راستے بند ہیں۔
تحریر۔۔۔محمد منشا یاد
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ راستے بند ہیں۔۔۔ تحریر۔۔۔محمد منشا یاد) میلہ دیکھنے آنے والے اس شخص کی انوکھی 0000 کہانی جس کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی، لیکن اس نے میلے میں آنے والے ہر فرد کی لذت اپنے اندر اتار لی تھی، حتی کہ موت کی لذت بھی…..
وہ میلہ دیکھنے آیا ہوا ہے اور اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ میں اس سے پوچھتا ہوں۔ جب تمہاری جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ تو تم میلہ دیکھنے کیوں آئے ہو…..؟” وہ ، بنتا. وہ پہلے روتا ہے ، پھر بنتا ہے محمدم اور کہتا ہے۔ میں میلے میں نہیں آیا…. میلہ خود میرے چاروں طرف لگ گیا ہے اور میں اس میں گھر گیا ہوں۔ میں نے باہر نکلنے کی کئی بار کوشش کی ہے مگر مجھے راستہ بھائی نہ دیا۔“
مجھے اس کی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی اس لیے پریشان ہو جاتا ہوں کیونکہ میں اس کی نگہداشت پر مامور ہوں۔ مجھے پتہ نہیں مجھے اس کی نگہداشت پر کس نے مامور کیا ہے ؟ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ مجھے ہر وقت اس کے ساتھ رہنا ہے اور اسے بھٹکنے
سے بچاتا ہے۔
میلہ زوروں پر ہے۔ چاروں طرف انسان ہی انسان نظر آتے ہیں۔ جتنے لوگ میلے سے جاتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ د منشا یاد آجاتے ہیں۔ سڑکوں پر ہر طرف تانگے، بیل گاڑیاں، بسیں ، ٹرک، کاریں اور موٹر سائیکلیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ناکام کوشش کرتی ہیں۔ ہارن بجاتی، دھواں اڑاتی نظر آتی ہیں۔ ہارن بجا بجا کر ڈرائیوروں کے اور مسلسل گھنٹیاں بجا بجا کر سائیکل سواروں کے ہاتھ تھک گئے ہیں۔ پیدل چلے والوں کے چہرے دھول سے اٹے ہوئے ہیں اور کپڑوں پر گرد جھی ہے۔ لیکن میلے کے شور نے ان کے تھکے ہوئے نڈھال جسموں میں نئی روح پھونک دی ہے۔ میلے کی فضا کو دھوئیں، گرد اور شور و غل کے بادلوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ بڑے بڑے لاؤڈ سپیکروں پر انسانی آوازیں گر جتی اور چنگھاڑتی ہیں۔ جھولوں کی نہیں، ڈھولوں کی گھرکاریں، مداریوں کی بانسریوں کی کو کیں اور خوانچہ فروشوں کی صدائیں ایک دوسرے میں خلط ملط ہو رہی ہیں۔ ان سینکڑوں قسم کی آوازوں کے شور میں اسے سوڈا واٹر کی بوتل کھلنے کی ”بک“ جیسی آواز سب سے اچھی لگتی ہے۔ وہ اسے کسی سریلے نفے کی طرح سنتا اور چاہتا ہے۔ میں نے کئی بار چلا چلا کر اسے آگے بڑھنے کے لئے کہا ہے مگر وہ سوڈا واٹر کی بوتلوں کی دکان کے سامنے پتھر ہو گیا ہے۔ میرے لیے عجیب مشکل ہے۔ کاش میں اس سے علیحدہ ہو سکتا، اسے اس کی حال پر چھوڑ کر جا سکتا۔ میں اس کی کمینی حرکتوں سے عاجز آگیا ہوں۔ مجیب ندیدہ آدمی ہے۔ صبح وہ کتنی ہی دیر تک اس کڑاہی کے قریب کھڑا جھلستا ر ہا جس پر پوریاں تھی جارہی تھیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں، وہ بار بار جیب میں ہاتھ ڈالتا پھر خالی ہاتھ کو یوں گھورتا جیسے اس کی ہتھیلی پر گرم گرم پوری رکھی ہو۔ عجیب واہیات انسان ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے آدمی کے سامنے اکڑوں بیٹھے کتے کی آنکھوں میں اتنا دیدہ پن نہیں ہوتا، جتنا حلوہ پوری کھاتے اور فالو دہ پیتے لوگوں کو دیکھ کر اس کی نگاہوں سے جھلکنے لگتا ہے۔ وہ میلہ دیکھنے آیا ہے۔ اور میلے میں دیکھنے کی سینکڑوں چیزیں ہیں۔ تھیٹر کے مسخرے، ناچتی گاتی عورتیں، سرکس کے جانوروں کے کرتب، موت کے کنویں میں چلتی موٹر سائیکل اور چلانے والے کی گود میں بیٹھی لیڈی، اوپر نیچے جاتے جھولے ، فلم کی ٹاکی پر دو گانے گاتے ہوئے عاشق و معشوق اور مداری کے توپ چلاتے طوطے لیکن اسے ان میں سے کسی چیز سے دلچسپی نہیں حالانکہ سرکس کے باہر قلمی ریکارڈوں کی دھنوں پر ناچتے مسخروں کو دیکھنے پر تو خرچ بھی کچھ نہیں آتا مگر اسے صرف کھانے پینے کی چیزوں سے دلچسپی ہے۔ اسے پھلوں، مٹھائیوں، فالودوں، آئس کریموں، سوڈا واٹر کی بوتلوں اور سیخوں میں پروئے ہوئے مرغوں کو دیکھنا، گھورنا اور ان کی خوشبو سونگھنا اچھا لگتا ہے۔ حالانکہ دونوں وقت پیر صاحب کے ڈیرے پر سے بھنڈارے کی دال روٹی مل جاتی ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ رات وہ مجھے دیر تک ان مٹھائیوں، پھلوں اور چیزوں کے نام گنواتا رہا جو اس نے کبھی نہیں چکھی تھیں۔ یہ فہرست اتنی طویل تھی کہ میں اُکتا گیا اور اسے مشورہ دیا کہ وہ صرف ان چیزوں کے نام بتائے جن کے ذائقے سے وہ آشنا ہے۔
لیکن وہ رضامند نہ ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ لذیذ چیزوں کے ذکر سے حاصل ہونے والی لذت سے محروم ہو نا نہیں چاہتا۔
میلے میں اس کی جان پہچان کے اورلوگ بھی تھے۔
الہی بخش نمبر دار کا لڑکا عاشق ہے جو اپنے یار دوستوں کے ہمراہ میلے پر آیا ہے۔ اس کے ڈیرے پر ہر وقت مجرا ہو تا رہتا ہے اور شراب کی بوتلیں خالی ہوتی رہتی ہیں۔ طوائفیں سروں پر رکھے اور دانتوں سے پکڑے ہوئے نوٹ چن چن کر تھک جاتی ہیں۔ اس نے کئی بار ارادہ کیا کہ وہ عاشق کے ڈیرے پر چلا جائے لیکن میں نے اسے منع کر دیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ وہاں دن رات چلمیں بھرتا رہے۔ پھر سردار محمد تھانیدار ہے۔ اسے اعتباری آدمیوں کی ضرورت بھی ہے لیکن میں نے اسے سردار محمد کے پاس جانے سے بھی منع کر دیا ہے۔ علیا نائی اپنے حال میں مست ہے۔ جو میلے میں خالی ہاتھ نہیں آیا۔ اپنے ساتھ رچھانی لیتا آیا۔ اس کا جب جی چاہتا ہے حجامتیں۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل 2015