Daily Roshni News

راستے بند ہیں۔۔۔ تحریر۔۔۔محمد منشا یاد۔۔۔قسط نمبر2

راستے بند ہیں۔

تحریر۔۔۔محمد منشا یاد

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ راستے بند ہیں۔۔۔ تحریر۔۔۔محمد منشا یاد) پاکستان کے مایہ ناز ادیب منشا یاد 5 ستمبر 1937ء کو شیخو پورہ میں پیدا ہوئے، پیشے کے اعتبار سے وہ سول انجینئر تھے، ان کا اصل نام محمد منشاء تھا، تاہم انہوں نے منشا یاد کے قلمی نام سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا افسانہ انیس سو پچپن میں منظر عام پر آیا، رفتہ رفتہ انہوں نے افسانے کی دنیا میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ان کے افسانوں میں خواب سراب ، ڈور کی آواز، درخت آدمی، وقت سمند ر ساس اور مٹی، بند مٹھی میں جگنو، خلا اندر خلا، کچی پکی قبریں مارشل لاء سے مارشل لاء پنک، اور تماشا اعلیٰ ترین افسانے ہیں۔ انہوں نے کئی ناول اور یادگار ڈرامے بھی تحریر کئے ، جن میں بندھن، جنون آواز پورے چاند کی رات اور راہیں نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔ فمن افسانہ نگاری میں ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے 2004ء میں انھیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔ 2006ء میں انھیں پنجابی میں بہترین ناول نگاری کا بابا فرید ادبی ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ 2010ء میں انھیں عالمی فروغ ادب ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی ایوارڈز حاصل کئے۔ منشا یاد نے 15 اکتوبر 2011ء کو اسلام آباد میں وفات ہائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ منشا یاد کے افسانوں میں علامت نگاری اور تجرید پائی جاتی تھی۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں جن علامتوں کو استعمال کیا ہے، انہیں سمجھنے کے لئے قاری کو کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ منشا یاد نے قاری کا بہت خیال رکھا ہے۔ ان کے تمام افسانے ان کے اسی اسلوب نگارش کے غماز ہیں۔ “راستے بند ہیں ان کے بہترین علامتی افسانوں میں سے ایک ہے ، اس انوکھی کہانی کا یہ عجب کردار ، جو خالی جیب میلا دیکھنے آیا تھا، میلے کے ہر فرد کے اندر کی ساری لذت اس نے اپنے اندر اتار لی تھی۔ حتی کہ موت کی لذت بھی اس کے اندر اتر گئی تھی۔

بنانے لگتا ہے اور جب جی چاہتا ہے تھیٹر دیکھنے چلا جاتا ہے۔ تھیٹر دیکھتے ہوئے بھی وہ قریب بیٹھے ہوئے لوگوں کے ناخن تراشتا رہتا ہے۔ صرف مہر و سانسی ایک ایسا آدمی ہے جو اسے دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور خوشی کے اظہار کے لیے جب بھی سامنے آتا ہے دانت نکالتا ہے یا پھر کالو ہے جو اسے دیکھتے ہی دم ہلانے لگتا ہے حالانکہ اس نے زندگی بھر اسے سوکھی روٹی کا ٹکٹ ایک نہیں ڈالا۔

اسے مہر و سانسی اچھا لگتا ہے شاید اس لیے کہ مہرو گندی چیزیں سمیت ہر طرح کی کھانے پینے کی چیزوں کے ذائقوں سے آشنا ہے۔ پچھلی رات تو اس نے حد ہی کر دی تھی۔ رات کو جب اچانک آندھی آگئی تو کالو کے ساتھ پناہ لینے کے لئے ایک تخت پوش کے نیچے نفس گیا تھا، تخت ہوش کے نیچے قلاقند سے بھری کراہی رکھی تھی جسے اس نے اور کالو نے خالی کر دیا۔ اس دن میرو کو باہر نکل کر دو بار گلے میں انگلی ڈال کر قے کرنا پڑی تھی۔ اگر کالو کی دم اس کے پاؤں کے نیچے نہ آجاتی تو ایک آدھ بار اور قے کر کے وہ گلاب جامنوں کا بھی صفایا کر دیتا۔ اسے مہرو اور کالو پر رشک آتا تھا۔ اگر میں اس کے ہمراہ نہ ہو تا یا اس ہے بے پرواہ ہو کر سویا رہتا تو وہ یقیناً بھٹک جاتا۔ چل میں بھرتا۔ دلالی کرتا یا پھر کسی تخت پوش کے نیچے گھس کر قلاقند یا گلاب جامنیں کھا رہا ہو تا۔ اس نے کئی بار ارادہ کیا کہ کسی حلوائی کی دکان یا کسی ہوٹل میں گھس کر جی بھر کے کھائے اور خود کو دکاندار یا پو لیس کے حوالے کر دے۔ لیکن میں نے ہر لمحہ اسے ایسی حرکتوں سے بار رکھا ہے۔ میلے کا آج تیسر ا روز ہے۔ اور میں نہایت مشکل میں ہوں۔

وہ بغاوت پر آمادہ ہے۔ مجھے اس کے تیور بگڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سوڈا واٹر کی بوتل کھلنے کی “یک” جیسی آواز سن کر اس کی تشفی نہیں ہوتی۔

وہ حلوہ پوری، قلاقند اور بالو شاہی کے ذکر سے مطمئن نہیں ہوتا۔ بھنے ہوئے گوشت اور روسٹ مرغ کی خوشبو سے اس کا جی نہیں بہلاتا اور وہ پھلوں کے نام گنوا کر لذت حاصل کرنے پر قناعت نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا ہے۔ لعن طعن اور علامت کی ہے لیکن وہ مصر ہے کہ وہ ہر قیمت پر ان سب چیزوں کو چکھ کر دیکھنا چاہتا ہے جن کے ذائقے سے وہ نا آشنا ہے۔ گزشتہ رات ہم دونوں دیر تک لڑتے جھگڑتے رہے ہیں۔ میں نے اسے صاف صاف بتا دیا ہے کہ اگر وہ باز نہ آیا تو مجھے زندہ نہ دیکھے گا لیکن اس کا کہنا ہے کہ اگر اس نے اپنی خواہش کا گلا گھونٹ دیا تو گھٹ کر مر جائے گا۔

میں عجیب الجھن میں ہوں۔ شاید وہ وقت آگیا ہے۔ جب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم دونوں میں سے کے زندہ رہنا چاہیے۔میں زندور ہتا چاہتا ہوں۔

لیکن میں اسے بھی زندہ، خوش اور مطمئن دیکھتا چاہتا ہوں۔ میں اس کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتا ہوں اور اسے مداری کے کرتب، جھولوں کے مناظر اور مسخروں کے ناچ دکھانا چاہتا ہوں لیکن وہ قیمہ کریلے، بھنے ہوئے گوشت اور روسٹ مرغی اور قلاقند کے ڈائنوں کے لئے قتل وغارت پر اتر آتا ہے۔

وہ کہتا ہے ” جب یہ سب چیزیں موجود ہیں تو میں ان کے ذائقوں سے محروم کیوں ہوں۔“

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔ اسے کیسے سمجھاؤں اور بھٹکنے سے کیسے بچاؤں…؟ میلے کا آخری اور چو تھا روز ہے۔

رات مجھے ایک نہایت اچھو تا خیال سوجھا ہے اور میں نے بڑی مشکل سے یہ بات اس کے ذہن نشین کرائی ہے کہ اصل میں سب انسان ایک ہی انسان کا پر تو ہیں یا اصل میں انسان ایک ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ کہیں وہ قلاقند کھا رہا ہے۔ کہیں ناخن تراش رہا ہے۔ کہیں روسٹ مرغ اُڑتا ہے اور کہیں بھنڈارے کی دال روٹی پر اکتفا کرتا ہے۔ اس لیے جو کچھ بھی دنیا میں ہو رہا ہے یا کھایا پیا جا رہا ہے اس کی لذت انسان کی مشترکہ لذت ہے۔ چنانچہ جب وہ کسی کو حلوہ پوری کھاتے ریکھتا ہے تو اسے محسوس کرنا چاہئے کہ خود حلوہ پوری کھا رہا ہے اور اس لذت میں برابر کا حصہ دار ہے۔

مجھے اس کی یہ عادت بے حد پسند آئی کہ جب اس کے ذہن میں کوئی بات بٹھا دی جائے تو وہ اس سے سومو ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس نے جلد ہی میری اس انوکھی تجویز پر عمل کرناشروع کر دیا ہے۔ بک “ بوتل کھلنے کی آواز آتی ہے۔

ایک دبلا پتلا آدمی بوتل منہ سے لگاتا ہے۔ وہ اپنی جگہ کھڑا مسکرا کر میری طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے۔

واده واده کیا ٹھنڈی ٹھار اور مزے دار بوتل ہے۔”

پھر آستین سے منہ پونجھ کر کہنا ہے۔ مزا آگیا۔ “ سیخ کبابوں کی خوشبو لپکتی ہوئی آتی ہے اور اس کے قدم روک لیتی ہے۔

وہ منہ کھولے بغیر تیکوں کو دانتوں سے کانا چباتا ہے۔ پھر ان کی لذت محسوس کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ”ذرا سخت ہیں، مگر گوشت سخت ہی ہو تو مزا دیتا ہے۔“

میں اطمینان کا سانس لیتا ہوں۔

اس کی نظریں بالو شاہی کے تھال پر ہیں۔ وہ دکان کے کچھ فاصلے پر کھڑے کھڑے بالو شاہی کھانا شروع کر دیتا ہے۔ کھاتے کھاتے اس کا منہ تھک جاتا ہے۔ پیٹ پھول جاتا ہے مگر بالو شاہی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ میں کہتا ہوں اور کھا “۔

نہیں بس“ وہ ڈکار لیتے ہوئے جواب دیتا ہے۔پاپڑ دیکھ کر کہتا ہوں۔ منہ سلونا کرو گے ؟“

”ہاں….“پانی اس کے دانتوں تلے کر کرتے ہیں۔ “کیسے ہیں؟”

بہت اچھے ہیں بس ذرا مصالحہ تیز ہے“۔اور کیا پسند کرو گے ؟“

میں نے آج تک سیب نہیں چکھا۔ میں اسے پھلوں کی دکان کے سامنے لے جاتا ہوں اور سیبوں کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہوں ” یہ سیب ہیں تم جتنے چاہے کھا سکتے ہو“۔ وہ ایک سیب نگاہوں سے اٹھاتا ہے۔ دانتوں سے کاتا ہے اور کہتا ہے۔

یہ تو ناشپاتی ہے“۔ یہ ناشپاتی نہیں سیب ہے۔ تم اسے سیب کی

طرح محسوس کر کے کھاؤ“۔وہ پھر دانتوں سے کانا ہے اور کہتا ہے ”یہامرود ہے“۔یہ امرود نہیں سیب ہے”۔ وہ پھر کوشش کرتا ہے اور پھر کہتا ہے۔” یہ آڑو ہے”۔مجھے غصہ آجاتا ہے۔ “تم الو کے پٹھے ہو … وہ مجھے او اس نظر و سے دیکھتا ہے اور پھر روہانساہو کر کہتا ہے:” مجھے کیا پتہ سیب کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے….؟ میں نے کبھی کھایاہی نہیں“۔”اچھا چھوڑو …. میں کہتا ہوں۔اب آگے چلتے ہیں“ہم باری باری ایک دوسرے کی انگلی پکڑے چلنے لگتے ہیں۔ ایک جگہ بہت سے لوگ جمع ہیں۔ “کیابات ہے بھائی ؟“۔وہ پوچھتا ہے۔حادثہ ہو گیا ہے۔ آدمی ٹرک کے نیچے آکروہ پریشان ہو کر میری طرف دیکھتا ہے۔ پھر کہتا ہے….. شرک.. گزر رہا ہے“..میرے اوپر سے ٹرکنہیں….“ میں چلاتا ہوں۔لیکن اس سے پہلے میں کچھ اور کہوں وہ دھڑامسے نیچے گر جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹھنڈاہو جاتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اپریل 2015

Loading