے کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقت موجود نہیں، بلکہ یہ کہ انسان کا ادراک حقیقت کا ہم معنی نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم جانتے ہیں، وہ حقیقت نہیں بلکہ حقیقت کی ایک تعبیر ہے، اور یہ تعبیر ہمارے اندرونی نظام کے ہاتھوں تشکیل پاتی ہے۔

گوتم بدھ جب اپنے بھکشو مہامتی سے کہتے تھے کہ یہ سب مائنڈ ہے—دوزخ مائنڈ ہے، جنت مائنڈ ہے، دنیا مائنڈ ہے، حتیٰ کہ منور ہونا اور نروان تک بھی مائنڈ ہے—تو وہ خارجی کائنات کا انکار نہیں کر رہے تھے۔ ان کا اشارہ انسانی تجربے کی ماہیت کی طرف تھا۔ انسان جس دنیا میں جیتا ہے، وہ دراصل ذہن کے ذریعے مرتب کی گئی دنیا ہے۔ خوشی اور غم، امن اور اضطراب، جنت اور دوزخ—یہ سب حالتیں باہر سے کم اور اندر سے زیادہ جنم لیتی ہیں۔ اگر ذہن کی کیفیت بدل جائے تو وہی دنیا جنت بھی بن سکتی ہے اور دوزخ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ بدھ کے نزدیک اصل مسئلہ دنیا نہیں بلکہ ذہن ہے۔

یہی ذہن جب چیزوں کو نام دیتا ہے، شناخت عطا کرتا ہے، انہیں مستقل اور خودمختار سمجھنے لگتا ہے، تو وہ حقیقت کے بہاؤ کو روک دیتا ہے۔ حقیقت بہتی رہتی ہے، بدلتی رہتی ہے، مگر ذہن اسے منجمد تصویروں میں قید کر لیتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دنیا وہ نہیں رہتی جو ہے، بلکہ وہ بن جاتی ہے جو ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ ایک درخت تب تک محض درخت نہیں رہتا جب تک ذہن اسے مفاد، ملکیت، فائدے یا نقصان کے سانچے میں نہ ڈھال دے۔ اس لمحے حقیقت ایک تصور میں بدل جاتی ہے۔

اسی لیے بدھ نے دنیا کو جادو نگری اور مایا کہا۔ جیسے جادو میں سب کچھ دکھائی دیتا ہے مگر ویسا نہیں ہوتا جیسا نظر آتا ہے، ویسے ہی دنیا بھی ظاہر تو ہوتی ہے مگر مستقل، خودمختار اور جامد نہیں ہوتی۔ ہم جن چیزوں کو ٹھوس اور پائیدار سمجھتے ہیں، وہ درحقیقت لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہوتی ہیں۔ مگر ذہن اس تبدیلی کو نظرانداز کر کے ایک ٹھہری ہوئی تصویر بنا لیتا ہے، اور پھر اسی تصویر کو حقیقت مان لیتا ہے۔

زیرو، صفر، عدم وجود، یعنی خلا، کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا موجود نہیں، بلکہ یہ کہ دنیا میں وہ مستقل اور آزاد ذات موجود نہیں جو ہم اس پر تھوپ دیتے ہیں۔ ہر شے باہمی انحصار سے وجود میں آتی ہے۔ کوئی بھی چیز اپنے آپ میں مکمل نہیں۔ جیسے ایک کرسی لکڑی، وقت، کاریگر اور مقصد کے بغیر وجود نہیں رکھتی، ویسے ہی ہر شے دوسرے عناصر کی محتاج ہے۔ مگر ذہن اس باہمی انحصار کو بھلا کر ہر شے کو ایک الگ اور مستقل ہستی بنا دیتا ہے، اور یہی وہم کا آغاز ہے۔

علامہ اقبال اسی حقیقت کو اپنی مخصوص بصیرت میں یوں بیان کرتے ہیں کہ

“پیشِ نگاہ ہے جو کچھ، جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی” یعنی جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے، وہ حقیقتِ مطلقہ نہیں بلکہ حسی تجربات کی ایک تیز لہر ہے جو ذہن میں رنگ، بو اور آواز کی صورت ابھرتی ہے۔ یہاں پیشِ نگاہ سے مراد آنکھ نہیں بلکہ شعوری ادراک ہے۔ اقبال سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ واقعی ایک ٹھوس اور قائم کائنات ہے، یا یہ صرف حواس کے ذریعے آنے والی معلومات کا ایک سیلاب ہے جسے ہم نے حقیقت سمجھ لیا ہے۔

جدید سائنس بھی اس نکتے کی تائید کرتی ہے کہ حقیقت اپنی اصل میں ذرات، توانائی اور میدانوں پر مشتمل ہے، مگر ذہن اسے میز، کرسی، درخت اور انسان کی شکل میں ترجمہ کرتا ہے۔ حقیقت بے رنگ ہے، مگر ہم اس پر رنگ چڑھاتے ہیں تاکہ اسے سمجھ سکیں، برت سکیں، اور اس میں زندہ رہ سکیں۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم اس ترجمے کو ہی اصل سمجھ لیتے ہیں۔

اسی فکری سلسلے میں ڈیکارٹ کا مقولہ “I think therefore I am” اپنی جگہ درست ہے، مگر اس کی گہرائی میں اترنے پر ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے: اگر میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں، تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں ایک سوچ ہوں۔ کیونکہ جو “میں” ہے، وہ سوچ کے بغیر قائم نہیں رہتا۔ جیسے ہی سوچ کا دھارا بدلتا ہے، “میں” کی صورت بھی بدل جاتی ہے۔ بچپن کا میں، جوانی کا میں اور بڑھاپے کا میں—یہ سب مختلف ذہنی ساختیں ہیں، جنہیں ہم ایک لفظ “میں” میں سمو دیتے ہیں۔

کئی فلسفیوں نے اسی بنیاد پر thing اور thought کو ایک ہی حقیقت کے دو رخ قرار دیا۔ ہر چیز پہلے خیال بنتی ہے، پھر شکل اختیار کرتی ہے۔ عمارت، قانون، ریاست، مذہب—سب پہلے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان نے ستارے بنائے ہیں، بلکہ یہ کہ ستاروں کا جو مفہوم، معنی اور تجربہ ہمیں حاصل ہے، وہ ذہن کے بغیر ممکن نہیں۔

جس لمحے “میں” وجود میں آتا ہے، اسی لمحے “تم” بھی وجود میں آ جاتا ہے۔ جیسے بچہ پیدا ہوتے ہی عورت ماں بن جاتی ہے۔ “میں” کے ساتھ “تم” کا آنا لازمی ہے، اور پھر تعلق، مقابلہ، ملکیت اور کشمکش کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لیے سارتھر نے کہا کہ “دوسرا انسان دوزخ ہے”، کیونکہ دوسرا ہماری خودی کی آزادی پر حد قائم کرتا ہے، اور یہی حد ذہن میں دوزخ بن جاتی ہے۔

اب اصل سوال یہ نہیں کہ سب کچھ ذہن ہے یا نہیں، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت بھی ذہن ہے؟ بدھ، اقبال اور عرفانی روایت کا مشترکہ جواب یہ ہے کہ حقیقت غیر متبدل ہے، مگر انسان اسے براہِ راست نہیں دیکھ پاتا۔ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے، مگر ہم اسے اپنے تصورات، شناختوں اور خواہشات کے پردوں سے دیکھتے ہیں۔ یہی پردے ہماری آنکھوں پر پڑ جاتے ہیں۔

حقیقت آئینے کی طرح شفاف ہے، مگر ہم اس آئینے پر اپنے خیالات، عقائد اور وہم کی گرد جما لیتے ہیں، اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں کچھ صاف نظر نہیں آتا۔ اسی لیے عارفین کی دعا یہ رہی ہے کہ “اے رب! مجھے حقیقت کو ویسا دکھا جیسی وہ ہے، نہ کہ ویسا جیسا میں دیکھنا چاہتا ہوں۔”

یہی دعا اس پورے فکری سفر کا حاصل ہے۔

دنیا کو بدلنے سے پہلے ذہن کو پہچاننا، اور ذہن کو پہچاننے سے پہلے یہ جان لینا کہ حقیقت ہم سے بڑی ہے، مستقل ہے، اور ہمارے تصورات کی محتاج نہیں۔

۔

طبیب وجاہت علی خان

03096207007

Loading