روحانیت سو سائٹی کے لئے کیوں ضروری ہے۔
تحریر۔۔۔منیر حسین صدیقی
(قسط نمبر2)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ روحانیت سو سائٹی کے لئے کیوں ضروری ہے۔۔۔۔ تحریر۔۔۔منیر حسین صدیقی) لوگوں کی دستگیری مال و اسباب سے نہ ہو سکے تو میٹھے بول اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ان سے بات چیت کرلی جاتی ہے۔ ان مراکز سے لوگوں میں عشق حقیقی اور حب رسولی کام کی نعمت فراواں ہوتی ہے۔ یہاں سے لوگوں کو اعلیٰ اخلاق و کردار، ایثار، قربانی، اخلاص اور اپنائیت کا سبق ملتا ہے۔ اللہ والوں کے در سے لوگوں کو ذہنی سکون اور توانائی میسر آتی ہے۔ یوں اللہ والوں کے ادارے سوسائٹی کے انفرادی یونٹوں یعنی افراد معاشرہ کی ذہنی و روحانی تطہیر کا اور خداشناسی کا ذریعہ بنتے رہے ہیں۔ معاشروں کو یہ ضرورت ماضی میں بھی تھی، آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
نظام حیات میں روحانی تعلیمات سے رہنمائی اسلام نے باطنی تطہیر کی جو روحانی طرزیں بیان کی ہیں ان کو صوفیانہ اصطلاحات میں طریقت حقیقت، تصوف یار وحانیت سے موسوم کیا جاتا ہے۔ روحانیت سے مراد خدا سے ملنے یا اس کا عرفان حاصل کرنے یا مالک حقیقی کے وصل اسے پانے کی شدید ترین آرزو ہے۔
روحانیت روح انسانی کا اپنی اصل (خدا) سے قریب ہو جانے کا اشتیاق ہے۔ تصوف و روحانیت کا نقطہ ماسکہ یہ ہے کہ اے انسان تیرا مقصود حقیقی اللہ ہے۔ تو حالت عبادت میں ہے یا معاملاتِ زندگی میں ہر کام یہ سوچ کر کرنا کہ تیرا محبوب اللہ تیرے ذہن و دل سے اوجھل نہ ہونے پائے۔
اللہ اور رسول اللہ ﷺسے شدید محبت اور عشق بندے کی نفسیات میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ اللہ تعالی کی رضا اس بندے کی زندگی میں اہم ترین بن جاتی ہے۔ وہ اللہ کی مرضی کے تناظرمیں چیزوں کو پر کھتا اور معاملاتِ زندگی انجام دیتا ہے۔ معاشرے کے ابتدائی یونٹ یعنی افراد کی تشکیل اگر ان روحانی طرزوں پر ہو جائے تو اس کے نتیجے میں معاشرے کا جو بھی نظام بنایا جائے گا اُس میں خیر ہی خیر آجائے گی مثلار وحانی طرزوں سے آراستہ بندے جب حکومت، سیاست، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، اقتصادیات، سماجی انصاف یا دوسرے نظاموں کی بہتری میں شامل ہوں گے تو ترقی اور بہتری کے امکانات زیادہ روشن ہوں گے۔ اس طرز فکر کے حامل بندے کی زندگی کا ہر پہلو اللہ کی پسندیدہ طرزوں میں ڈھلنے لگتا ہے مثلاً گھر، محلہ، بازار، دفتر، کارخانه، درسگاہ، تھانہ، کچہری، چھاؤنی پارلیمنٹ یہاں تک کہ میدانِ جنگ میں ایسا بندہ یا بندے ہر معاملہ میں اللہ کی مرضی کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم یہاں صوفیانہ تعلیمات کی ایک اہم کڑی بیسویں صدی میں روحانیت کے ایک نمایاں اور درخشندہ ستارے قلندر بابا اولیاء کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔
معاشرت:قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں کہ زاہدانہ زندگی کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنا معاشرتی کردار بھر پور انداز میں پورا کرے لیکن ہر نعمت کو من جانب اللہ سمجھے۔آپ ؒفرماتے ہیں :
زاہدانہ زندگی یہ نہیں ہے کہ آدمی خواہشات کو فنا کر کے خود فنا ہو جائے۔ آدمی اچھا لباس پہننا ترک کر دے۔ پھٹا پرانا اور پیوند لگا لباس پہننا ہی زندگی کا اعلیٰ معیار قرار دے لے۔ اگر ایسا ہو گا تو دنیا کے سارے کارخانے اور تمام چھوٹی بڑی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی اور لاکھوں کروڑوں لوگ بھوک زدہ ہو کر ہڈیوں کا پنجر بن جائیں گے۔ اللہ نے زمین کی کوکھ سے وسائل اس لیے نہیں نکالے کہ ان کی بے قدری کی جائے ، ان کو استعمال نہ کیا جائے۔ اگر روکھا سوکھا کھانا ہی زندگی کی معراج ہے تو بارش کی ضرورت نہیں رہے گی۔ زمین بنجر بن جائے گی۔ زمین کی زیبائش کے لیے اللہ نے رنگ رنگ پھولوں، پتوں، درختوں، پھلوں، کو ہساروں اور آبشاروں کو بنایا ہے۔ بندہ کو چاہئے کہ اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت کو خوش ہو کر استعمال کرے لیکن خود کو اس کا مالک نہ سمجھے۔ اللہ روکھی سوکھی دے تو اسے بھی خوش ہو کر کھائے۔ اللہ مرغ پلاؤ دے تو اسے بھی خوش ہو کر کھائے۔ دروبست اللہ کو اپنا کفیل سمجھے اور ہر حال میں اللہ کا شکر گزار بندہ بنار ہے “۔
سماجی و فلاحی نظام:قلندر بابا اولیاء مخلوق خدا کی خدمت کو اللہ تعالی تک پہنچنے کا ایک راستہ اور استغنا کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں
استغنا حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان کی سوچ اور طرزِ فکر اس طرزِ فکر سے ہم رشتہ ہو جو اللہ کی طرزِ فکر ہے۔ اللہ کی طرزِ فکر یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے اور اس خدمت کا کوئی صلہ نہیں چاہتا۔
با با صاحب مزید فرماتے ہیں
نوع انسانی میں مرد، عورتیں، بچے، بوڑھےسب آپس میں آدم کے ناطے خالق کائنات کے تخلیقی راز و نیاز ہیں، آپس میں بھائی بہن ہیں۔ نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا۔ بڑائی صرف اس کو زیب دیتی ہے جو اپنے اندر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اللہ کی صفات کے سمندر کا عرفان رکھتا ہو۔ جس کے اندر اللہ کے اوصاف کا عکس نمایاں ہو ، جو اللہ کی مخلوق کے کام آئے۔ کسی کو اس کی ذات سے تکلیف نہ پہنچے“۔
توحید باری تعالی سے مزین عالمگیر نظام: قلندر بابا اولیاء نے عالمی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے رہنمائی فرمائی ….. آج کی نسل گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہے اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہوں گی۔ نتیجہ میں نوع انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطہ توحید کی طرف لوٹنا پڑ گیا تو تو بجز اس نقطہ کے نوع انسانی کسی ایک مرکز پر کبھی جو جمع نہیں ہو سکے گی۔ موجودہ دور کے مفکر کو چاہئے کہ وہ وحی کی طرز فکر کو سمجھے اور نوع انسانی کی غلط رہنمائی سے دست کش ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے جسمانی وظیفے جدا گانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام نوع انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے۔ اب صرف روحانی وظائف باقی رہتے ہیں جن کا مخرج توحید اور صرف توحید ہے۔ اگر دنیا کے مفکرین جد وجہد کر کے ان وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کر سکے تو وہ اقوام عالم کو وظیفہ روحانی کے ایک ہی دائرہ میں اکٹھا کر سکتے ہیں اور وہ روحانی دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔ اس معاملہ میں تعصبات کو بالائے طاق رکھنا ہی پڑے گا، کیونکہ مستقبل کے خوفناک تصادم چاہے وہ معاشی ہوں یا نظریاتی، نوع انسانی کو مجبور کر دیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت لگا کر اپنی بقا تلاش کرے اور بقا کے ذرائع قرآنی توحید کے سواکسی نظام حکمت سے نہیں مل سکتے ۔“ [ لوح و قلم۔ صفحہ 209]
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2023