روح کی غذا اور سکون کا ذریعہ فقط ذکرِ الٰہی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اگر اللہ نے زندگی دی اور آپ ساٹھ کی دہائی میں داخل ہو گئے تو پھر! سمجھ لیں ہم زندگی کے آخری مرحلے میں داخل ہو جاتے ہیں۔
تو پھر ہمیں مکمل اندھیرا چھانے سے پہلے، کچھ “مناظر” ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔ اگر ہم انہیں یاد رکھیں، تو ذہنی طور پر تیار ہوں گے اور گھبرائیں گے نہیں۔
(پہلا منظر): آپ کے ساتھ کم لوگ ہوں گے۔
آپ کے بزرگ— والدین، دادا دادی وغیرہ — اکثر سب اس دنیا سے جا چکے ہوں گے۔
آپ کے دوست ہم عمر بھی یا تو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں گے یا اپنی ہی پریشانیوں میں الجھے ہوئے ہوں گے۔
نئی نسل اپنی زندگی میں مصروف ہوگی۔
حتیٰ کہ آپ کا شریکِ حیات بھی آپ سے پہلے جا سکتا ہے۔
آپ کے دن رات لمبے اور تنہا ہو سکتے ہیں۔
آپ کو اکیلے جینا اور تنہائی کا سامنا کرنا سیکھنا ہوگا۔
(دوسرا منظر): معاشرے کی توجہ آپ سے ختم ہو جائے گی۔
چاہے آپ کا ماضی کتنا ہی شاندار ہو، کتنے ہی معروف رہے ہوں—!!
بڑھاپے میں ہر کوئی ایک “عام بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت” بن جاتے ہیں۔
“روشنی کا ہالہ اب آپ پر نہیں ہوگا۔”
آپ کو چپ چاپ ایک طرف کھڑے ہو کر نئی نسل کی کامیابی اور جوش کو سراہنا سیکھنا ہوگا— بغیر حسد یا شکایت کے۔
(تیسرا منظر): راستے میں خطرات اور بیماریاں بڑھ جائیں گے۔
جوڑوں کا درد، ہڈیوں کا ٹوٹنا، دل کی بیماریاں، دماغ کی کمزوری، آنکھوں کی بینائی کے مسائل، سماعت کی کمزوری دیگر کئی مسئلے مسائل— سب آپ کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں۔ چاہے آپ چاہیں یا نہ چاہیں۔
آپ کو بیماری کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔ صحت کو کامل ہونے کا خواب چھوڑ دینا ہوگا۔
اچھا رویہ رکھنا اور مناسب ورزش کرنا آپ کا مشن بن جائے گا۔ آپ کی ہمت و حوصلہ بڑھانے والا کوئی نہ ہو گا۔ خود کو حوصلہ دینا سیکھیں۔
(چوتھا منظر): آپ واپس بستر تک محدود ہو سکتے ہیں، جیسے بچپن میں تھے۔
جیسے ہم پیدا ہوئے تھے تو “ماں” نے بستر پر ہمارا خیال رکھا۔
زندگی بھر کی جدوجہد کے بعد، ہم وہیں واپس آ جاتے ہیں: بستر پر۔
اب دوسروں کی دیکھ بھال کے محتاج ہوتے ہیں۔
لیکن اس بار شاید “ماں” جیسا پیار کرنے والا کوئی نہ ہو۔
اگر کوئی ہے بھی، تو ممکن ہے وہ اتنی محبت سے نہ کرے—
اکثر یہ خدمتگار ہوتے ہیں، جو باہر سے مسکراتے ہیں مگر اندر سے بے صبرے ہوتے ہیں۔
آپ کو عاجزی اور شکرگزاری کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔
(پانچواں منظر): راستے میں بہت سے لوگ دھوکہ دیں گے۔
ٹھگ جانتے ہیں کہ بزرگوں کے پاس کچھ جمع پونجی ہوتی ہے—
وہ ہر طریقہ آزمائیں گے: فون، پیغامات، ای میل، مفت چیزیں، کرشماتی علاج، “بابا جی کی برکت”، لمبی عمر کی گولیاں—سب کچھ، صرف آپ کی جیب خالی کرنے کے لیے۔
ہوشیار رہیں۔ اپنا پیسہ بچائیں۔ عقلمندی سے خرچ کریں۔
(چھٹا منظر): اپنے شریکِ حیات “یا قریبی ساتھی” کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔
نرمی سے بات کریں، محبت سے، خیال رکھیں—خاص طور پر اپنے شریکِ حیات کا۔
وہ آپ کی آخری “زندگی کی بچت” ہیں۔
60 کے بعد بچوں پر انحصار غیر یقینی ہے۔
ان کی اپنی زندگی، اپنا خاندان ہوتا ہے۔
آپ کی خوش قسمتی ہے کہ اگر آپ شریکِ حیات بھی حیات ہے۔ آپ کے ساتھ ہے۔ تو آخر میں صرف آپ دونوں ہی ایک دوسرے کا سہارے رہ جاتے ہیں۔
اس عمر میں بھٹکنے کا نہیں، بس ایک دوسرے کو کھونے کا خوف ہوتا ہے، ڈر ہوتا ہے۔
رات پوری طرح چھانے سے پہلے، زندگی کا یہ آخری حصہ آہستہ آہستہ مدھم ہوتا ہے، اور سفر مشکل ہوتا جاتا ہے۔
لہٰذا 60 کے بعد، زندگی کو حقیقت کے ساتھ دیکھنا سیکھیں۔
اسے پیار کریں، اس سے لطف اٹھائیں۔
نہ معاشرے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں، نہ بچوں کی زندگی میں دخل دیں۔
نہ دوسروں پر رعب ڈالیں، نہ انہیں کمتر سمجھیں—
“ورنہ ایسا رویہ صرف خود کو اور دوسروں کو تکلیف دیتا ہے۔”
بڑھاپے میں ہمیں عزت دینا سیکھنا ہے۔
زندگی کے آخری مرحلے کو سمجھداری، سکون، اور روحانی تیاری کے ساتھ قبول کرنا ہے۔ اب جسم کی فکر نہیں بلکہ روح کی توانائی اور روح کے سکون کا سوچیں جو اگر جوانی میں نہیں کر سکے! شاید یہی منشاء ایزدی ہے۔ کیونکہ روح کی غذا اور سکون کا ذریعہ فقط ذکرِ الٰہی، یادِ الٰہی اور دیدارِ الٰہی میں ہے۔
قدرت کی طرف سے دئیے گئے اس راستے پر خاموشی سے چلتے جائیں۔
“رات بہت آہستہ آہستہ اترتی ہے”— آئیے زندگی کے آخری پڑاؤ کے لیے نرمی اور دانائی سے تیاری کریں…”
![]()

