Daily Roshni News

روبوٹکس ٹیکنالوجی اور مسلمان سائنسدان

روبوٹکس ٹیکنالوجی اور مسلمان سائنسدان

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کچھ متعصب اہل یورپ کا دعویٰ ہے کہ سائنس کی ترقی میں صرف ان کا حصہ ہے  مگر اس حقیقت سے کوئی  انکار نہیں کرسکتا کہ تجرباتی سائنس کی بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی ہے اور اس کا اعتراف  بہت سے اہل علم نے کیا ہے  مثلاً ایک انگریز مصنف’’رابرٹ بریفالٹ‘‘ اپنی کتاب ’’The Making of Humanty‘‘ ’’دی میکنگ آف ہیومینٹی‘‘ میں لکھتا ہے کہ “مسلمان عربوں نے سائنس کے شعبہ میں جو کردار ادا کیا وہ حیرت انگیز دریافتوں یا انقلابی نظریات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی ترقی یافتہ سائنس ان کی مرہون منت ہے” جب کہ جان ولیم ڈریپرا اپنی کتاب “یورپ کی ذہنی ترقی‘‘ میں لکھتا ہے کہ مسلمان عربوں نے سائنس کے میدان میں جو ایجادات و اختراعات کیں وہ بعد میں یورپ کی ذہنی اور مادی ترقی کا باعث بنی”

جس وقت یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا تو مسلمان سائنسی اور ثقافتی دریافت کے  حوالے سے روشن باب تحریر کر رہے تھے بلا شبہ اب یورپ مسلمانوں سے سائنسی لحاظ سے صدیوں آگے نکل چکا ہے لیکن مسلم تاریخ کے اس روشن دور کی چند ایسی اہم ایجادات ایسی بھی ہیں جن کی وجہ سے آج کی جدید ترین دنیا کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے انسانی تاریخ  آج اپنے اہم ترین دور سے گزر رہی ہے

”Imagine a world without Muslims‘‘

”تصورکریں مسلمانوں کے بغیر دنیا کیسی ہوتی‘‘

مشینی دور سے ہزاروں سال پہلے خودکار مشینوں کا تصور پیدا ہو گیا تھا قدیم یونان میں اس حوالے سے جو کوشش کی گئی خود کار مشینوں یا روبوٹ سازی  کہا جاسکتا ہے تاریخ History سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک یونانی سائنسدان نے مشینی کبوتر بنایا تھا  جو پرواز کرتا تھا روم کی جو باقیات ملی ہیں ان میں بھی میکینکل مشینوں یا روبوٹس کے آثار ملتے ہیں

علامہ ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاص الحنفی (المتوفی 370ھ) کی “احکام القرآن” نامی تفسیر میں ایک مشینی انسان کا واقعہ ملتا ھے اس کے علاوہ دنیائے اسلام کے  پہلے مسلمان سائنس دان خالد بن یزید بن معاویہؓ نے اپنی لیبارٹری میں بعض ایسی ایجادات کیں جن سے عربوں کو فنِ حرب میں رومیوں پر برتری حاصل ہوئی رومی فوجیں لڑائی میں کریک فائر استعمال کرتی تھیں یہ ایک کیمیائی مرکب تھا، جس کی ایک پچکاری چلانے سے آگ لگ جاتی تھی جس چیز پر یہ مرکب پڑتا  اس میں آگ لگ جاتی علامہ خالدؒ کی لیبارٹری میں اس کا فارمولا تیار کرلیا گیا اس کیمیائی مادے کو ایک پرندے کی شکل کے روبوٹ میں ڈال کر اسے آگ لگائی جاتی تو یہ اڑنے لگتا اور رومی افواج کے اوپر چکر لگا کر پھٹ جاتا تھا  اس کیمیکل مرکب کی دریافت  اور اس کے استعمال سے مسلمان آلاتِ حرب میں بہت زیادہ مؤثر ہوگئے۔اس بارے میں مزید معلومات کے لیے  تاریخ” ابن خلکان” اور جورجی زیدان (Jurji Zaydan) کی کتاب ’’تاریخ تمدنِ اسلامی‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا

اس طرح  فخر الدین رازی کی مشہور و معروف کتاب جامع العلوم یا، حدایق الانوار فی حقایق الاسرار جس کا ترجمہ ساٹھ (60) علوم  کے عنوان سے اردو میں موجود ہے اس کتاب میں 60 علوم کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے ان علوم میں ایک” علم آلات حرب” کے تحت انسان کے مشابہ پتلوں یعنی روبوٹ بنانے اور اس میں بارود بھر کر دشمن کی فوج میں داخل کرنے کے طریقے بتائے گئے ہیں

13ویں صدی کے مسلمان سائنسدان الجزری نے  مشین یا روبوٹ کے اس کام کو آگے بڑھایا اورخودکار مور بنایا  ابو العز اسماعیل بن الرزاز الجزاری ISMAIL AL-JAZARI   (1136–1206)  جن کو  روبوٹکس کا باپ کہا جاتا ہے الجزاری کی كتاب  “في معرفة الحيل الهندسية”  کا انگریزی ترجمہ  The Book of Knowledge of Ingenious Mechanical Devices 1974ء میں ڈینیل ہل نے کیا اور پاکستان ہجرہ کونسل نے اسے 1989ء میں پاکستان سے شائع کیا تھا  انھوں نے اپنی کتاب میں جن ایجادات کا ذکر کیا ہے ساتھ ہی خاکوں کی مدد سے اس کی وضاحت بھی کی ہے ان میں پروگرام ایبل آٹومیشن، کنیکٹنگ راڈ، ہیومنائڈ روبوٹکس اور کرینک میکانزم، شامل ہیں۔اس کے علاؤہ الجزاری نے 50 مکینیکل ایجادات  کو بھی خاکوں کی مدد سے دستاویزی شکل دی وہ مختلف ہائیڈرولک گیئر کے ذریعے کنٹرول کیے جانے والے جدید پری ماڈرن روبوٹ بنانے کے لیے مشہور تھا۔  اس نے بہت سے  ایسے آلات ایجاد کیے جو آج کے روبوٹس کا پیش خیمہ تھے اسماعیل الجزاری کی حیرت انگیز ایجادات جن میں جدید انجینئرنگ ، ہائیڈرولک اور یہاں تک کہ روبوٹکس کی بنیاد رکھی۔ الجزری نے عملی مشینیں بھی بنائیں جو عام لوگوں کی مدد کرتی تھیں ، جن میں پانی کھینچنے والے آلات بھی شامل تھے جو صدیوں سے کسان استعمال کرتے تھے

Ismail Al-Jazari was a polymath: a scholar, inventor, mechanical engineer, artisan, artist and mathematician from the Artuqid Dynasty of Jazira in Mesopotamia.’The Book of Knowledge of Ingenious Mechanical Devices’ is a medieval Arabic book written by Ismail al-Jazari in the 12th century. It describes over fifty mechanical devices and automata, including clocks, water-raising machines, musical automatons, and humanoid robots. Al-Jazari provides detailed instructions for constructing each device and includes anecdotes and historical references. The book had a significant influence on the development of European clockmaking and automata, and it offers insights into daily life and technological innovations in the Islamic world during the medieval period. It’s his book that influenced key concepts of modern day robotics.

اس کے بعد 15ویں صدی میں لیونارڈوڈاونچی نے اس تحقیق کا رخ مصنوعی سپاہی بنانے کی طرف موڑدیا آج انسان روبوٹ سازی میں جس قدر پیشرفت کرچکا ہے اس کے پیش نظرہم بہت وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک نئے انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں

پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت تاخیر سے کیا جاتا ہے  تاہم حالیہ چند برسوں میں پاکستان میں روبوٹکس کی تعلیم اور تربیت دینے والے اداروں کی تعداد میں اضافہ اور کچھ نجی اسکول اور جامعات میں طلبا کو روبوٹ بنانے کی باقاعدہ تربیت دینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ تاہم ملک کی زیادہ تر جامعات اور اسکولوں میں بنیادی کھلونا روبوٹ تیار کیے جا رہے ہیں، لیکن کچھ ادارے اور افراد ایسے بھی ہیں جو قدرتی آفات اور دفاعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے روبوٹس کو مکمل طور پر پاکستان میں تیار کر رہے ہیں 1984ء کی بات ھے جب راقم الحروف ایک ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ کے حکومتی ادارے جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے زیرِ اہتمام کام کرتا ھے روبوٹ پر کام کیا تھا یہ بنیادی طور پر ایک کٹ پر مشتمل تھا جس کا نام  HERO 1  تھا جو کہ امریکن کمپنی Heathkit نے 1982ء میں تیار کی تھی 

Heathkit Introduces the HERO 1  Self-Contained Mobile Robot in 1982

(Heathkit Educational Robot ET-18)  a self-contained mobile robot controlled by an onboard computer with a Motorola 6808 CPU and 4 kB of RAM. The robot featured light, sound, and motion detectors as well as a sonarOffsite Link ranging sensor.  The robot could  accomplish practical tasks and was directed toward the entertainment and educational markets. An optional arm mechanism and speech synthesizer was produced for the kit form, and included in the assembled form.Offsite Link Offsite Link To make these functions available in a simple way, high-level programming languages Off site Link were created.

سوچنے کی بات ھے کہ 1982ء میں یہ روبوٹ امریکہ میں ایجاد ھوتا ھے اور صرف دو سال کے بعد یہ کٹ فارم میں پاکستان پہنچ جاتا ھے اور اس پر تحقیقی کام بھی شروع ھو جاتا ھے اور اس کے  PCB بھی بننا شروع ھو جاتے ہیں اس کی پروگرامنگ میں تبدیلی بھی ادارے کے انجینئرز کر لیتے ہیں اور یہ اردو زبان میں بات کرتا تھا اگر اس وقت اس پروجیکٹ پر توجہ دی جاتی تو آج پاکستان Robotic Technology میں کہاں تک پہنچا ھوتا ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ 77برسوں میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح وطنِ عزیز نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی بہت سے سنگِ میل عبور کیے باوجود ایسا ملک جس کی پیدائش پر اس کے پاس نہ تو مناسب انفراسٹرکچر تھا اور نہ ہی وسائل  لیکن ان تمام رکاوٹوں کے باوجود آج اس کا شمار عالمِ اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت میں کیا جاتا ہے پچھلے 77 سالوں میں ہمارے سائنسدانوں نے طب، کیمیاء، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی غرض یہ کہ سائنس کے ہر شعبے میں قابل ذکر ترقی کی ہے ان سائنسدانوں نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ملک میں اور بین الاقوامی سطح پر نمایاں خدمات سرانجام دے کرملک و قوم کا نام روشن کیا آج روبوٹسکس کے حوالے سے ایک پاکستانی سائنسدان  ڈاکٹر حمزہ خان ذکر کرتے ہیں VOA کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایک پاکستانی  طالب علم سائنسدان، ڈاکٹر حمزہ خان نےجنیوا یونیوسٹی، اٹلی کے پروجیکٹ کے تحت، ہائیڈرولک کی مدد سے چلنے والا ’چار ٹانگوں والا چھوٹا روبوٹ‘ تیار کر لیا ہے اُن کے ڈیزائن کردہ روبوٹ بہت چھوٹے ہیں اور چابک دستی سے اپنا کام کرتے ہیں اور انھیں ریسکو مقاصد کے لئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے ڈاکٹر حمزہ خان نے روبوٹکس میں ہی پی ایچ ڈی کی ہے انھوں نے وارسا یونیوسٹی پولینڈ اور جنیوا یونیورسٹی اٹلی سے ماسٹرس کی ڈگری بھی لی تھی ڈاکٹر حمزہ خان پاکستان کے علاقے میانوالی میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی جہاں انھیں یونیورسٹی نے میڈل سے نواز انھوں نے اپنی تمام تعلیم اسکالر شپ سے مکمل کی اور رسرچ میں بھی انھیں یورپی یونیورسٹیز کی اسکالر شپ حاصل رہی

نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے

ذرا  نم ہو  تو یہ مٹی  بہت زرخیز ہے ساقی

پاکستانی نوجوان صلاحیتوں سے مالامال ہیں لیکن ملک میں تحقیق کے لئے وسائل موجود نہیں، جس کی وجہ سے، نوجوانوں میں جدید ٹیکنالوجی پر تحقیق کے رجحانات بھی نہیں پائے جاتے۔

(روبوٹکس  کے بارے میں میری ایک پرانی پوسٹ

کمنٹس میں)

Loading