Daily Roshni News

روحانیت سو سائٹی کے لئے کیوں ضروری ہے۔۔۔تحریر۔۔۔منیر حسین صدیقی۔۔۔(قسط نمبر1)

روحانیت سو سائٹی کے لئے کیوں ضروری ہے۔

تحریر۔۔۔منیر حسین صدیقی

(قسط نمبر1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ روحانیت سو سائٹی کے لئے کیوں ضروری ہے۔۔۔۔ تحریر۔۔۔منیر حسین صدیقی)سوسائٹی میں بہتری کا عمل فرد سے شروع ہوتا ہے اور جب بہتری کا عمل افراد سے مکمل ہو کر سوسائٹی تک پہنچتا ہے تو یہ ترقی زیادہ مستحکم اور دیر پا ہوتی ہے۔

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک مثال سے مدد حاصل کرتے ہیں۔ معاشیات کے طالب علم اپنے سبجیکٹ کا مطالعہ دو حصوں میں کرتے ہیں، ایک میکرو اکنامکس یعنی معاشیات بحیثیت مجموعی اور دو سر اما تکرو اکنامکس یعنی معاشیات انفرادی یا اکائی حیثیت میں۔

مثلاً ہمارے ملک میں ہر سال ملکی بجٹ تیار کیا جاتا ہے۔ اسے میکرو اکنامکس قرار دے سکتے ہیں۔ اس قومی بجٹ میں ایک سرکاری ملازم کی تنخواہ بھی شامل ہے۔ اس ایک فرد کے بھی کچھ معاشی اخراجات ہوتے ہیں۔ ایک فرد یا ادارہ کا بجٹ مائکرو اکنامکس میں شمار کیا جاتا ہے۔ میکرو اکنامکس اس وقت تک زیر بحث نہیں آتی جب تک اُس میں بہت سی اکائیوں (افراد اور اداروں) کی اکنامکس (ما تکر واکنا مکس) شامل نہ ہو۔

 اس مثال کو ذہن میں رکھئے تو یہ دکھائی دے گا کہ دنیا کا کوئی بھی نظام ہو اُس کے دو حصے ہوتے ہیں ایک اجتماعی اور دوسرا انفرادی۔ سوسائٹی بھی ایک اجتماعی تشخص ہے یعنی یہ بہت سارے افراد ( یا انفرادی اکائیوں) کا مجموعہ ہے۔ سوسائٹی کا ہر فرد اہمیت رکھتا ہے۔ جس سوسائٹی میں ایک ایک فرد کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ اجتماعی سسٹم بنایا جاتا ہے، اُس کی کامیابی، بہتری یا ترقی کے امکانات زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ یہ نسبت اس کے کہ صرف میکرو لیول ہی کو اہمیت دی جائے اور عام فرد کو نظر انداز کر دیا جائے۔

 اس تمہید کے بعد ہم اصل موضوع کی جانب آتے ہیں۔ ہمارے ہاں سوسائٹی کی بہتری کے لیے ماہرین اور دانش ور بہت اچھے اچھے مشورے دیتے ہیں۔ ہمارے قابل احترام مذہبی دانش ور کہتے ہیں کہ شرعی نظام کا نفاذ کر دیا جائے تو معاشرہ ترقی کر جائے گا…. اقتصادیات سے وابستہ ماہرین سمجھتے ہیں کہ ملک کی معیشت و اقتصادیات مضبوط کر دی جائے تو سارے مسائل حاصل ہو سکتے ہیں۔ کچھ لوگ سیاسی نظام میں تبدیلی کو بہتری کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ ماہرین کی ایک بڑی تعداد تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کو ملکی خوش حالی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جرائم غربت و نا انصافی جیسی سماجی برائیاں ختم کر دی جائیں تو ہم ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔

یہ تمام حل اور مشورے بلاشبہ ملک کی ترقی کے لیے ضروری اور اہم ہیں۔ ان تمام مفید عام مشوروں کا تعلق معاشرے کی مجموعی حیثیت یا میکرولیول سے ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں سوسائٹی کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں کی بہتری سےپر بھر پور زور دیا گیا ہے۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد مصطفی علی ایم کی سیرت طیبہ میں ان انفرادی و اجتماعی) دونوں پہلوؤں کے بارے میں واضح رہنمائی موجود ہے۔

سیرت طیبہ

ایک بے مثل رول ماڈل: معلم اعظم رسول اللہ ﷺ کی زندگی، ہمارے ر پاک ہم نے ہر فرد کی انفرادی سامنے ہے۔ حضور پاک لی کیا کہ ہم تربیت، تزکیہ اور اعلیٰ انسانی قدروں کی تعمیر کا خصوصی اہتمام فرمایا۔

رسول الله ﷺکی تعلیمات کا پہلا مرکز عام آدمی تھا۔ آپ سلام کی تعلیمات عام آدمی پر اثر انداز ہوئیں جو کسی بھی سوسائٹی کا پہلا یونٹ ہوتا ہے۔ آپ نام کی ابتدائی توجہ کا مرکز سوسائٹی کا یہی بنیادی یونٹ یعنی فرد تھا۔ اس طرح توحید کے پروانے شمع رسالت کے گرد جمع ہوتے گئے، یہاں تک کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ مدینہ کی سرزمین پر ایک پاکیزہ معاشرہ قائم ہو گیا۔ اب رسول اللہ ﷺ نے انفرادی سطح پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اجتماعی سطح پر بھی فلاحی نظام کی بنیادیں رکھیں۔ جب یہ معاشرتی نظام قائم ہو گیا تو حضور نبی کریمﷺ ہم نے پیغام توحید کو دنیا کے ہر گوشے میں پھیلانے کا پرو گرام بنایا۔ خطہ عرب کے نمایاں سردار ان قبائل اور دنیا کے مختلف بادشاہوں کے نام سفارتی خطوط روانہ کئے گئے۔

آپ ای ایام کا ارسال کردہ ہر خط توحید باری تعالی اور حضور می یام کی رسالت کا اعلان اور پیغام تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے اُسوہ حسنہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سوسائٹی میں بہتری کا عمل فرد سے شروع ہوتا ہے۔ جب بہتری کا عمل افراد سے مکمل ہو کر سوسائٹی تک پہنچتا ہے تو یہ ترقی زیادہ متکلم اور دیر پا ہوتی ہے۔ خاتم السیمین لی ایم کی تعلیمات سادہ اور عام فہم ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کی روشن نشانیوں کا ذکر آسان انداز میں کیا گیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کا مخاطب ہر انسان ہے، چاہے وہ ایک عام شخص ہو یا کوئی دانش ور یا سائنس دان ہو۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک کی تعلیمات کو آسان اور عام فہم رکھنے کا بار بار ذکر بھی فرمایا ہے : اور بے شک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا ہے، پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والاہے۔(سورہ قمر17:54)

صوفیائے کرام کا طرز تبلیغ: صوفیاء و سالکین نے عوام و خواص میں اللہ تعالی کی محبت، حب رسول ، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور خدمت خلق کی ترغیب کا خصوصی اہتمام فرمایا۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ، حضرت خواجہ معین چشتی ، حضرت داتا گنج بخش، حضرت جنید بغدادی، حضرت شہاب الدین سہروردی، حضرت فرید گنج شکر . خواجه نقشبند، بابا فرید حضرت نظام الدین اولیاء، بابا تاج الدین ناگپوری، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور قلندر بابا اولیاء سمیت دیگر اولیائے کرام نے عام فرد کو اپروچ کیا۔

اولیاء اللہ کے آستانوں پر مزارع یا آن پڑھ مزدور سے لے کر اعلیٰ سرکاری افسر یا بادشاہ تک سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو سینے سے لگایا جاتا ہے۔ غم اور درد و الم میں ڈوبے افراد کو حال دل سنانے کا موقع دیا جاتا ہے۔ ان پریشان حال۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2023

Loading